شیطان کی حقیقت

شیطان کی حقیقت

سوال: لفظ شیطان کی ماہیت کیا ہے جو قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور یوں بھی عام فہم زبان میں استعمال ہوتا ہے۔ کیا شیطان ہم انسانوں جیسی کوئی مخلوق ہے جو زندگی و موت کے حوادث سے دوچار ہوتی ہے اور جس کا سلسلہ توالد و تناسل کے ذریعہ قائم ہے؟ کیا یہ بھی ہماری طرح ہم آہنگی میں مربوط ہوتی ہے جس طرح سے ہم کھانے کمانے اور دیگر لوازماتِ زندگی میں مشغول رہتے ہیں؟ اس کے انسان کو دھوکا دینے کی کیا قدرت ہے؟ کیا یہ اعضائے جسمانی میں سرایت کی جانے کی قدرت رکھتی ہے اور اس طرح انسان کے اعصاب و محرکات پر قابو پالیتی ہے اور بالجبر اسے غلط راستے پر لگا دیتی ہے اگر ایسانہیں ہے تو پھر دھوکا کیسے دیتی ہے۔

لفظ فطرت کا مفہوم

لفظ فطرت کا مفہوم

سوال: ایک لفظ ’’فطرت کا استعمال بہت عام ہے آخر فطرت ہے کیا چیز؟ کیا یہ انسان کی خود پیدا کردہ چیز ہے؟ یا فطرت انسان کی ان پیدائشی صلاحیتوں کا نام ہے جو وہ ماں کے پیٹ سے لے کر پیدا ہوتا ہے؟ کیا فطرت انسان کی اپنی جدوجہد سے اچھی یا بری بن سکتی ہے یا انسان اس معاملہ میں بالکل مجبور ہے؟ اگر نہیں تو کیا فطرت کے نقائص جدوجہد کے ذریعہ دور کیے جاسکتے ہیں؟ یہ سوال میری اپنی ذات سے متعلق ہے۔ میری فطرت انتہائی ناقص ساخت کی معلوم ہوتی ہے جس کے اثرات میری گھٹی میں سمائے ہوئے ہیں اور باوجود انتہائی کوششوں کے دور نہیں ہوتے۔ اس لیے آپ سے استدعا ہے کہ مجھے کوئی مشورہ دیں۔

فتنۂ تصویر

فتنۂ تصویر

سوال: آج کل تصویروں اور فوٹو گرافی کا استعمال کثرت سے ہے۔ زندگی کے تقریباً ہر شعبہ میں ان کا استعمال ایک تہذیبی معیار بن گیا ہے۔ بازار کی دکانوں میں، مکانوں کے ڈرائنگ روموں میں، رسالوں کے سرورق پر، اخباروں کے کالموں میں، غرضیکہ جس طرف بھی نگاہ اٹھتی ہے اس لعنت سے سابقہ پڑتا ہے اور بعض اوقات توجہ مبذول ہو کے رہتی ہے۔ کیا نسوانی تصویروں کو بھی پوری توجہ کے ساتھ دیکھنا گناہ ہے۔

قرآن اور سائنس

قرآن اور سائنس

سوال: مسلمانوں کی ایک بڑی اکثریت اس بات کو صحیح قرار دیتی ہے کہ قرآن میں بعض باتیں ایسی درج ہیں جو سائنس کے بالکل خلاف ہیں۔ بہت سے اصحابِ علم کا کہنا ہے کہ قرآن پاک میں زمین کی گردش کا کہیں نام و نشان تک نہیں بلکہ سورج کا گردش کرنا ثابت ہے۔

مسئلۂ ارتقاء

مسئلۂ ارتقاء

سوال: ارتقاء کے متعلق لوگوں کے اندر مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ بعض مفکرین انسانی زندگی کا ظہور محض ایک اتفاقی حادثہ خیال کرتے ہیں۔ بعض کے نزدیک (جن میں ڈارون سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے) انسان نے زندگی کی اعلیٰ اور ارفع حالتوں تک پہنچنے کے لیے پست حالتوں سے ایک تدریج کے ساتھ ترقی کی ہے اور یہ ترقی تنازع للبقاء اور بقائے اصلح کی رہین منت ہے۔ بعض لوگ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ انسان ہمیشہ جغرافیائی ماحول کے سانچوں میں ڈھلتا رہا ہے جیسا کہ لامارک۔ بعض لوگ ہر گستان کے تخلیقی ارتقاء کے قائل نظر آتے ہیں۔ آپ کی تحریروں کے مطالعہ سے یہ بات منکشف نہیں ہو سکتی کہ آپ ارتقاء کے کس پہلو کے مخالف ہیں۔ براہِ کرم اس پہلو کی نشاندہی کریں۔

