سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 1

پچھلے چند مہینوں سے ترجمان القرآن میں خلافت کے متعلق جو بحث چل رہی ہے اس سلسلے کے مضمون ’’خلافت راشدہ اور اس کی خصوصیات‘‘ کے آخری حصے اور ’’خلافت سے ملوکیت تک‘‘ کی پوری بحث پر میرے پاس بکثرت سوالات و اعتراضات آئے ہیں۔ ان سب کو نقل کرکے ان کے جوابات دینے میں بہت طوالت ہوجائے گی۔ اس لیے میں ان سب کا اکھٹا جواب ان صفحات میں دے رہا ہوں۔ جواب کے ہر عنوان سے سوال یا اعتراض کی نوعیت خود واضح ہوجائے گی۔

ابوالاعلیٰ مودودی

سوالات و اعتراضات بسلسلہ بحث خلافت | 2

اب میں اصل مسائل کی طرف آتا ہوں جو اس سلسلئہ مضامین میں زیر بحث آئے ہیں۔ اقرباء کے معاملے میں حضرت عثمانؓ کے طرز عمل کی تشریح سیدنا عثمانؓ نے اپنے اقرباء کے معاملے میں جو طرز عمل اختیار فرمایا اس کے متعلق میرے وہم و گمان میں بھی کبھی یہ شبہ نہیں آیا کہ معاذ اللہ وہ کسی بد نیتی پر مبنی تھا۔ ایمان لانے کے وقت سے ان کی شہادت تک ان کی پوری زندگی اس بات کی گواہی دیتی ہے کہ وہ رسول اللہﷺ کے مخلص ترین اور محبوب ترین صحابیوں میں سے تھے۔ دین حق…

خلافت و ملوکیت

سوال: میں نے جناب کی ’’خلافت و ملوکیت‘‘ اور عباسی صاحب کی جوابی کتاب ’’تبصرہ محمودی‘‘ حصہ اول و دوم کا غیر جانبدارانہ مطالعہ کیا اور میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ عباسی صاحب اسلام کے سیاسی نظام کا کوئی واضح تصور نہیں رکھتے ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اسلام کا جو سیاسی نظریہ پیش فرمایا ہے وہ ذہنی پیچیدگی کا شاہکار ہے۔ البتہ میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ جناب چند باتوں کی وضاحت کردیں تو آپ کے خلاف پروپیگنڈا علمی طبقہ میں مؤثر نہ ہوسکے گا۔ وضاحت طلب امور یہ ہیں: عباسی صاحب کا کہنا ہے کہ اسلام میں کوئی طریقہ انتخاب برائے خلیفہ معین نہیں ہے اس لیے کہ سقیفہ بنی ساعدہ میں عوام کا اجتماع نہ تھا بلکہ چند افراد جس میں تمام طبقوں کی نمائندگی بھی نہ تھی جمع ہوئے اس لیے یہاں عوامی رائے یا تائید کا کوئی سوال نہیں تھا۔

اسرائیلی ریاست کے حق میں ایک عجیب استدلال

سوال: سورہ بنی اسرائیل آیت ۱۰۴ کے متعلق ’’صدق جدید‘‘ (لکھنئو) میں مولانا عبد الماجد دریا بادی نے ’’سچی باتیں‘‘ کے زیر عنوان یہ تشریح کی ہے کہ اس میں وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ سے مراد یوم الاٰخرۃ نہیں ہے بلکہ قیامت کے قریب ایک وقتِ موعود ہے اور جِئْنَا بِکُمْ لَفِیْفًا سے مراد بنی اسرائیل کے مختلف گروہوں کو ایک جگہ اکھٹا کردینا ہے۔ اس کے بعد وہ فرماتے ہیں کہ ’’مطلب واضح ہے‘‘۔ یعنی اسرائیلیوں کو بعدِ واقعۂ فرعون ہی خبر دے دی گئی تھی کہ اب تو تم آزاد ہو، دنیا میں جہاں چاہو رہو بسو، البتہ جب زمانہ قرب قیامت کا آجائے گا تو ہم تم کو مختلف سمتوں سے، مختلف ملکوں سے، مختلف زبانیں بولتے ہوئے، مختلف وضع و لباس اختیار کیے ہوئے، سب کو ایک جگہ جمع کردیں گے۔ اور وہ جگہ اور کونسی ہوسکتی ہے بجز ان کے قدیم وطن ملک فلسطین کے۔ آج جو ارضِ فلسطین میں یہود کا اجتماع ہر ہر ملک سے ہو رہا ہے کیا یہ اسی غیبی پیش خبری کا ظہور نہیں؟ یہ نتیجہ جو مولانا نے اس آیت سے نکالا ہے، مجھے ڈر ہے کہ یہ فلسطین کے متعلق عام جذبہ جہاد کو ٹھنڈا کردے گا۔ کیونکہ اس کو مان لینے کے بعد تو فلسطین میں اسرائیلی ریاست کا قیام عین منشائے خداوندی سمجھا جائے گا۔

