یہودیوں کی ناپاک سازشیں اور امریکہ

سوال: ۱۔ اسرائیلی وزیراعظم بیگن نے اپنے دورہ امریکہ کے فوراً بعد حال ہی میں تین غیر قانونی یہودی بستیوں کو دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قانونی حیثیت دی ہے۔ مزید برآں بیگن کی حکومت تین اور نئی بستیاں مغربی کنارے پر بسا رہی ہے۔ اس سلسلے میں آپ کا ردّ عمل کیا ہے؟

۲۔ مسجد اقصیٰ کی دیواروں کے نیچے اسرائیل اب تک کھدائی جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس سے مسجد کو سخت خطرہ لاحق ہے۔ اس سلسلہ میں رابطۂ عالمِ اسلامی کا بیان آپ نے دیکھا ہوگا۔ اس بارے میں آپ بھی اظہار خیال فرمائیں۔

جواب: اس معاملے میں میرا ردّ عمل یہ ہے کہ امریکی حکومت اگر انصاف اور اخلاق کے تمام اصولوں کو نظر انداز کرکے یہودیوں کی بے جا حمایت اور امداد و اعانت کرنے پر تُلی ہوئی نہ ہوتی تو اسرائیل کبھی اتنا جری و بے باک نہ ہوسکتا تھا کہ پے در پے ایک سے ایک بڑھ کر ڈاکہ زنی اور غصب و ظلم کے جرائم کا ارتکاب کرتا چلا جاتا۔ اس لیے میں اصل مجرم امریکہ کی بے ضمیری کو قرار دیتا ہوں جسے ساری دنیا کے سامنے اس جرائم پیشہ ریاست کی پیٹھ ٹھونکتے ہوئے ادنیٰ سی شرم تک محسوس نہیں ہوتی۔ امریکہ یہودیوں سے اس حد تک دبا ہوا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم کی آمد کے موقع پر ان کے مذہبی پیشوا اور با اثر لیڈر امریکی صدر پر ہجوم کرکے آتے ہیں، بیگن کی پذیرائی کے لیے اس پر دباؤ ڈالتے ہیں اور اس کو در پردہ ہی نہیں اشاروں کنایوں میں یہ احساس بھی دلاتے ہیں کہ جسے امریکہ کا صدر بننا ہو وہ یہودی ووٹوں کا محتاج ہے۔ اس پس منظر میں انسانی حقوق اور اخلاق و انصاف کے دعویدار جمّی کارٹر صاحب بیگن کے اس انتہائی بے شرمانہ بیان کو شیر مادر کی طرح نوش فرمالیتے ہیں کہ ’’ دریائے اردن کے مغربی جانب کا فلسطین، جو ۱۹۶۷ء کی جنگ میں عربوں سے چھینا گیا تھا وہ مقبوضہ علاقہ نہیں ہے بلکہ آزاد کرایا ہوا علاقہ ہے اور یہ ہماری میراث ہے جس کا وعدہ چار ہزار برس پہلے بائیبل میں ہم سے کیا گیا تھا اس لیے ہم اسے نہیں چھوڑیں گے‘‘۔ یہ کھلی کھلی بے حیائی کی بات امریکی حکام اور عوام سب کے سب سنتے ہیں اور کوئی پلٹ کر نہیں پوچھتا کو بائیبل کی چالیس صدی قدیم بات آج کسی ملک پر ایک قوم کے دعوے کے بنیاد کیسے بن سکتی ہے اور ایسی دلیلوں سے اگر ایک قوم کے وطن پر دوسری قوم کا قبضہ جائز مان لیا جائے تو نہ معلوم اور کتنی قومیں اپنے وطن سے محروم کردی جائیں گی۔

۲۔مسجد اقصیٰ میں جو اکھیڑ پچھاڑ یہودی کر رہے ہیں، اور جو کچھ وہ الخلیل میں مسجد ابراہیمی کے ساتھ کرچکے ہیں، اس کی کوئی روک تھام بیانات اور قرارداروں اور اقوام متحدہ کے فیصلوں سے نہیں ہوسکتی۔ یہودی یہ سب کچھ طاقت کے بل پر کررہے ہیں اور وہ طاقت اس کو امریکہ بہم پہنچا رہا ہے۔ جب تک ہم امریکہ پر یہودیوں کے دباؤ سے بڑھ کر دباؤ ڈالنے کے قابل نہ ہوجائیں، اس ڈاکہ زنی کا سلسلہ نہیں رک سکتا۔

(ترجمان القرآن، اکتوبر ۱۹۷۷ء)