علم ظاہر اور علم باطن

سوال: اسلاف کی کتابیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’علم باطنی‘‘ ایک ایسا علم ہے جو قرآن و حدیث وغیرہ علوم سے جدا محض ریاضیات و مجاہدات سے حاصل ہو سکتا ہے۔چنانچہ امت مسلمہ میں بکثرت انسان ایسے ہیں جن کی زندگیوں میں یہ ترتیب ملتی ہے کہ پہلے انہوں نے کتاب و سنت اور فقہ و کلام وغیرہ علوم کی تحصیل کی اور ان کو ’’علم ظاہری‘‘ کا خطاب دیا۔ اس کے بعد ’’علوم باطنی‘‘ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کے لیے سخت ریاضتیں کیں تب کہیں جا کر انہیں ’’روحانی‘‘ علوم حاصل ہوئے اور ان کو انہوں نے ہمیشہ علوم ظاہری پر ترجیح دی۔براہ کرم کچھ اس پر روشنی ڈالیں کہ اسلامی نقطہ نظر سے علم باطنی کی کیا تعریف ہے؟ اس کی حقیقت کیا تھی؟ اس میں کتنی رنگ آمیزیاں ہوئیں؟ کیا یہ علم ریاضیات و مجاہدات کے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا؟ اور کیا علوم ظاہری کی تحصیل کے بغیر بھی یہ علم حاصل ہوسکتا ہے؟

جواب: آپ کا سوال بہت تفصیل طلب ہے۔ اس کے مختلف پہلوؤں پر میں بارہا اپنے مضامین میں روشنی ڈال چکا ہوں۔ اگرچہ براہ راست اس خاص موضوع پر کچھ نہیں لکھا ہے۔

ظاہر سے مراد اگر احکام شریعت ہوں اور باطن سے مراد حکمت دین، یا ظاہر سے مراد احکام شرعی کی تعمیل ہو، اور باطن سے مراد یہ ہو کہ آدمی اس اعتقادی و اخلاقی روح کو سمجھے اور اپنے نفس اور سیرت وکردار میں اسے جاری و ساری کرے جو احکام شرعی کی تعمیل میں در حقیقت مطلوب ہے، تو یقیناً ظاہر اور باطن کی یہ تفریق درست ہے لیکن اس تفریق کے لحاظ سے باطن کا سر چشمہ بھی وہی ہے جو ظہر کا سرچشمہ ہے، یعنی خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی سنت۔ یہی تلاوت قرآن، یہی مطالعہ سیرت پاک اور یہی صوم و صلوٰۃ اور دوسرے شرعی احکام، جس طرح ظاہر کی اصلاح کے لیے کافی ہیں۔ اسی طرح باطن کی تکمیل کا ذریعہ بھی ہیں۔ اس غرض کے لیے ان چیزوں سے الگ کسی مجاہدہ و ریاضت کی ضرورت نہیں ہے۔

لیکن اگر باطن سے مراد وہ فلسفے ہیں جو یونان اور روم اور ایران اور ہندو سے آئے اور تصوف کے نام سے مسلمانوں میں رائج ہوگئے، تو وہ چاہے جس چیز کا باطن بھی ہوں۔ بہرحال اسلام کا باطن تو نہیں ہیں۔ جو مشقتیں اور ریاضتیں اس غرض سے کی جاتی ہیں کہ ان فلسفوں کی رو سے جس شے کو ’’حقیقت‘‘ سمجھا گیا ہے اس کا مشاہدہ حاصل ہو اور آدمی کشف اور خرق عادت اور صدر وجعائب پر قادر ہو جائے، ان کی شکلیں چاہے اسلامی نماز روزے سے ملتی جلتی ہی کیوں نہ ہوں، اور ان میں اسلامی اصطلاحات کا استعمال ہی کیوں نہ کیا جاتا ہو، بہرحال وہ اسلامی عبادات کی تعریف میں نہیں آتیں کیونکہ ان کی غرض اسلامی عبادات کی غرض سے، اور ان کا ضابطہ سنت نبویﷺ کے مقرر کردہ ضابطہ سے مختلف ہے۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاول 65 ھ ۔ اپریل 46ء)