نظامِ تعلیم کے متعلق چند بنیادی سوالات

سوال: بندہ درس تدریس کے کام سے ایک عرصہ سے وابستہ ہے اور آج کل یہاں زیر تعلیم ہے۔ یہاں ماہرین تعلیم سے اکثر تعلیمی موضوعات پر بحث رہتی ہے۔ چنانچہ شکاگو یونیورسٹی کی فرمائش پر بندہ ایک مقالہ قلم بند کرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں یہ بتانا مقصود ہے کہ پاکستان کی تعلیمی ضروریات امریکا اور دیگر ممالک کی ضروریات سے بہت مختلف ہیں۔ پاکستانی ضروریات کا حل اسلام کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ اگر امریکن طرزِ تعلیم بغیر سوچے اختیار کیا گیا تو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا خطرہ ہے۔

جناب کی بیشتر تصنیفات میری نظر سے گزر چکی ہیں اور اب رہنمائی کر رہی ہیں۔ ایک دو سوال کچھ اس پیچیدہ نوعیت کے درپیش ہوئے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ جناب سے براہ راست رہنمائی حاصل کی جائے۔ امید ہے کہ آپ اپنی تمام مصروفیات کے باوجود کچھ وقت نکال سکیں گے۔ اپنی گزارشات سلسلہ وار تحریر کرتا ہوں۔

۱۔ جن ملکوں میں صنعتی ترقی ہوئی وہاں لازمی طور پر عام اخلاقی تنزل ہوا۔ ملوں کارخانوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے عورت، مرد بچے تک مشینوں کے پرزے بن گئے۔ ان ملکوں میں نتیجہ کے طور پر کچھ مفکر پیدا ہوئے۔ (مثلاً امریکا میں جان ڈیوی) جنہوں نے نئی طرز کی زندگی کو نظریاتی سہارا دیا۔ روایات کو غلط قرار دیا اور سوسائٹی کی اقدار ہی کو بدل دیا۔ پاکستان میں ایک طرف تو صنعتی ترقی ضروری ہے۔ دوسری طرف اسلامی روایات اور اقدار کو قائم رکھنا فرض ہے۔ براہ کرم فرمایئے کہ یہ بظاہر متضاد مقاصد کیسے حاصل ہو سکتے ہیں؟ مشینی فضا میں روح کیسے تازہ رہ سکتی ہے؟ تبدیلیاں لازمی ہیں مگر کس حد تک قابل قبول ہیں؟

۲۔ اسلامی تعلیم کس قسم کی ہو؟ کیا سب کے لیے ہو؟ فری ہو یا نہ ہو۔ نمونے کی شخصیت جو اسکول کو پیدا کرنی چاہیے اس کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا ہمارے دینی مدارس ایسی شخصیتیں پیدا کر رہے ہیں؟

۳۔ نمونے کی اسلامی گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات کیا ہیں؟ کیا موجودہ گھریلو زندگی اسلامی ہے؟ کیا شہر اور گاؤں میں ایک طرز کی گھریلو زندگی ہوگی؟ موجودہ زندگی میں پرانی ہندوستانی روایات کا کتنا دخل ہے؟

جواب: یہ معلوم کر کے خوشی ہوئی کہ آپ آج کل امریکا میں فن تعلیم کی تحصیل مزید کر رہے ہیں۔ جن موضوعات کا آپ نے اپنے عنایت نامے میں ذکر کیا ہے وہ فی الواقع بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ ان کے متعلق مختصراً اپنے خیالات عرض کیے دیتا ہوں۔

