زمینداری کے مکروہات

سوال: میں جماعت اسلامی کا لٹریچر پڑھ کر کافی متاثر ہوں، ذہن کا سانچہ بدل چکا ہے اور یہ سانچہ موجودہ ماحول کے ساتھ کسی طرح سازگار نہیں ہو رہا۔ مثلاً ایک اہم الجھن کو لیجیے۔ ہمارا آبائی پیشہ زمینداری ہے اور والد صاحب نے مجھے اسی پر مامور کر دیا ہے۔ زمینداری کا عدالت اور پولیس وغیرہ سے چولی دامن کا ساتھ ہوگیا ہے۔ عدالت اور پولیس سے بے تعلقی کا اظہار زمیندار کی کامل معاشی موت ہے۔ حد یہ کہ عدالت اور پولیس کی پشت پناہی سے بے نیاز ہوتے ہی خود اپنے ملازمین اور مزارعین پر زمیندار کا کوئی اثر نہیں رہ جاتا۔ خود پولیس جب یہ دیکھتی ہے کہ کوئی زمیندار اس کی ’’بالائی آمدنی‘‘ میں حائل ہو رہا ہے تو وہ اسی کے مزارعین اور ملازمین کو اکسا کر اس کے مقابلہ پر لاتی ہے۔اسی طرح عدالتوں کا ہوا جہاں کارندوں کے سامنے سے ہٹا، پھر ان کو ضمیر کی آواز کے سوا کوئی چیز فرائض پر متوجہ نہیں رکھ سکتی اور حال یہ ہے کہ ان لوگوں کے لیے مادی فائدہ سے بڑھ کر کسی شے میں اپیل نہیں ہے۔ مزید وضاحت کے لیے ایک مثال کافی ہوگی۔ ہمارے ہاں دستور تھا کہ کارندوں کے کام میں نقص رہے یا وہ کسی قسم کا نقصان کر دیں تو ان سے تاوان وصو ل کیا جاتا تھا۔ہم نے یہ تاوان وصول کرنا بند کردیا، کیونکہ پولیس کی مدد کے بغیر یہ سلسلہ چل نہیں سکتا۔ رویہ کی اس تبدیلی کے ساتھ معاً کاشتکاروں نے نقصان کرنا شروع کردیا اور کارندوں نے بھی جرمانہ کی رقم میں سے جو حصہ ملنا تھا اس سے مایوس ہو کر چشم پوشی اختیار کی۔ اب حالات اس حد تک پہنچ گئے ہیں کہ میں زمینداری کو سرے سے ختم کرنے کا فیصلہ کرنے پر مجبور ہو رہا ہوں۔ آپ کی رائے میں چارۂ کار کیا ہے؟

گڑیوں کا حکم

سوال: کیا بچوں کے کھیل کا سامان، مثلاً چینی کی گولیاں، تاش، ربڑ کی چڑیاں اور لڑکیوں کے لیے گڑیاں وغیرہ فروخت کرنا جائز ہے، نیز ہندوؤں کی ضرورت کی گڑیاں بھی کیا بیچی جاسکتی ہیں؟

اشتہاری تصویریں

سوال: اشتہار کے لیے کیلنڈر پر آج کل عورتوں کی تصاویر بنانے کا بہت رواج ہے۔ نیز مشہور شخصیتوں اور قومی رہبروں کی تصاویر بھی استعمال کی جاتی ہیں، علاوہ بریں تجارتی اشیا کے ڈبوں اور بوتلوں اور لفافوں پر چھاپی جاتی ہیں۔ ان مختلف صورتوں میں ایک مسلمان تاجر اپنا دامن کیسے بچا سکتا ہے؟