پاکستان کے اسلامی ریاست نہ بننے کی ذمہ داری کس پر ہے؟

سوال: ہفت روزہ ’’طاہر‘‘ میں اوراس کے بعد نوائے وقت میں جناب کے حوالہ سے مسلم لیگی قیادت کے لیے لفظ فراڈ استعمال کیا گیا ہے۔ میں ایک مسلم لیگی ہوں اور سمجھتا ہوں کہ مسلم لیگ نے قائداعظمؒ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ہمالاؤں سے بڑی بڑی غلطیاں کی ہیں۔ لیکن جناب قائداعظمؒ کے متعلق میرا ایمان و ایقان ہے کہ اگر حیات ان سے وفا کرتی تو وہ اس مملکت خداداد میں اسلامی آئین کے نفاذ کے لیے مقدور بھر ضرور سعی فرماتے۔ میرا خیال ہے کہ تقریر کرتے وقت آپ نے جس مسلم لیگی قیادت کو فراڈ کے خطاب سے نوزا، یہ وہ مسلم لیگ تھی جو قائد اعظم کے مسلم لیگ کی صدارت سے مستعفی ہونے کے بعد چوہدری خلیق الزمان اورلیاقت علی خان کی قیادت میں ابھری۔ یقیناً جناب کا منشا قائداعظمؒ کی ذات ستودہ صفات سے نہیں ہوگا۔

ایک صریح جھوٹ

سوال: کراچی سے شائع ہونے والے ایک ادبی ماہنامہ ’’افکار‘‘ دسمبر ۱۹۷۶ء کے شمارہ میں ریاض صدیقی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’قائداعظم ایک عہد ساز شخصیت‘ شائع ہوا ہے۔ اس مضمون کی آخری سطور میں صاحبِ مضمون نے ’جماعت اسلامی اور قائداعظم‘ کے ذیلی عنوان سے لکھا ہے:

مسلم حکومتوں کے معاملہ میں جماعت اسلامی کا مسلک

سوال: انگلستان سے ایک صاحب نے مجھے لکھا ہے:

’’مختلف مسلمان حکومتوں، خصوصاً سعودی حکومت کے ساتھ اسلامی کارکنوں کے تعاون سے بہت کچھ نقصان ہو رہا ہے۔ ہم نے اسلامک کونسل آف یورپ کی طرف سے منعقد کی جانے والی بین الاقوامی معاشی کانفرنس میں یہ مشاہدہ کیا ہے کہ اس چال کے ذریعہ سے مسلم حکومتوں کے معاملہ میں اسلام کے موقف کو طرح طرح کی غلط فہمیوں میں الجھا دیا گیا ہے اسلامک کونسل آف یورپ نے اس کانفرنس میں اسلام کی بہت سی بنیادی تعلیمات کو الٹ کر رکھ دیا ہے۔ بعض لوگ جو آپ کی تحریک سے مضبوط تعلق رکھتے ہیں ان کی ان کانفرنس میں شرکت لوگوں میں یہ خیال پیدا کرنے کی موجب ہوئی ہے کہ انہیں آپ کی تائید حاصل ہے، اور یہ چیز مسلمان حکومتوں، خصوصاً سعودی حکومت کی پالیسیوں کو سندِ جواز بہم پہنچاتی ہے۔ ہم پورے زور کے ساتھ اصرار کرتے ہیں کہ آپ اپنی تحریک کے کارکنوں کو مسلم حکومتوں کی خدمت انجام دینے والی قومی اور بین الاقوامی ایجنسیوں اور پلیٹ فارموں سے الگ رکھنے کے لیے اپنا پورا اثر استعمال کریں‘‘۔

یہودیوں کی ناپاک سازشیں اور امریکہ

سوال: ۱۔ اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے اپنے دورہ امریکہ کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیر قانونی یہودی بستیوں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قانونی حیثیت دی ہے۔ مزید برآں بیگن کی حکومت تین اور نئی بستیاں مغربی کنارے پر بسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردّ عمل کیا ہے؟

اصطلاحات و سلاسلِ تصوُّف اور حُکّام کو خط و کتابت کے ذریعہ دعوت دینا

سوال: سلسلۂ تصوّف میں چند اصطلاحات معروف و مروج ہیں۔ قطب، غوث، ابدال اور قیوم۔ قرآن و حدیث میں ان کا ثبوت نہیں ملتا۔ اس کے متعلق جناب اپنی ذاتی تحقیق سے آگاہ فرمائیں۔ نیز تصوف کے سلاسل اربعہ کے متعلی بھی اپنی رائے عالیہ سے مستفیض فرمائیں۔

ایک مشہور روایت ہے کہ حضرت حسن بصریؒ کو حضرت علیؓ نے خرقہ عطا فرمایا تھا اور یہ تمام طرق فقر حضرت علیؓ سے شروع ہوتے ہیں۔ اس وقت میرے سامنے ملا علی قاریؒ کی موضوعات کبیر ہے۔ روایت خرقہ کے متعلق موصوف کی تحقیق ملاحظہ فرما کر آپ اس پر مدلّل تبصرہ فرمائیں۔ عبارت یہ ہے:

غیر اسلامی دیار میں تبلیغ اسلام

سوال: کچھ عرصہ سے امریکہ میں آکر مقیم ہوں۔ یہاں کے لوگوں سے دینی و اجتماعی موضوعات پر تبادلہ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اللہ نے جتنی کچھ سمجھ بوجھ دی ہے اور آپ کی تصانیف اور دوسرے مذہبی لٹریچر سے دین کا جتنا کچھ فہم و شعور پیدا ہوا ہے، اس کے مطابق اسلام کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بظاہر مادی آسائشوں پر مطمئن ہیں اور انہی سے مزید اطمینان حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ ان لوگوں کے مسائل اور دلچسپی کے موضوح ہمارے موضوعات سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی گمراہیوں کی نوعیت و کیفیت بھی اپنے ہاں کی گمراہیوں سے الگ اور شدید تر ہے۔ جس طرز استدلال سے ہم مسلمان معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ راست کی طرف بلاسکتے ہیں اور انہیں اسلام کے اصولوں کا قائل بنا سکتے ہیں، وہ طرز استدلال یہاں شاید کار گر نہ ہو۔