ناقابلِ توجیہ حوادثِ حیات

سوال: انسانی زندگی میں بہت سے واقعات و حوادث ایسے رونما ہوتے رہتے ہیں کہ جن میں تخریب و فساد کا پہلو تعمیر و اصلاح کے پہلو پر غالب نظر آتا ہے۔ بہت سے واقعات ایسے ہوتے ہیں جن کی کوئی حکمت و مصلحت سمجھ میں نہیں آتی۔ اگر زندگی کا یہ تصور ہو کہ یہ خود بخود کہیں سے وجود میں آ گئی ہے اور اس کے پیچھے کوئی حکیم و خبیر اور رحیم طاقت کارفرما نہیں ہے، تب تو زندگی کی ہر پریشانی اور الجھن اپنی جگہ صحیح ہے کیونکہ اس کو پیدا کرنے میں کسی عقلی وجود کو دخل نہیں ہے، لیکن مذہب اور خدا کے بنیادی تصورات اور ان واقعات میں کوئی مطابقت نہیں معلوم ہوتی۔

خواب میں زیارتِ نبویؐ

سوال: براہِ کرم مندرجہ ذیل سوال کے بارے میں اپنی تحقیق تحریر فرما کر تشفی فرمائیں۔

حضورﷺ کی حدیث ہے کہ جس نے مجھے خواب میں دیکھا تو درحقیقت اس نے مجھے ہی دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری تمثال میں نہیں آسکتا۔ اور کماقال۔

اس حدیث کی صحیح تشریح کیا ہے؟ کیا نبیﷺ کو جس شکل و شباہت میں بھی خواب میں دیکھا جائے تو یہ حضورﷺ ہی کو خواب میں دیکھنا سمجھا جائے گا؟ کیا حضورﷺ کو یورپین لباس میں دیکھنا بھی آپ ہی کو دیکھنا سمجھا جائے گا؟ اور کیا اس خواب کے زندگی پر کچھ اثرات بھی پڑتے ہیں؟

گول مول جوابات

سوال: بعض لوگوں کا خیال ہے کہ آپ ہمیشہ ہر مسئلہ کا گول مول جواب دیتے ہیں، اور اگر مزید وضاحت چاہی جائے تو آپ بگڑ جاتے ہیں یا پھر جواب سے بے بس ہو کر انکار کر دیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے کہ میں ہنوز ایسے انسانوں کا ہم خیال نہیں ہوں، کیونکہ جہاں تک میں جانتا ہوں آپ ہمیشہ مسئلہ کو دوٹوک اور وضاحت سے سمجھاتے ہیں۔ خدا کرے میرا یہ حسنِ ظن قائم رہے۔

مباہلہ و مناظرہ

سوال: میرے ایک عزیز نے جو ایک دینی مدرسے کے فارغ ہیں، مجھ سے یہ دریافت کیا ہے کہ مولانا مودودیؒ دعوتِ مباہلہ و مناظرہ کو کیوں قبول نہیں کرتے حالانکہ نبیﷺ نے خود یہودسے مباہلہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا، اور انبیاء و سلف صالحین بھی مناظروں میں شریک ہوتے رہے ہیں۔ مخالفین بار بار آپ کو چیلنج کرتے ہیں لیکن آپ ان سے نہ مباہلہ کرتے ہیں اورنہ ہی مناظرہ کے لیے تیار ہوتے ہیں۔ میں نے اپنی حد تک اپنے عزیز کو مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے اور ان سے کہا ہے کہ ہر مباہلے یا مناظرے کی دعوت قبول کرنا فرض یا سنت نہیں ہے تاہم اگر آپ بھی اس بارے میں اپنا عندیہ بیان کر دیں تو وہ مزید موجب اطمینان ہوگا۔

اعتراض کے پردے میں بہتان

اعتراض کے پردے میں بہتان

سوال: رمضان ۱۳۷۵ھ میں آپ نے کسی کے چند اعتراضات شائع کر کے ان کے جواب دیے ہیں۔ اعتراض نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے لکھا ہے کہ ’’یہ اعتراض نہیں بلکہ صریح بہتان ہے۔ میں نے اشارۃً و کنایۃً بھی یہ بات نہیں لکھی‘‘۔ دراصل اس معترض مذکور نے حوالہ دینے میں غلطی کی ہے۔ عزیز احمد قاسمی بی۔اے نے اپنی کتاب ’’مودودی مذہب حصہ اول‘‘ میں اس عبارت کے لیے ترجمان ربیع الثانی ۵۷ھ کا حوالہ دیا ہے۔ براہ کرم اس حوالے کی مدد سے دوبارہ تحقیق فرمائیں اور اگر عبارت منقولہ صحیح ہو تو اعتراض کا جواب دیں۔

بیوی اور والدین کے حقوق

بیوی اور والدین کے حقوق

سوال: میں نے آپ کی کتابیں پڑھی ہیں، جن سے ذہن کی بہت سی گرہیں کھل گئی ہیں۔ لیکن ایک چیز جو پہلے بھی دل میں کھٹکتی تھی اور اب بھی کھٹکتی ہے وہ یہ ہے کہ اسلام نے جہاں عورتوں کا درجہ کافی بلند کیا ہے، وہاں بحیثیت بیوی کے بعض امور میں اس کو تحقیر بھی کر دیا ہے۔ مثلاً اس پر تین تین سوکنوں کا جلاپا جائز کر دیا ہے۔ حالانکہ قدرت نے عورت کی فطرت میں حسد بھی رکھا ہے۔ اسی طرح جہاں بیوی کو شوہر کے قبضہ و اختیار میں رکھا گیا ہے وہاں شوہر کو اپنے والدین کے قبضہ و اختیار میں کر دیا ہے۔ اس طرح شوہر والدین کے کہنے پر بیوی کی ایک جائز خواہش کو بھی پامال کر سکتا ہے۔ ان امور میں بظاہر بیوی کی حیثیت چار پیسے کی گڑیا سے زیادہ نظر نہیں آتی۔ میں ایک عورت ہوں اور قدرتی طور پر عورت کے جذبات کی ترجمانی کر رہی ہوں۔ آپ براہِ کرم اس بارے میں میری تشفی فرمائیں۔