انسانی تمدن میں مادی تغیرات کی مثال ان تغیرات کی سی ہے جو فرد انسانی کے جسم میں بچپن سے جوانی، جوانی سے کہولت اور کہولت سے بڑھاپے کی طرف منتقل ہوتے وقت رونما ہوتے ہیں۔ ان کا روح اور نفس سے گہرا تعلق ضرور ہے۔ مگر ان تغیرات کے نتائج کا کوئی ایسا متعین اور قطعی ٹھپہ نہیں ہے جو تمام انسانوں کے نفس پر ہمیشہ یکسانیت کے ساتھ لگتا ہو۔ بلکہ ان میں فرد فرد کے لحاظ سے بھی اور انسانی جماعتوں کے لحاظ سے بھی بڑا فرق ہوتا ہے۔ جس میں بہت سے دوسرے عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ اگر تعلیم، تربیت اور معاشرتی ڈھانچہ جو کسی فرد انسانی کو میسر آئے، ایسا صالح ہو کہ فرد کو ارتقاء حیات کی طرف لے جانے کے ساتھ ساتھ وہ ایک عمدہ اور مضبوط سیرت کو بھی اس کے اندر نشوونما دیتا رہے تو بچپن سے جوانی کی عمر میں داخل ہوتے وقت اس کی طبیعت جولانی غلط راہوں پر جانے کے بجائے بہترین تعمیری راہیں اختیار کرتی ہے اور یہی ارتقاء بڑھاپے تک صحیح طریقے سے بڑھتا رہتا ہے۔ لیکن اگر تعلیم کسی صحیح فکر کو نشوونما دینے والے فلسفے پر مبنی نہ ہو اور تربیت بھی غلط عادات و خصائل پیدا کرنے والی ہو اور پھر معاشرتی ڈھانچہ بھی بگاڑنے والا ہی میسر آئے، تو ایک بچہ آغاز ہوش ہی سے مجرم بننا شروع ہوتا ہے۔ جوان ہو کر چور ڈاکو بن کر اٹھتا ہے اور بڑھاپے تک اس کی جرائم پیشگی بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ اسی طرح انسانی تمدن میں جو مادی تغیر مثلاً صنعتی انقلاب سے رونما ہوا، اس میں بجائے خود کوئی خرابی نہ تھی۔ اس میں انسان کی بھلائی ہی کا سامان تھا، جیسے جوانی کا آنا بجائے خود کوئی برائی نہیں بلکہ انسان کے لیے اپنی ذات میں رحمت ہی ہے۔ لیکن قصور اس فلسفہ حیات کا تھا جو سولہویں، سترہویں صدی سے یورپ میں نشوونما پا رہا تھا۔ اس نے ذہن کو بگاڑا، ذہن کے بگاڑنے اخلاق خراب کیے اور اخلاق کی خرابی نے معاشرتی ڈھانچے کو، جو دور جاگیرداری سے بگڑا ہوا چلا آرہا تھا اور زیادہ بگاڑ کر رکھ دیا۔ اس حالت میں صنعتی انقلاب کی طاقت میسر آجانے سے قومیں کی قومیں جرائم پیشہ بن گئیں اور اب ایٹم کی طاقت پاکر تہذیب کی ساری نمائشوں کے باوجود اسفل السافلین کی طرف جارہی ہیں۔ اسی حالت میں جو فلاسفر لوگوں کو اس بگاڑ پر مطمئن کرنے کے لیے نئے نئے نظریاتی سہارے دیتے ہیں اور بگڑے ہوئے سانچے سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے سوسائٹی کی اقدار بدلنے کی کوشش کرتے ہیں ان کی مثال اس دشمن دوست نما کی سی ہے جو ایک بگڑتے ہوئے بچے کو پہلی مرتبہ جیب کاٹنے پر شاباش کہے اور اسے یقین دلائے کہ یہ جیب تراشی تو ایک بہترین آرٹ ہے جس کی مذمت کرنے والے لوگ محض دقیانوسی ہیں۔

