جزئیاتِ شرع اور مقتضیاتِ دین

سوال: “اجتماع میں شرکت کرنے اور مختلف جماعتوں کی رپورٹیں سننے سے مجھے اور میرے رفقا کو اس بات کا پوری طرح احساس ہوگیا ہے کہ ہم نے جماعت کے لٹریچر کی اشاعت و تبلیغ میں بہت معمولی درجے کا کام کیا ہے۔ اس سفر نے گذشتہ کوتاہیوں پر ندامت اور مستقبل میں کامل عزم و استقلال اور اخلاص کے ساتھ کام کرنے پر آمادہ کیا ہے۔ دعا فرمائیں کہ جماعتی ذمہ داریاں پوری پابندی اور ہمت و جرات کے ساتھ ادا ہوتی رہیں۔

اس امید افزا اور خوش کن منظر کے ساتھ اختتامی تقریر کے بعض فقرے میرے بعض ہمدرد رفقا کے لیے باعث تکدر ثابت ہوئے اور دوسرے مقامات کے مخلص ارکان و ہمدردوں میں بھی بددلی پھیل گئی۔ عرض یہ ہے کہ منکرین خدا کا گروہ جب اپنی بے باکی اور دریدہ دہنی کے باوجود حلم، تحمل اور موعظۂ حسنہ کا مستحق ہے تو کیا یہ دین داروں کا متقشف تنگ نظر طبقہ اس سلوک کے لائق نہیں ہے؟ کیا ان کے اعتراضات و شبہات حکمت و موعظۂ حسنہ اور حلم و بردباری کے ذریعے دفع نہیں کیے جاسکتے؟ اختتامی تقریر کے آخری فقرے کچھ مغلوبیت جذبات کا پتہ دے رہے تھے۔

سوال: حالیہ اجتماع دارالاسلام کے بعد میں نے زبانی بھی عرض کیا تھا اور اب بھی اقامت دین کے فریضہ کو فوق الفرائض بلکہ اصل الفرائض اور اسی راہ میں جدوجہد کرنے کو تقویٰ کی روح سمجھنے کے بعد عرض ہے کہ “مظاہر تقویٰ” کی اہمیت کی نفی میں جو شدت آپ نے اپنی اختتامی تقریر میں برتی تھی وہ نا تربیت یافتہ اراکین جماعت میں “عدم اعتنا بالسنتہ” کے جذبات پیدا کرنے کا موجب ہوگی اور میں دیانتہً عرض کرتا ہوں کہ اس کے مظاہر میں نے بعد از اجلاس ملاحظہ کیے۔ اس شدت کا نتیجہ بیرونی حلقوں میں اولاً تو یہ ہوگا کہ تحریک کو مشکوک نگاہوں سے دیکھا جائے گا۔ کیوں کہ اس سے پہلے بھی بعض داعیین تحریک نے “استہزابالستنہ” کی ابتدا اسی طرح کی تھی کہ بعض مظاہر تقویٰ کو اہمیت دینے اور ان کا مطالبہ کرنے میں شدت اختیار کرنے کی مخالفت جوش و خروش سے کی۔ دوسرے یہ کہ شرارت پسند عناصر کو ہم خود گویا ایک ایسا ہوائی پستول فراہم کردیں گے جو چاہے درحقیقت گولی چلانے کا کام ہر گز نہ کرسکے مگر اس کے فائر کی نمایشی آواز سے حق کی طرف بڑھنے والوں کو بدکایا جاسکے گا۔ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرح کے معاملات میں عوام کے مبتلائے فتنہ ہوسکنے کا لحاظ رکھا ہے۔ چنانچہ بیت اللہ کی عمارت کی اصلاح کا پروگرام حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے محض قوم کی جہالت اور جدید العہد بالاسلام ہونے کے باعث ملتوی کردیا تھا اور پھر اتنی احتیاط برتی کہ کبھی کسی وعظ اور خطبے میں لوگوں کو اس کی طرف توجہ تک نہیں دلائی، بجز اس کے کہ درون خانہ حضرت عائشہ صدیقہؐ سے آپ نے اس کا تذکرہ ایک دفعہ کیا۔

سنت اور عادت کا اُصولی فرق

سوال: آپ نے مظاہر تقویٰ پر اپنے خیالات کی توثیق فرماتے ہوئے سنت و بدعت کے بارے میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ہیں کہ “سنت و بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو میں غلط، بلکہ دین میں تحریف سمجھتا ہوں جو آپ کے ہاں رائج ہیں۔” عرض ہے کہ یہ مسئلہ دراصل اُصولی ہے۔ اس پر اگر اطمینان بخش فیصلہ ہوجائے تو بہت سے جزوی مسائل، بلکہ اکثر نزاعات اور ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں۔ لہٰذا سنت اور عادت کی ایسی جامع تعریف فرما دیجیے جو مانع بھی ہو اور اس کے ساتھ ہی بدعت کے متعلق بھی اپنی تحقیق سے ممنون فرمائیں۔

مفتوح فاتح کی عدالت میں

سوال: آج کل جنگی مجرموں(War Criminals) کو کیفر کردار تک پہنچانے کا بہت چرچا ہے۔ اسلام کا اس ضمن میں کیا حکم ہے؟