اذکارِ مسنونہ

اذکارِ مسنونہ

سوال: آج آپ کی خدمت میں ایک خلش پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ توقع ہے کہ میری پوری مدد فرمائیں گے۔ واقعہ یہ ہے کہ میں ایک بریلوی خاندان کا فرد ہوں۔ بچپن میں غیر شعوری حالت میں والد بزرگوار نے حضرت سلطان باہو رحمتہ اللہ کے سجادہ نشین سلطان امیر مرحوم کے ہاتھ پر میری بیعت کرائی۔

حضرت سلطان باہوؒ ضلع جھنگ کے ایک مشہور باخدا بزرگ ہیں جو حضرت اورنگزیب عالمگیر کے زمانے میں گزرے ہیں۔ حضرت نے تبلیغ و اشاعت دین میں پوری ہمت دکھائی اور جہاد میں بھی شرکت فرمائی۔

افسرانِ بالا کے آنے پر مستعدی کی نمائش

افسرانِ بالا کے آنے پر مستعدی کی نمائش

سوال: میں ایک ورکشاپ میں ملازم ہوں، مگر ہمیں کبھی کبھی باہر دوروں پر بھی جانا پڑتا ہے۔ ان دنوں ہمیں کام بہت کم ہوتا ہے اور اس وجہ سے ہم اپنے اوقات کے اکثر حصے یونہی بیکار بیٹھ کر گزارتے ہیں۔ لیکن جب ہمیں یہ معلوم ہو جائے کہ ہمارا کوئی آفیسر یہاں سے گزرنے والا ہے یا گزر رہا ہے تو فوراً ہی ہم اِدھر اُدھر کھڑے ہو جاتے ہیں اور ہاتھ پاؤں مارنے شروع کر دیتے ہیں تاکہ آفیسر کو معلوم ہو جائے کہ ہم کچھ کر رہے ہیں۔ اور جب وہ گزر جاتا ہے تو پھر ہم آرام سے بیٹھ جاتے ہیں اور بعض مواقع پر ایسا بھی ہوتا ہے کہ پتہ نہیں کہ آفیسر کو ہمارے متعلق کیا خیال گزرے گا۔ اگرچہ میں اس قسم کا مظاہرہ بہت کم کرتا ہوں۔ جب بھی اس قسم کی صورتحال سامنے آتی ہے تو طبیعت بہت پریشان ہوتی ہے۔ بڑی گھبراہٹ ہوتی ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ چیز بھی مجھے خدا کی عدالت میں مجرم بنا کر کھڑا کر دے۔ براہِ کرم اس سلسلہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطہ نظر

مصائب کے ہجوم میں ایک مومن کا نقطہ نظر

سوال: میرا تیسرا بیٹا پونے چار سال کی عمر میں فوت ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ یہاں آکر پہلے دو لڑکے فوت ہوئے، اب یہ تیسرا تھا۔ اب کسی نے شبہ ڈالا تھا کہ جادو کیا گیا ہے۔ جس دن سے یہ بچہ پیدا ہوا اسی دن سے قرآن پاک کی مختلف جگہوں سے تلاوت کر کے دَم کرتا رہا۔ فرق صرف یہ ہوا کہ پہلے لڑکے پورے دو سال کی عمر میں فوت ہوتے رہے، یہ پونے چار سال کو پہنچ گیا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ جادو بھی چند الفاظ ہوتے ہیں۔ اس کے توڑنے کو قرآن پاک کے الفاظ تھے۔ پھر دعائیں بھی بہت کیں۔ بوقت تہجد گھنٹوں سجدہ میں پڑا رہا ہوں۔ لیکن کچھ شنوائی نہیں ہوئی۔ حالانکہ اللہ تعالیٰ کی ذات حاضر و ناظر اور سمیع و بصیر ہے۔ کیا حق تعالیٰ جادو کے اثر کے لیے مجبور ہی ہو جاتے ہیں؟ لوگ قبر والوں کے نام کی بودیاں رکھ کر پاؤں میں کڑے پہنا کر اولاد بچائے بیٹھے ہیں لیکن ہم نے اسے شرک سمجھ کر اس کی طرف رجوع نہیں کیا۔ لیکن ہمیں بدستور رنج اٹھانا پڑا۔ اکٹھے تین داغ ہیں جو لگ چکے ہیں۔ براہِ کرم اس غم و افسوس کے لمحات میں رہنمائی فرمائیں۔

نظامِ تعلیم کے متعلق چند بنیادی سوالات

نظامِ تعلیم کے متعلق چند بنیادی سوالات

سوال: بندہ درس تدریس کے کام سے ایک عرصہ سے وابستہ ہے اور آج کل یہاں زیر تعلیم ہے۔ یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔ چنانچہ شکاگو یونیورسٹی کی فرمائش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ اگر امریکن طرزِ تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