میں یہ تسلیم نہیں کرتا کہ مادی ترقی کے مقاصد اور اسلامی اقدار کے مقاصد میں کوئی حقیقی تضاد ہے۔ نہ میں یہ جانتا ہوں کہ یورپ میں صنعتی ترقی کے ساتھ جس مخصوص تمدن و تہذیب نے نشوونما پایا ہے یہ صنعتی ترقی سے کوئی جوہری تلازم رکھتا ہے اور لازماً جب اور جہاں بھی یہ ترقی ہوگی وہاں یہی تہذیب ظہور میں آئے گی، یا آنی چاہیے۔ اسی طرح یہ مفروضہ بھی میرے لیے قابلِ قبول نہیں ہے کہ انسانی روح چرخے اور چاک اور چکی کے ساتھ تو تازہ دَم رہ سکتی تھی مگر مشین ہی کی فطرت کچھ ایسی ہے کہ اس سے سابقہ پیش آتے ہی اس روح پر مردنی چھا جائے۔ میرے نزدیک ایک صحیح فلسفۂ حیات سے اگر ذہن درست کیے جائیں، ایک صالح نظام اخلاق اگر سیرت گری کے لیے استعمال کیا جائے اور ایک معتدل و متوازن معاشرتی ڈھانچہ انسانوں کو سنبھالنے کے لیے موجود ہو تو صنعتی ارتقاء اور سائنس سے حاصل ہونے والی قوتوں کا استعمال موجودہ مغربی تمدن و تہذیب سے بنیادی طور پر بالکل مختلف ایک دوسرے تمدن و تہذیب کو نشوونما دے سکتا ہے، جو اس سے بدرجہا زیادہ طاقتور بھی ہو اور پھر انسانیت کے لیے باعث رحمت بھی۔ مجھے یقین ہے کہ اسلام اور صرف اسلام ہی ہمیں اس طرح کا فلسفۂ حیات اور نظام اخلاق دے سکتا ہے اور اس کی رہنمائی عملاً قبول کر کے اگر ہم اس کی ہدایات کے مطابق اپنا نظام تعلیم و تربیت عامہ اور اپنا معاشرتی ڈھانچہ بنا لیں تو ان شرائط کی تکمیل ہو سکتی ہے جو اوپر میں نے مادی ترقی کے ساتھ ایک صالح تہذیب کی تشکیل کے لیے بیان کی ہیں۔ اس معاملے میں یہودیت پہلے ہی مایوس کن تھی۔ عیسائیت نئے دور کے آغاز ہی میں ناکام ثابت ہو گئی اور بودھ مت سرے سے اس میدان کا مرد تھا ہی نہیں۔ رہے جدید مذاہب، سوشلزم، فاشزم اور کیپٹلزم سو وہ اپنے تمام عیوب و محاسن کھول کر سامنے لاچکے ہیں اور دنیا خوب دیکھ چکی ہے کہ ان کے محاسن کو ان کے عیوب سے کیا نسبت ہے۔ نیا کوئی فلسفہ بھی اب تک ایسا سامنے نہیں آیا ہے جو ایک تہذیب کی بنیاد بننے کی اہلیت رکھتا ہو۔ اس کو سوچنے والے تمام تر اہل مغرب ہیں اور وہ اپنی اس تہذیب کے زہریلے پن سے تنگ آنے کے باوجود اس کی بنیادوں میں تغیر کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ بلکہ ان کے ذہن اس کے حدود سے آزاد ہو کر سوچنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ وہ صرف جزوی ترمیمات سے کام چلانا چاہتے ہیں اور ان میں سے اکثر کی تجویز کردہ ترمیمیں مزید بگاڑ ہی کی طرف لے جانے والی ہیں۔

اس مختصر خط میں میرے لیے وہ وجوہ بیان کرنا مشکل ہے جن کی بناء پر میں اس معاملہ میں اسلام کو علیٰ وجہ البصیرت کافی ہی نہیں بلکہ انسانیت کے لیے ایک ہی شعاع امید سمجھتا ہوں۔ ان دلائل کے اعادہ کی ضرورت بھی نہیں ہے۔ کیونکہ میں انہیں اپنی متعدد کتابوں میں بیان کر چکا ہوں، مثلاً اسلامی تہذیب اور اس کے اصول و مبادی، مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوم وغیرہ، اس کے علاوہ میرے بہت سے مضامین میں بھی اس کی طرف اشارات موجود ہیں۔

