سنت اور عادت کا اُصولی فرق

سوال: آپ نے مظاہر تقویٰ پر اپنے خیالات کی توثیق فرماتے ہوئے سنت و بدعت کے بارے میں یہ الفاظ تحریر فرمائے ہیں کہ “سنت و بدعت وغیرہ اصطلاحات کے ان مفہومات کو میں غلط، بلکہ دین میں تحریف سمجھتا ہوں جو آپ کے ہاں رائج ہیں۔” عرض ہے کہ یہ مسئلہ دراصل اُصولی ہے۔ اس پر اگر اطمینان بخش فیصلہ ہوجائے تو بہت سے جزوی مسائل، بلکہ اکثر نزاعات اور ذہنی اُلجھنیں ختم ہوجائیں۔ لہٰذا سنت اور عادت کی ایسی جامع تعریف فرما دیجیے جو مانع بھی ہو اور اس کے ساتھ ہی بدعت کے متعلق بھی اپنی تحقیق سے ممنون فرمائیں۔

مزید توضیحِ مقام کے لیے عرض ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ:

“آپ کا یہ خیال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جتنی بڑی ڈاڑھی رکھتے تھے، اتنی ہی بڑی ڈاڑھی رکھنا سنت رسولﷺ یا اسوۂ رسولﷺ ہے، یہ معنی رکھتا ہے کہ آپ عادات رسولﷺ کو بعینہٖ وہ سنت سمجھ رہے ہیں جس کے جاری اور قائم کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے انبیاء علیہم السلام مبعوث کیے جاتے رہے” میرے حسب حال نہیں ہے۔ اگرچہ میں مطلق اعفاءِ لحیہ کو سنت رسول سمجھتا ہوں، مگر اسے غرضِ بعثت و مقصدِ رسالت تو آج سے دس سال قبل بھی نہیں سمجھتا تھا اور نہ اب ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوں۔ میں تو یہ یقین رکھتا ہوں کہ مقصد بعثت فقط ایک ہی سنت ہے اور وہ ہے اقامت دین، یا قیام ِ اطاعت الہٰیہ۔ باقی اُمور علی حسب المدارج اہمیت رکھتے ہیں۔ اس سنت کے ہم پلہ دیگرسنتیں تو کیا، فرائض شرعیہ مثلاً عمارت مسجد حرام اور سقایۃً الحاج وغیرہ اُمور بھی نہیں ہیں۔ اور میرے نزدیک یہی وہ سنت ہے جس کے احیاء کو ماۃ شہید کے اجر کا ہم پلہ قرار دیا گیا ہے۔ ہاں حضور کے ذاتی اسوۃ اعفاء الحیہ وغیرہ کو سنت مابعد الفرائض الشرعیہ تا حال سمجھتا ہوں اور اسی کی توثیق یا تصیح کے لیے فوق الصدر استفسار پیش خدمت ہے۔”

جواب: سنت کے متعلق لوگ عموماً یہ سمجھتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ اپنی زندگی میں کیا ہے، وہ سنت ہے۔ لیکن یہ بات ایک بڑی حد تک درست ہونے کے باوجود ایک حد تک غلط بھی ہے۔ دراصل سنت اس طریق عمل کو کہتے ہیں جس کے سکھانے اور جاری کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو معبوث کیا تھا۔ اس سے شخصی زندگی کے وہ طریقے خارج ہیں جو نبی نے بحیثیت ایک انسان ہونے کے یا بحیثیت ایک شخص ہونے کے جو انسانی تاریخ کے خاص دور میں پیدا ہوا تھا، اختیار کیے۔ یہ دونوں چیزیں کبھی ایک ہی عمل میں مخلوط ہوتی ہیں اور ایسی صورت میں یہ فرق و امتیاز کرنا کہ اس عمل کا کون سا جز سنت ہے اور کون سا جز عادت، بغیر اس کے ممکن نہیں ہوتا کہ آدمی اچھی طرح دین کے مزاج کو سمجھ چکا ہو۔