میدان جنگ میں قحبہ گری کے انتظامات اور اسلام

سوال: آج کل جنگ میں جہاں سپاہیوں کو وطن سے ہزاروں میل دور جانا پڑتا ہے اور ان کی واپسی کم از کم دو سال سے پہلے نا ممکن ہوجاتی ہے، سوشل قباحتیں مثلاً زنا وغیرہ کا پھیل جانا لازمی ہے، کیونکہ جنگ کے جذبہ کی بیداری کے ساتھ تمام جذبات سفلی بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ اس چیز کو روکنے کے لیے یا قابو میں لانے کے لیے فوجیوں کے لیے رجسٹرڈ رنڈیاں بہم پہنچانے کی اسکیم پر عمل ہو رہا ہے اور ان کے دلوں کو خوش رکھنے کے لیے (WACI) دفتروں میں ملازم رکھی جارہی ہیں۔ یہ دونوں صورتیں قابل نفرین ہیں، ممکن سوال یہ ہے کہ ان کی تردید کے بعد اسلام اس عقدہ کے حل کا کیا طریق بناتا ہے۔ کنیزوں کا سسٹم کس حد تک اس قباحت کا ازالہ کر سکتا ہے اور کیا وہ بھی ایک طرح کی جائز کردہ قحبہ گری(Prostitution) نہیں ہے؟

گائے، تناسخ اور گرنتھ صاحب

سوال: حسب ذیل امور کے متعلق اپنی معلومات کی روشنی میں حقیقت کی طرف رہنمائی فرمائیے۔

(۱) گائے کی تعظیم و تقدیس جو ہندو بھائیوں میں رائج ہے، اس کی وجہ سے سینکڑوں دفعہ ہندو مسلم فسادات واقع ہوچکے ہیں۔ آخر یہ کیا مسحوریت ہے کہ ہندوؤں میں بڑے بڑے معقول عالم موجود ہیں لیکن کوئی اس مسئلہ کی نوعیت پر غور نہیں کرتا، حتٰی کہ گاندھی جی جیسے فہمیدہ اور جہاندیدہ لیڈر بھی مذہبیت کی اس کشتی پر سوار ہیں جسے عوام نے ایسے ہی چند مسائل پر جوڑ ملا کر تعمیر کیا ہے۔ آپ اس گائے کی پوجا پر روشنی ڈالیں اور واضح کریں کہ یہ کب سے شروع ہوئی اور کیسے پھیلی تو ممکن ہے کہ کچھ حق پسند ہندو مطمئن ہوجائیں اور اپنی قوم کی اصلاح کریں۔

علم ظاہر اور علم باطن

سوال: اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’علم باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضیات و مجاہدات سے حاصل ہو سکتا ہے۔چنانچہ امت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انہوں نے کتاب و سنت اور فقہ و کلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو ’’علم ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد ’’علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں تب کہیں جا کر انہیں ’’روحانی‘‘ علوم حاصل ہوئے اور ان کو انہوں نے ہمیشہ علوم ظاہری پر ترجیح دی۔براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے علم باطنی کی کیا تعریف ہے؟ اس کی حقیقت کیا تھی؟ اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں؟ کیا یہ علم ریاضیات و مجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟ اور کیا علوم ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟

حبش پر مسلمانوں کے حملہ آور نہ ہونے کی وجہ

سوال:۔ ’’مصر کے مفتوح ہوجانے کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں حبش کی جانب فتوحات کے لیے قدم کیوں نہ بڑھایا گیا؟ کیا محض اس وجہ سے کہ وہاں کے ایک سابق حکمران نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی، اور ایک سابق بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا‘‘ ؟

کائناتی ارتقا اور حیاتی ارتقا

سوال:۔ آپ نے رسالہ ترجمان القرآن جلد 4، عدد 6، ص 396 تا 397 میں اسلامی تہذیب اور اس کے اصول ومبادی کے زیر عنوان نظامِ عالم کے انجام سے متعلق جو کچھ تحریر فرمایا ہے، اسے سمجھنا چاہتا ہوں۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’اس نظام کے تغیرات و تحولات کا رخ ارتقا کی جانب ہے۔ ساری گردشوں کا مقصود یہ ہے کہ نقص کو کمال کی طرف لے جائیں وغیرہ۔ آخر یہ کس قسم کا ارتقا ہے؟ حیوانی زندگی میں؟جماداتی یا انسانی زندگی میں؟ یا مجتمعاً تمام نظام عالم کی زندگی میں یہ ارتقا کار فرما ہے؟ نیز اگر ہر بگاڑ سے ارتقائی اصلاح ظاہر ہوتی ہے تو پھر تو وہی بات ہوئی جو ہیگل نے (Thesis and Antithesis) اور ڈارون نے (Survival of the Fittest) میں پیش کی ہے۔ براہ کرم مدعا کی وضاحت کیجئے۔‘‘

سرکاری نرخ بندی پر چند سوالات

سوال: حکومت ایک جماعت کو کچھ اشیا ارزاں قیمت پر مہیا کرتی ہے دوسری جماعت کے افراد اس رعایت سے محروم رکھے جاتے ہیں۔ پھر کیا موخرالذکر طبقے کا کوئی فرد پہلی جماعت کے کسی فرد کے ذریعہ حکومت کی اس رعایت سے استفادہ کرسکتا ہے؟ مثلاً مروت یا دباؤ سے رعایت پانے والی جماعت کا کوئی فرد محروم رعایت جماعت کے کسی فرد کو کوئی چیز اپنے نام سے کم قیمت پر خرید کر دے سکتا ہے؟ یا اس کی کسی پرانی چیز کو نئی چیز سے بدلوانے کا شرعاً مجاز ہے؟