حبش پر مسلمانوں کے حملہ آور نہ ہونے کی وجہ

سوال:۔ ’’مصر کے مفتوح ہوجانے کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں حبش کی جانب فتوحات کے لیے قدم کیوں نہ بڑھایا گیا؟ کیا محض اس وجہ سے کہ وہاں کے ایک سابق حکمران نے مسلمانوں کو پناہ دی تھی، اور ایک سابق بادشاہ مسلمان ہوگیا تھا‘‘ ؟

جواب:۔ اس سوال کا جواب دینے کے لیے ہمارے پاس مکمل مواد موجود نہیں ہے۔ البتہ ابوداؤد اور مسند امام احمد میں نبیﷺ کا ایک ارشاد ملتا ہے جس میں حبش کے متعلق آپ نے یہ پالیسی متعین فرمادی تھی کہ دعوا الحبشہ ما دعو کم دوسری روایت کے الفاظ ہیں اترکوا الحبشتہ ما ترکوکم یعنی ’’حبش کے لوگ جب تک تمہیں چھوڑے رکھیں تم بھی انہیں چھوڑے رکھو۔‘‘ معلوم ہوتا ہے کہ اسی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے خلفائے راشدین کے دور میں حبش کی طرف کوئی اقدام نہیں کیا گیا۔ اس ارشاد میں جو مصلحت تھی، ممکن ہے کہ اس میں کسی حد تک اس بات کا لحاظ بھی ہو کہ اہل حبش نے مسلمانوں کو ان کی مصیبت کے وقت جو پناہ دی تھی اس کی رعایت کی جائے اور اپنی طرف سے ان کے خلاف پہل نہ کی جائے تاکہ دنیا کو کبھی یہ غلط فہمی لاحق نہ ہوسکے کہ مسلمان ایک احسان فراموش جماعت ہیں۔ لیکن اس کی ایک اور وجہ بھی نظر آتی ہے۔ وہ یہ کہ حبش کی جغرافیائی پوزیشن، اور اس کی سابق تاریخ کو دیکھتے ہوئے غالباً نبیﷺ نے یہ خیال فرمایا ہوگا کہ اسلام کے جغرافی مرکز، یعنی حجاز کے تحفظ کے لیے حبش سے تعلقات کا درست ہونا ضروری ہے۔ اسی مصلحت سے آپ نے یہ ہدایت فرمائی ہوگی کہ جہاں تک اسلام کی دعوت کا تعلق ہے وہ پر امن طریقے سے اس ملک میں پھیلائی جاتی رہے، لیکن جنگ سے حتی الامکان پرہیز کیا جائے۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شعبان 43ھ ۔ جولائی، اگست 43ء)