آپ کے دوسرے سوالات کا جواب یہ ہے کہ اسلامی تعلیم اس دور کے لیے جس طرز پر دی جانی چاہیے اسے میں نے اچھی خاصی تفصیل کے ساتھ اپنی کتاب تعلیمات میں بیان کیا ہے۔ آپ اسے ملاحظہ فرما لیں۔ میرے نزدیک یہ تعلیم ہر بچے کو ملنی چاہیے خواہ وہ مرد ہو یا عورت، البتہ اس کے مدارج میں صلاحیتوں کے لحاظ سے فرق کیا جانا چاہیے۔ اس کو ابتدائی حد تک جبری اور کم ازکم ثانوی حد تک سب کے لیے بالکل مفت ہونا چاہیے، اور آگے کے مدارج میں خاص صلاحیت رکھنے والے نوجوانوں کی کفالت بھی ریاست کو کرنی چاہیے۔ جو نمونے کی شخصیت ایک مدرسے کو پیدا کرنی چاہیے اس کی خصوصیات صرف چار اسلامی اصطلاحوں میں بیان کی جاسکتی ہیں: مومن ہو، مسلم ہو، متقی اور محسن ہو، ان اصطلاحوں کو آپ جتنے زیادہ وسیع معنوں میں لیں گے شخص مطلوب اتنا ہی زیادہ جامع کمالات ہوگا۔ تنگ معنوں میں لیں تو صنعتی ترقی کی باتیں اور اس ترقی میں موجودہ تہذیب و تمدن کے فاسق و فاجر کھلاڑیوں سے مسابقت کا خیال چھوڑ دیں، پھر انشاء اللہ پاکستان و ہندوستان کی ہر مذہبی درسگاہ میں آپ کو نمونے مل جائیں گے۔

ہماری گھریلو زندگی کی بنیادی خصوصیات اسلام کی رو سے چار ہیں: ایک تحفظ نسب، جس کی خاطر زنا کو حرام اور جرم قابل تعزیر قرار دیا گیا ہے، پردے کے حدود قائم کیے گئے ہیں اور زَن و مرد کے تعلق کو صرف جائز قانونی صورتوں تک محدود کر دیا گیا ہے جن سے تجاوز کا اسلام کسی حال میں بھی روادار نہیں ہے۔ دوسرے تحفظ نظام عائلہ جس کے لیے مرد کو گھر کا قوام بنایا گیا ہے۔ بیوی اور اولاد کو اس کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے اور اولاد پر خدا کے بعد والدین کا حق سب سے زیادہ رکھا گیا ہے۔ تیسرے حسنِ معاشرت جس کی خاطرزن و مرد کے حقوق معین کر دیے گئے ہیں، مرد کو طلاق کے اور عورت کو خلع کے اور مرد و زن کے نکاح ثانی پر کوئی پابندی عائد نہیں کی گئی ہے تاکہ زوجین یا تو حسن سلوک کے ساتھ رہیں یا اگر باہم نہ نباہ سکتے ہوں تو بغیر کسی خرابی کے الگ ہو کر دوسرا بہتر خاندان بنا سکیں۔ چوتھے صلہ رحمی جس سے مقصود رشتہ داروں کو ایک دوسرے کا معاون و مددگار بنانا ہے اور اس غرض کے لیے ہر انسان پر اجنبیوں کی بہ نسبت اس کے رشتہ داروں کے حقوق مقدم رکھے گئے ہیں۔ افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اس بہترین نظام عائلہ کی قدر نہ پہچانی اور اس کی خصوصیات سے بہت کچھ دور ہٹ گئے ہیں۔ اس نظام عائلہ کے اصولوں میں شہری اور دیہاتی کے لیے کوئی فرق نہیں ہے۔ رہے طرزِ زندگی کے مظاہر تو وہ ظاہر ہے کہ شہروں میں بھی یکساں نہیں ہوسکتے، کجا کہ شہریوں اور دیہاتیوں کے درمیان کوئی یکسانیت ہو سکے۔ فطری اسباب سے ان میں جو فرق بھی ہو وہ اسلام کے خلاف نہیں ہے بشرطیکہ بنیادی اصولوں میں ردوبدل نہ ہو۔

(ترجمان القرآن۔ جلد ۵۱، عدد۶۔ مارچ ۱۹۵۹ء)