قرآن میں زنا کی سزا

سوال: آپ نے میرے مضمون ’’قرآن میں چور کی سزا‘‘ پر جو اظہار خیال فرمایا ہے، اس کے لیے شکریہ۔ اب اسی قسم کا ایک اور مضمون ’’قرآن میں زنا کی سزا‘‘ کے عنوان سے بھیج رہا ہوں۔ میری استدعا ہے کہ آپ اس پر بھی اظہار خیال فرمائیں۔ اگر خدا کو منظور ہوا تو جناب کی دونوں تنقیدوں کا یک جا جواب دوں گا۔

یہاں سرسری طور پر اس قدر گزارش کرنا ضروری ہے کہ آپ نے میری اس تشریح کے بارے میں نکتہ چینی نہیں فرمائی کہ قرآن نے جو سزا بیان کی ہے،وہ زیادہ سے زیادہ سزا ہے، اور کم سے کم سزا جج کی قوت تمیزی پر منحصر ہے اور نہ اس بارے میں کچھ فرمایا کہ دنیا میں کسی جرم کی سزا مجرم کو آخرت کی سزا سے محفوظ رکھتی ہے؟

“سوالات متعلقہ “تفہیم القرآن

سوال: مندرجہ ذیل استفسارات پر روشنی ڈالیں۔
۱۔ آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طوفان نوح عام نہیں تھا۔لیکن ظاہری قرائن اس بات کے خلاف ہیں۔ اول کشتی کس لیے بنائی گئی تھی؟ کیوں نہ حضرت نوحؑ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا؟ دوم کشتی میں حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا لینا بھی اس بات کا موید ہے کہ طوفان نہایت عام تھا۔ حضرت نوحؑ کی بد دعا میں بھی اس عمومیت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا۔

چند تفسیری اور فقہی مسائل

سوال: مندرجہ ذیل استفسارات کے جواب لکھنے کی تکلیف دے رہا ہوں۔

(۱) آیت يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاء إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ (السجدہ آیت ۵) کا مفہوم میری سمجھ میں نہیں آتا۔ اس وقت میرے سامنے تفسیرکشاف ہے۔ صاحب کشاف کی توجیہات سے مجھے اتفاق نہیں ہے، کیوں کہ قرآنی الفاظ ان توجیہات کی تصدیق نہیں کرتے۔ ان پر تبصرہ لکھ کر آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا۔ آپ کے نزدیک اس آیت کا صحیح مطلب کیا ہے؟ لفظ يَعْرُجُ إِلَيْهِ کا لغوی مدلول پیش نظر رہنا چاہیے۔ نیز یہ لفظ الْأَمْرَ قرآن مجید کی اصطلاح میں کن کن معنوں میں مستعمل ہوتا ہے۔

مسئلہ تقدیر

سوال: مشکوٰۃ باب الایمان بالقدر میں ذیل کی متفق علیہ حدیث وارد ہے:

ان خلق احد کم یجمع فی بطن امہ … ثم یبعث اللہ الیہ ملکا باربع کلمات فیکتب عملہ واجلہ ورزقہ وشقی اوسعید ثم ینفخ فیہ الروح۔

’’یقیناً تم میں سے ہر ایک کی تخلیق اس کی ماں کے پیٹ میں ہوتی ہے۔ پھر اللہ تعالی اس کی طرف ایک فرشتے کو چار باتیں دے کر بھیجتا ہے۔ چنانچہ وہ اس کے عمل، عمر، رزق اور شقاوت و سعادت کے بارے میں نوشتہ تیار کر دیتا ہے اور پھر اس میں روح پھونک دیتا ہے۔‘‘

اب سوال ذہن میں یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر ان سارے معاملات کا فیصلہ ماں کے پیٹ میں ہی ہوجاتا ہے تو پھر آزادی عمل اور ذمہ داری کی کیا گنجائش باقی رہ جاتی ہے؟ عام طور پر ایسی ہی احادیث سن لینے کے بعد لوگ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہتے ہیں؟

انسان کے ’’فطرت‘‘ پر پیدا ہونے کا مفہوم

سوال: حدیث ’’کل مولود یولد علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ‘‘ کا کیا مطلب ہے؟ اس سوال کا باعث آپ کی کتاب خطبات کی وہ عبارت ہے جس میں آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ ’’انسان ماں کے پیٹ سے اسلام لے کر نہیں آتا‘‘۔ اس حدیث کا مطلب عموماً یہ لیا جاتا ہے کہ ہر بچہ مذہب اسلام پر پیدا ہوتا ہے، مگر آپ کی مذکورہ بالا عبارت اس سے ابا کرتی ہے۔ آپ کی اس عبارت کو دیگر معترضین نے بھی بطور اعتراض لیا ہے۔ مگر میں اس کا مطلب کسی اور سے سمجھنے یا خود نکالنے کے بجائے آپ ہی سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ کیوں کہ متعدد بار ایسا ہوا ہے کہ معترض نے آپ پر اعتراض کردیا اور بادی النظر میں اس کا اعتراض معقول معلوم ہوا مگر جب آپ کی طرف سے اس عبارت کا مفہوم بیان ہوا تو عقل سلیم نے آپ کے بیان کردہ مفہوم کی تصدیق کی۔

حروف مقطعات

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے حروف مقطعات کی بحث میں لکھا ہے کہ دور نزول قرآن میں الفاظ کے قائم مقام ایسے حروف کا استعمال حسن بیان اور بلاغت زبان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ ان کے معنی و مفہوم بالکل معروف ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اس وقت ان کے استعمال پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ ان حروف کی تشریح چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ان کے سمجھنے پر ہدایت کا انحصار ہے۔ اس بارے میں میری حسب ذیل گزارشات ہیں:

نسخ فی القرآن

سوال: نسخ کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پر براہ کرم روشنی ڈالیں:

(۱) قرآن مجید میں نسخ کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ کیا کوئی آیت مصحف میں ایسی ہے جس کی تلاوت تو کی جاتی ہو مگر اس کا حکم منسوخ ہو۔

(۲) قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت ہے جو منسوخ التلاوۃ ہو مگر اس کا حکم باقی ہو؟ محدثین و فقہا نے آیت رجم کو بطور مثال پیش کیا ہے۔

(۳) اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حدیث قرآن مجید کو منسوخ کر سکتی ہے۔ کیا یہ نظریہ آئمہ فقہا سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

گھر، گھوڑے اور عورت میں نحوست

سوال: میں رہائش کے لیے ایک مکان خریدنا چاہتا ہوں۔ ایک ایسا مکان فروخت ہو رہا ہے جس کا مالک بالکل لاوارث فوت ہوا ہے اور دور کے رشتہ داروں کو وہ مکان میراث میں ملا ہے۔ میں نے اس مکان کے خریدنے کا ارادہ کیا تو میرے گھر کے بعض افراد مزاحم ہوئے اور کہنے لگے کہ گھر منحوس ہے، اس میں رہنے والوں کی نسل نہیں بڑھتی حتیٰ کہ اصل مالک پر خاندان کا سلسلہ ختم ہوگیا۔ گھر کے لوگوں نے ان احادیث کا بھی حوالہ دیا جن میں بعض گھروں، گھوڑوں اور عورتوں کے منحوس ہونے کا ذکر ہے۔ میں نے کتب احادیث میں اس سے متعلق روایات دیکھیں اور متعارف شروح و حواشی میں اس پر جو کچھ لکھا گیا ہے وہ بھی پڑھا، لیکن جزم ویقین کے ساتھ کوئی متعین تشریح سمجھ میں نہ آسکی۔ اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟

زکوٰۃ کی حقیقت اور اس کے اصولی احکام

سوال نامہ:
(۱) زکوٰۃ کی تعریف کیا ہے؟

(۲) کن کن لوگوں پر زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ اس سلسلے میں عورتوں، نابالغوں، قیدیوں، مسافروں، فاتر العقل افراد اور مستامنوں یعنی غیر ملک میں مقیم لوگوں کی حیثیت کیا ہے۔ وضاحت سے بیان کیجیے؟

(۳) زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے کتنی عمر کے شخص کو بالغ سمجھنا چاہیے؟

(۴) زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہونے کے لیے عورت کے ذاتی استعمال کے زیور کی کیا حیثیت ہے؟

(۵) کیا کمپنیوں کو زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے یا ہر حصے دار کو اپنے اپنے حصے کے مطابق فرداً فرداً زکوٰۃ ادا کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا جائے؟

(۶) کارخانوں اور دوسرے تجارتی اداروں پر زکوٰۃ کے واجب ہونے کی حدود بیان کیجیے؟

(۷) جن کمپنیوں کے حصص ناقابل انتقال ہیں، ان کے سلسلے میں تشخیص زکوٰۃ کے وقت کس پر زکوٰۃ کی ادائیگی واجب ہوگی؟ حصص خریدنے والے پر یا فروخت کرنے والے پر؟

(۸) کن کن اثاثوں اور چیزوں پر اور موجودہ سماجی حالت کے پیش نظر کن کن حالات میں زکوٰۃ واجب ہوتی ہے؟ بالخصوص ان چیزوں کے بارے میں یا ان سے پیدا شدہ حالات میں کیا صورت ہوگی؟

کیا زکوٰۃ کے نصاب اور شرح کو بدلا جاسکتا ہے

سوال: زکوٰۃ سے متعلق ایک صاحب نے فرمایا کہ شرح میں حالات اور زمانے کی مناسبت سے تبدیلی پیدا کی جاسکتی ہے۔ حضور اکرمﷺ نے اپنے زمانے کے لحاظ سے ۲\۱\۲ فیصد شرح مناسب تصور فرمائی تھی، اب اگر اسلامی ریاست چاہے تو حالات کی مناسبت سے اسے گھٹایا بڑھا سکتی ہے۔ ان کا استدلال یہ تھا کہ قرآن مجید میں زکوٰۃ پر جا بجا گفتگو آتی ہے لیکن شرح کا کہیں ذکر نہیں کیا گیا ،اگر کوئی خاص شرح لازمی ہوتی تو اسے ضرور بیان کیا جاتا۔اس کے برعکس میرا دعویٰ یہ تھا کہ حضور اکرمﷺ کے احکام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہیں اور ہم ان میں تبدیلی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ رہی صاحب موصوف کی دلیل تو وہ کل یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ نمازیں اتنی نہ ہوں بلکہ اتنی ہوں، اور یوں نہ پڑھی جائیں۔ جیسا کہ ان کے نزدیک حالات اور زمانے کا اقتضا ہو۔ پھرتو رسول خدا کے احکام، احکام نہ ہوئے، کھیل ہوگئے۔ دوسری چیز جو میں نے کہی تھی، وہ یہ تھی کہ اگر اسلامی ریاست کو زیادہ ضروریات در پیش ہو تو وہ حدیث ان فی المال حقاً سوی الزکوٰۃ کی رو سے مزید رقم وصول کر سکتی ہے۔ خود یہی حدیث زکوٰۃ کی شرح کے مستقل ہونے پر اشارۃً دلالت بھی کرتی ہے۔ اگر زکوٰۃ کی شرح بدلی جاسکتی تو اس حدیث کی ضرورت ہی کیا تھی؟ لیکن وہ صاحب اپنے مؤقف کی صداقت پر مصر ہیں۔ براہ کرم آپ ہی اس معاملے میں وضاحت فرما دیجیے۔