اُصولی طور پر یوں سمجھیے کہ انبیاء علیہم السلام انسان کو اخلاق صالحہ کی تعلیم دینے اور زندگی کے ایسے طریقے سکھانے کے لیے آتے رہے ہیں جو فطرہ اللہ التی فطر الناس علیھا کے ٹھیک ٹھیک منشا کے مطابق ہوں۔ ان اخلاق صالحہ اور فطری طریقوں میں ایک چیز تو اصل و روح کی حیثیت رکھتی ہے اور دوسری چیز قالب و مظہر کی حیثیت بعض اُمور میں روح اور قالب دونوں اسی شکل میں مطلوب ہوتے ہیں جس شکل میں نبی اپنے قول و عمل سے ان کو واضح کرتا ہے اور بعض امور میں روح اخلاق فطرت کے لیے نبی اپنے مخصوص تمدنی حالات اور اپنی مخصوص افتاد مزاج کے لحاظ سے ایک خاص عملی قالب اختیار کرتا ہے اور شریعت کا مطالبہ ہم سے صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اس روحِ اخلاق و فطرت کو اختیار کریں۔ رہا وہ عملی قالب جو پیغمبر نے اختیار کیا تھا، تو اسے اختیار کرنے یا نہ کرنے کی شرعاً ہم کو آزادی ہوتی ہے۔ پہلی قسم کی معاملات میں سنت روح اور قالب دونوں کا مجموعے کا نام ہے اور دوسری قسم کے معاملات میں سنت صرف وہ روح اخلاق و فطرت ہے جو شریعت میں مطلوب ہے نہ کہ عملی قالب جو صاحبِ شریعت نے اس کے اظہار کے لیے اختیار کیا۔

مثال کے طور پر دین کا منشا یہ ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اس کا ذکر کریں۔ اس کے لیے نبی نے بعض اعمال تو ایسے اختیار کیے جن کی روح اور عملی قالب دونوں سنت ہیں اور دونوں کی پیروی ہم پر لازم ہے، مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ اور بعض طریقے آپ نے ایسے اختیار کیے ہیں جن کی روح تو ہمارے اعمال میں ضرور پائی جانی چاہیے لیکن قالب کی ہو بہو پیروی کرنا لازم نہیں ہے، بلکہ آزادی دی گئی ہے کہ ہم اس روح کے مظہر کے لیے جو عملی قالب مناسب سمجھیں اختیار کرلیں، مثلاً دعائیں اور وہ عام اذکار جو حضور وقتاً فوقتاً کرتے تھے۔ ہم پر یہ لازم نہیں ہے کہ ہم بعینہٖ انہی الفاظ میں دعائیں مانگیں جن الفاظ میں حضورﷺ مانگتے تھے۔ البتہ سنت کی پیروی کا تقاضا یہ ہے کہ ہم ان دعاؤں کی طرز اور ان کی معنوی خصوصیات کو ملحوظ رکھیں اور جن الفاظ میں دعائیں مانگیں ان کے اندر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں کی روح موجود ہو۔ اسی طرح اذکار میں سنت صرف یہ ہے کہ آدمی اپنی زندگی کے مختلف حالات و اعمال میں خدا کو یاد کرتا رہے۔ اس سے استفادہ کرے، اس سے مدد مانگے، اس کا شکریہ ادا کرے اور اس سے طلب خیر کرے۔ اس سنت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عملی زندگی میں اذکار کو لفظ بلفظ یاد کر کے اسی طرح ان کا التزام کرے جس طرح حدیث میں بیان ہوا ہے تو یہ مستحسن یا مستحب تو ہوسکتا ہے لیکن اسے اتباع سنت کا لازمی تقاضا نہیں کہا جاسکتا۔ اگر کوئی شخص اس سنت کو اچھی طرح ذہن نشین کر کے دوسرے طریقے سے اس پر عمل درآمد کرے اور اس کے لیے دوسرے الفاظ اختیار کرلے تب بھی وہ بدستور متبع سنت رہے گا اور اس پر خلاف ورزی سنت کا الزام عائد نہ ہوگا۔