’’سیپ‘‘ اور ’’دلالی‘‘

سوال:ہر گاؤں میں عموماً ایک لوہار اور ایک بڑھئی ضرور ہوتا ہے۔ ان لوگوں سے زمیندار کام لیتے ہیں اور معاوضہ نقد ادا نہیں کرتے، نہ تنخواہ دیتے ہیں، بلکہ فصل کے فصل ایک مقررہ مقدار غلہ کی انہیں دے دی جاتی ہے۔ اس صورت معاملہ کو ’’سیپ‘‘ کہا جاتا ہے۔ زمیندار لوگ جب کبھی لوہے یا لکڑی کا کوئی سامان خریدنا چاہتے ہیں تو اپنے لوہاریا بڑھئی بعض کارخانوں اور دکانوں سے خاص تعلق رکھتے ہیں اور وہاں سے سامان خریدواتے ہیں اور ہوتا یوں ہے کہ یہ لوگ دکان پر جاتے ہی آنکھوں کے اشاروں سے دلالی کی فیس دکاندار سے طے کر لیتے ہیں جس سے زمیندار بے خبر رہتا ہے۔ اگر دکاندار، لوہار یا بڑھئی کی دلالی کا کمیشن ادا نہ کرے تو پھر وہ کبھی بھی اپنے زمیندار کو اس کی دکان پر نہ لائے گا بلکہ کسی دوسری جگہ ساز باز کرے گا۔اور جو دکاندار کا کمیشن دینے پر راضی ہو وہ خراب مال بھی اگر دکھائے تو یہ خاص قسم کے دلال اس کی تعریف کریں گے اور اسے بکوانے کی کوشش کریں گے۔ یہ سازش اگر زمیندار پر آشکار ہوجائے تو وہ اپنے بڑھئی یا لوہار کو ایک دن بھی گاؤں میں نہ رہنے دے۔ یہ صورت معاملہ کیسی ہے؟

تجارت میں ’’عرف‘‘ کی حیثیت

سوال: چمڑے کے کاروبار میں کروم ایک ایسی چیز ہے جس پر فٹ کی پیمائش کا اندراج بہت غلط ہوتا ہے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ مال کلکتہ میں تیار ہوتا ہے۔ مال تیار کرنے والے ہر تھان پر اصل پیمائش سے زائد فٹ لکھ دیتے ہیں۔ مثلاً دس فٹ کے تھان کو بارہ فٹ ظاہر کرتے ہیں۔ اس کے بعد کلکتہ کے تاجر یہ مال خریدتے ہیں اور یہ کچھ اور فٹ بڑھا دیتے ہیں۔ اس کے بعد جب باہر کے تاجر ان سے مال خرید کر لے جاتے ہیں تو پھر وہ مزید فٹ بڑھاتے ہیں۔ یہاں آکر تھان پر فٹوں کا پکا اندراج ہوجاتا ہے۔ اور پھر وہ آخر تک یہی اندارج قائم رہتا ہے۔ صحیح فٹ والا مال مارکیٹ میں نہیں ملتا۔ تقریباً سبھی کارخانے اور تاجر یہی کچا فٹ استعمال کرتے ہیں۔عام طور پر گاہک اس صورت حال سے آگاہ ہوتے ہیں اور اس وجہ سے ہم پیمائش کی اس گڑ بڑ کے متعلق کوئی توضیح نہیں کرتے۔لیکن اگر کوئی گاہک پوچھے تو اسے صاف بتادیتے ہیں کہ اس مال پر کچے (یعنی غلط) فٹوں کا نمبر لگا ہوا ہے۔ ہم اسی کچے فٹ کے حساب سے خریدتے ہیں اور اسی کے حساب سے منافع لگا کر فروخت کرتے ہیں۔ مثلاً ایک کچا فٹ اگر ۱۲ آنے میں آتا ہے تو ہم ایک کچے فٹ کے ساڑھے ۱۲ لگائیں گے۔ شرعاً ایسے کاروبار کی کیا حیثیت ہے؟

اسلامی ریاست میں ذمی رعایا

سوال: ’’میں ہندو مہا سبھا کا ورکر ہوں۔سال گزشتہ صوبہ کی ہندو سبھا کا پروپیگنڈہ سیکریٹری منتخب ہوا تھا۔ میں حال ہی میں جناب کے نام سے شناسا ہوا ہوں۔ آپ کی چند کتابیں مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ اول و سوئم، اسلام کا نظریہ سیاسی، اسلامی حکومت کسی طرح قائم ہوتی ہے، سلامتی کا راستہ وغیرہ دیکھی ہیں،جن کے مطالعہ سے اسلام کے متعلق میرا نظریہ قطعاً بدل گیا ہے اور میں ذاتی طور پر یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر یہ چیز کچھ عرصہ پہلے ہوگئی ہوتی تو ہندو مسلم کا مسئلہ اس قدر پیچیدہ نہ ہوتا۔ جس حکومت الہٰیہ کی آپ دعوت دے رہے ہیں اس میں زندگی بسر کرنا قابل فخر ہوسکتا ہے مگر چند امور دریافت طلب ہیں۔ خط و کتابت کے علاوہ ضرورت ہوگی تو جناب کا نیاز بھی حاصل کروں گا۔