انسانیت کے مورثِ اعلیٰ، حضرت آدمؑ

انسانیت کے مورثِ اعلیٰ، حضرت آدمؑ

سوال:(۱) قرآن مجید نے حضرت آدم علیہ السلام کا ذکر جس انداز سے کیا ہے وہ اس حقیقت کا آئندہ دار ہے کہ نوع بشری کے یہ سب سے پہلے رکن بڑے ہی مہذب تھے۔ اس سلسلہ میں جو چیز میرے ذہن میں خلش پیدا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ اس متمدن انسان کی صلب سے وحشی قبائل آخر کس طرح پیدا ہو گئے۔ تاریخ کے اوراق پر نگاہ ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ قبائل اخلاق اور انسانیت کی بالکل بنیادی اقدار تک سے نا آشنا ہیں۔ نفسیات بھی اس امر کی تائید کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ وحشی انسانوں اور حیوانوں کے مابین کوئی بہت زیادہ فرق نہیں سوائے اس ایک فرق کے کہ انسان نے اپنی غور وفکر کی قوتوں کو کافی حد تک ترقی دے دی ہے۔ یہ چیز تو مسئلہ ارتقاء کو تقویت پہنچاتی ہے مجھے امید ہے کہ آپ میری اس معاملہ میں رہنمائی فرما کر میری اس خلش کو دور کریں گے اور اس امر کی وضاحت فرمائیں گے کہ ابتدائی انسان کی تخلیق کی نوعیت کیا تھی اور اس کے جبلی قویٰ کس سطح پر تھے؟

مسئلہ تقدیر

مسئلہ تقدیر

سوال: مجھے آپ کی تصنیف مسئلہ جبرو قدر کے مطالعہ کا موقع ملا۔ یہ بات بِلا خوف تردید کہی جاسکتی ہے کہ آپ نے نہایت ہی علمی انداز میں اس حقیقت کو واضح فرمایا ہے کہ قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جبرو قدر کے جو مبحث ملتے ہیں ان میں قطعاً کوئی تناقض نہیں اس معاملہ میں میری تو تشفی ہو چکی ہے مگر ذہن میں پھر بھی دو سوال ضرور ابھرتے ہیں۔ ایک یہ کہ کیا انسان کی تقدیر پہلے سے طے ہے اور مستقبل میں جو واقعات و حوادث اسے پیش آنے والے ہیں وہ ازل سے ہی مقرر اور معین ہیں اور اب ان کے چہرے سے صرف نقاب اٹھانا باقی رہ گیا ہے؟ اگر اس کا جواب اثبات میں ہو تو پھر دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ صورتحال انسان کے ارادہ عمل کی آزادی کے ساتھ کیسے میل کھاسکتی ہے؟

اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام

اجنبی ماحول میں تبلیغِ اسلام

سوال: میں علی گڑھ یونیورسٹی کا تعلیم یافتہ ہوں اور آج کل نائیجریا میں بحیثیت سائنس ٹیچر کام کر رہا ہوں۔ جب میں ہندوستان سے یہاں آرہا تھا اس وقت خیال تھا کہ میں ایک مسلم اکثریت کے علاقہ میں جارہا ہوں اس لیے شرعی احکام کی پابندی میں کوئی دقت نہیں ہوگی۔ لیکن یہاں آکر دیکھا تو معاملہ کچھ اور ہی نکلا۔ جس علاقے میں میرا قیام ہے یہ غیرمسلم اکثریت کا علاقہ ہے۔ یہاں عیسائی مشنریز خوب کام کر رہے ہیں۔ بہت سے اسکول اور اسپتال ان کے ذریعہ سے چل رہے ہیں۔ مسلمان یہاں پانچ فیصدی سے زیادہ نہیں ہیں اور وہ بھی تعلیم کے میدان میں بہت پیچھے ہیں۔ انگریزی نہیں بول سکتے حالانکہ ہر ایک عیسائی تھوڑی بہت انگریزی بول سکتا ہے پڑھے لکھے لوگوں کی بہت مانگ ہے۔ یہاں پر بہت سے غیر ملکی ٹیچر اور سوداگر کام کر رہے ہیں۔ ان میں زیادہ تر عیسائی اور ہندو ہیں۔ میں اپنی طرز کا اکیلا ہوں۔ میرے شہر میں صرف تین بہت چھوٹی مسجدیں ہیں۔ وہ بہت ہی شکستہ حالت میں ہیں۔ اس کے علاوہ دور دور کہیں اذان کی آواز بھی نہیں آتی۔ یہ ملک اکتوبر میں آزاد ہونے والا ہے۔ مجموعی حیثیت سے پورے ملک میں مسلم اکثریت ہے۔ لیکن اس کے باوجود مسلم کلچر کے مقابلہ میں مغربی اور عیسائی کلچر یہاں بہت نمایاں ہے۔ شراب کا استعمال شاید مغربی ممالک سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن ان سب کے باوجود دو باتیں یہاں خاص طور پر دیکھنے میں آئیں۔ ایک انسانی رواداری، اس معاملہ میں یہ لوگ ہم سے بہت بڑھے ہوئے ہیں، غیر ملکی کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ جو مسلمان یہاں ہیں ان کے اوپر مغربی طرزِ فکر کا اتنا اثر نہیں ہوا جتنا کہ ہمارے ہاں ہے۔ ممکن ہے کہ اس کی وجہ یہ ہو کہ یہ لوگ اب تک مغربی تعلیم کا بائیکاٹ کرتے رہے ہیں۔

پردہ اور اپنی پسند کی شادی

پردہ اور اپنی پسند کی شادی

سوال: اسلامی پردے کی رو سے جہاں ہمیں بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں وہاں دو ایسے نقصانات ہیں جن کا کوئی حل نظر نہیں آتا بجز اس کے کہ صبر وشکر کر کے بیٹھ جائیں۔

اول یہ کہ ایک تعلیم یافتہ آدمی جس کا ایک خاص ذوق ہے اور جو اپنے دوست منتخب کرنے میں ان سے ایک خاص اخلاق اور ذوق کی توقع رکھتا ہے، فطرتاً اس کا خواہش مند ہوتا ہے کہ شادی کے لیے ساتھی بھی اپنی مرضی سے منتخب کرے۔ لیکن اسلامی پردے کے ہوتے ہوئے کسی نوجوان لڑکے یا لڑکی کے لیے اس بات کی گنجائش نہیں رہتی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنا ساتھی چنے بلکہ اس کے لیے وہ قطعاً دوسروں یعنی ماں یا خالہ وغیرہ کے دست نگر ہوتے ہیں۔ ہماری قوم کی تعلیمی حالت ایسی ہے کہ والدین عموماً اَن پڑھ اور اولاد تعلیم یافتہ ہوتی ہے اس لیے والدین سے یہ توقع رکھنا کہ موزوں رشتہ ڈھونڈ لیں گے ایک عبث توقع ہے۔ اس صورتحال سے ایک ایسا شخص جو اپنے مسائل خود حل کرنے اور خود سوچنے کی صلاحیت رکھتا ہو سخت مشکل میں پڑ جاتا ہے۔

داڑھی پر مسلمانوں کے اعتراضات

سوال: ڈاڑھی کے بارے میں اکثر مسلمانوں کے سوچنے کا انداز یہ ہے کہ ڈاڑھی صرف علماء اور مولانا حضرات کو زیب دیتی ہے۔ نبی اکرمؐ کے زمانے میں عام طور پر ڈاڑھی رکھی جاتی تھی اس لیے اکثریت ڈاڑھی رکھنے میں عار نہ سمجھتی تھی۔ مگر اب انسان کے لباس و آراستگی میں کافی فرق واقع ہو چکا ہے۔ چہرے بغیر ڈاڑھی کے پررونق و بارعب نظر آتے ہیں۔ کیا ایسے حالات میں ہر مسلمان کے لیے ڈاڑھی رکھنا لازم ہے؟ براہِ کرم اس معاملے میں ذہن کو یکسو اور مطمئن فرمائیں۔