غیر مسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے
سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کر سکتا، غیر ممالک سے متعلق اقتصادی، فوجی، ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟ پھر مادی، صنعتی زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ (Advanced) ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں (Have) اور (Have not) کے درمیان حائل ہے کس طرح پر ہو سکے گی؟ نیز کیا اندرون ملک تمام بکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع و ربح اور گڈول (Goodwill) اور خرید و فروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟ کیا اسلامی ممالک آپس میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں قرض لین دین کرسکتے ہیں۔