مزید تصریحات

سوال:آپ کی جملہ تصانیف اور سابق عنایت نامہ پڑھنے کے بعد میں یہ فیصلہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ آپ خالص اسلامی طرز کی حکومت قائم کرنے کے خواہاں ہیں اور اس اسلامی حکومت کے عہد میں ذمی اور اہل کتاب کی حیثیت بالکل ایسی ہی ہوگی جیسی ہندوؤں میں اچھوتوں کی۔

آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’ہندوؤں کی عبادت گاہیں محفوظ رہیں گی ان کو مذہبی تعلیم کا انتظام کرنے کا حق دیا جائے گا۔‘‘ مگر آپ نے یہ نہیں تحریر فرمایا کہ آیا ہندوؤں کو تبلیغ کا حق بھی حاصل ہوگا یا نہیں؟ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’جو بھی اس حکومت کے اصول کو تسلیم کرلے وہ اس کے چلانے میں حصہ دار ہوسکتا ہے؟ خواہ ہندو زادہ ہو یا سکھ زادہ۔‘‘ براہ کرم اس کی توضیح کیجیے کہ ایک ہندو ہندو رہتے ہوئے بھی کیا آپ کی حکومت کے اصولوں پر ایمان لا کر چلانے میں شریک ہوسکتا ہے؟

مسلم لیگ سے اختلاف کی نوعیت

سوال: کن اصول، خطوط اور بنیادوں پر ہندوستانی مسلمانوں کی سیاسی و معاشی اصلاح، ان حالات کے اندر رہتے ہوئے جن میں وہ گھرے ہیں، اسلامی اصول، روایات اور نقطہ نظر کے مطابق ممکن ہے؟ براہ کرم حسب ذیل خطوط پر اپنی تفصیلی رائے تحریر کیجیے۔

مطالبہ پاکستان

سوال: ہمارا عقیدہ ہے کہ مسلمان آدم علیہ السلام کی خلافت ارضی کا وارث ہے۔ مسلمان کی زندگی کا مقصد صرف اللہ پاک کی رضا اور اس کے مقدس قانون پر چلنا اور دوسرں کو چلنے کی ترغیب دینا ہے۔ اس لیے اس کا فطری نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ سارے عالم کو قانون الہٰیہ کے آگے مفتوح کر دے۔

لیکن مسٹر جناح اور ہمارے دوسرے مسلم لیگی بھائی پاکستان چاہتے ہیں۔ ہندوستان کی زمین کا ایک گوشہ! تاکہ ان کے خیال کے مطابق مسلمان چین کی زندگی بسر کر سکیں۔ کیا خالص دینی نقطہ نظر سے یہ قابل اعتراض نہیں؟

جماعت اسلامی اور صوبہ سرحد کا ریفرنڈم

سوال: جیسا کہ آپ کو معلوم ہے صوبہ سرحد میں اس سوال پر ریفرنڈم ہو رہا ہے کہ اس صوبہ کے لوگ تقسیم ہند کے بعد اپنے صوبے کو ہندوستان کے ساتھ شامل کرانا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔ وہ لوگ جو جماعت اسلامی پر اعتماد رکھتے ہیں، ہم سے دریافت کرتے ہیں کہ ان کو اس استصواب میں رائے دینی چاہیے اور کس طرف سے رائے دینی چاہیے؟ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اس استصواب میں بھی ہماری پالیسی اسی طرح غیر جانبدارانہ ہونی چاہیے جیسے مجالس قانون ساز کے سابق انتخابات میں رہی ہے ورنہ ہم پاکستان کے حق میں اگر ووٹ دیں گے تو یہ ووٹ آپ سے آپ اس نظام حکومت کے حق میں بھی شمار ہوگا جس پر پاکستان قائم ہو رہا ہے۔