یہی فرق تمدنی اور معاشرتی معاملات میں بھی ہے۔ مثلاً لباس میں جن اخلاقی و فطری حدود کو قائم کرنا نبی کے مقاصد بعثت میں تھا وہ یہ ہیں کہ لباس ساتر ہو، اس میں اسراف نہ ہو، اس میں تکبر کی شان نہ ہو۔ اس میں تشبہ بالکفار نہ ہو وغیرہ۔ اس روحِ اخلاق و فطرت کا مظاہرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جس لباس میں کیا، اس میں بعض چیزیں تو ایسی ہیں جن کی پیروی جوں کی توں کرنی چاہیے، جیسے ستر کے حدود اور اسبالِ ازار سے اجتناب اور ریشم وغیرہ کے استعمال سے پرہیز۔ اور بعض چیزیں ایسی ہیں جو حضور کے اپنے شخصی مزاج اور قومی طرز معاشرت اور آپ کے عہد کے تمدن سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کو سنت بنانا نہ تو مقصود تھا، نہ ان کی پیروی پر اس دلیل سے اصرار کیا جاسکتا ہے کہ اس حدیث کی رو سے اس طرزِ خاص کا لباس نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہنتے تھے، اور نہ شرائع الہٰیہ اس غرض کے لیے آیا کرتی ہیں کہ کسی شخص خاص کے ذاتی مذاق یا کسی قوم کے مخصوص تمدن یا کسی خاص زمانے کے رسم و رواج کو دنیا بھر کے لیے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے سنت بنا دیں۔

سنت کی اس تشریح کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ جو چیزیں اصطلاح شرعی میں سنت نہیں ہیں، ان کو خواہ مخواہ سنت قرار دے دینا من جملہ ان بدعات کے ہیں جن سے نظام دینی میں تحریف واقع ہوتی ہے۔

اب خاص اس ڈاڑھی کے معاملے کو لے لیجیے جس پر اس بحث کی ابتدا ہوئی ہے۔ اس معاملے میں جس روحِ اخلاق و فطرت کو اللہ تعالیٰ ہماری عملی زندگی میں نمایاں دیکھنا چاہتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ مونچھیں کم کی جائیں اور ڈاڑھی بڑھائی جائے۔ اسی کی ہدایت نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم کو دی ہے اور یہی سنت ہے۔ اب رہی اس کی عملی صورت تو اس کا کوئی تعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سے نہیں فرمایا، حالاں کہ کوئی امر اس میں مانع نہیں تھا کہ آپ اعفاء لحیہ کی مقدار اور قصّ شارب کی حد واضح طور پر مقرر فرما دیتے یا کم از کم یہی فرما دیتے کہ ڈاڑھی اور مونچھ کی ٹھیک ٹھیک وہی وضع رکھو جو میری ہے جس طرح نماز کے متعلق حضورﷺ نے فرما دیا کہ اسی طرح پڑھو جس طرح میں پڑھتا ہوں۔ پس جب کہ آپﷺ نے اس معاملے میں کوئی حد مقرر نہیں کی اور صرف ایک عام ہدایت دے کر ہم کو چھوڑ دیا تو اس سے یہ بات خود بخود ظاہر ہوتی ہے کہ جو روح اخلاق و فطرت اس معاملے میں مطلوب ہے، اس کا منشا پورا کرنے کے لیے صرف اتنی بات کافی اور ضروری ہے کہ آدمی ڈاڑھی رکھے اور مونچھ کم کرے۔ اگر کوئی مقدار بھی اس کے ساتھ ضروری ہوتی اور اس مقدار کا قائم کرنا بھی حضورﷺ کا مشن کا کوئی جز ہوتا تو آپ ہر گز اس کے تعین میں کوئی کوتاہی نہ کرتے۔ مجمل حکم کے دینے پر اکتفا کرنا اور تعین سے اجتناب کرنا خود اس بات کی دلیل ہے کہ شریعت اس معاملے میں لوگوں کو آزادی دینا چاہتی ہے کہ وہ اعفاء الحیہ اور قصّ شارب کی جو صورت اپنے مذاق اور صورتوں کے تناسب کے لحاظ سے مناسب سمجھیں، اختیار کریں۔

اب اگر ایک شخص مونچھوں کے بال مونڈ ڈالتا ہو اور دوسرا شخص انہیں اس حد تک کُتر ڈالنا چاہتا ہو کہ کھانے اور پینے میں مونچھوں کے بال آلودہ نہ ہوں تو ان دونوں کو اپنے عمل میں آزادی ہے اور یہ دونوں اپنی اپنی جگہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میرے نزدیک حکم کا منشا اس طریقے سے پورا ہوتا ہے جو میں نے اختیار کیا ہے، لیکن ان میں سے کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ اپنی اس رائے کو تمام دوسرے انسانوں کے لیے شریعت بنانے کی کوشش کرے اور اس کے خلاف جو شخص عمل کر رہا ہو اس کو ملامت کرے۔ اگر وہ اسے شریعت بنانے کی کوشش کرے گا اور اس کے خلاف عمل کرنے والوں کو ملامت کرے گا تو یہ بدعت ہوگی۔ کیوں کہ جو چیز سنت نہیں ہے، اس کو وہ زبردستی سنت بنا رہا ہے۔ سنت صرف قِصّ شارب ہے نہ کہ اس کی کوئی خاص صورت جو کسی شخص نے اپنے استنباط و اجتہاد سے یا اپنے رجحان طبع سے اختیار کی ہو۔

اسی طرح ڈاڑھی کے معاملے میں جو شخص حکم کا یہ منشا سمجھتا ہو کہ اسے بلا نہایت بڑھنے دیا جائے، وہ اپنی اس رائے پر عمل کرے، اور جو شخص کم سے کم مشت کو حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے ضروری سمجھتا ہو وہ اپنی رائے پر عمل کرے اور جو شخص مطلقاً ڈاڑھی رکھنے والے کو (بلا قید مقدار) حکم کا منشا پورا کرنے کے لیے کافی سمجھتا ہو، وہ اپنی رائے پر عمل کرے، ان تینوں گروہوں میں سے کسی کو بھی یہ کہنے کا حق نہیں ہے کہ استنباط و اجتہاد سے جو رائے اس نے قائم کی ہے، وہی شریعت ہے اور اس کی پیروی سب لوگوں پر لازم ہے۔ ایسا کہنا اس چیز کو سنت قرار دینا ہے جس کے سنت ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے اور یہی وہ بات ہے جس کو میں بدعت کہتا ہوں۔

رہا یہ استدلال کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ڈاڑھی رکھنے کا حکم دیا اور اس حکم پر خود ایک خاص طرز کی ڈاڑھی رکھ کر اس کی عملی صورت بتا دی، لہٰذا حدیث میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی جتنی ڈاڑھی مذکور ہے اتنی ہی اور ویسی ہی ڈاڑھی رکھنا سنت ہے تو یہ ویسا ہی استدلال ہے جیسے کوئی شخص یہ کہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ستر عورت کا حکم دیا اور ستر چھپانے کے لیے ایک خاص طرز کا لباس استعمال کر کے بتا دیا لہٰذا اسی طرز کے لباس سے تن پوشی کرنا سنت ہے۔ اگر یہ استدلال درست ہے تو میرے نزدیک آج متبعین سنت میں سے کوئی شخص بھی اس سنت کا اتباع نہیں کر رہا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں، تمدن و معاشرت کے معاملات میں ایک چیز وہ اخلاقی اصول ہیں جن کو زندگی میں جاری کرنے کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تھے اور دوسری چیز جو عملی صورتیں ہیں جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اصولوں کی پیروی کے لیے خود اپنی زندگی میں اختیار کیا۔ یہ عملی صورتیں کچھ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے شخصی مذاق اور طبعیت کی پسند پر منبی تھیں، کچھ اس ملک کی معاشرت پر جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے تھے اور کچھ اس زمانہ کے حالات پر جس میں آپ مبعوث ہوئے تھے، ان میں سے کسی چیز کو بھی تمام اشخاص اور تمام اقوام اور تمام لوگوں کے لیے سنت بنا دینا مقصود نہ تھا۔

(ترجمان القرآن۔ صفر65ھ، جنوری 46ء)