حروف مقطعات

سوال: تفہیم القرآن میں آپ نے حروف مقطعات کی بحث میں لکھا ہے کہ دور نزول قرآن میں الفاظ کے قائم مقام ایسے حروف کا استعمال حسن بیان اور بلاغت زبان کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ نیز یہ کہ ان کے معنی و مفہوم بالکل معروف ہوتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مخالفین اسلام کی طرف سے اس وقت ان کے استعمال پر کبھی اعتراض نہیں ہوا تھا۔ آگے چل کر آپ فرماتے ہیں کہ ان حروف کی تشریح چنداں اہمیت نہیں رکھتی اور نہ ان کے سمجھنے پر ہدایت کا انحصار ہے۔ اس بارے میں میری حسب ذیل گزارشات ہیں:

اگر ان حروف کے معانی ابتدائی دور میں ایسے معروف تھے تو یہ کیوں کر ممکن ہوا کہ ان کا استعمال شعرو ادب میں متروک ہوگیا اور دفعۃً ان کے معانی اذہان سے کلیتہً محو ہوگئے۔ اس کا تو یہ مطلب ہوا کہ اگر آج بلادعربیہ میں چند ایسے الفاظ کا استعمال متروک ہوجائے جو قرآن میں بھی آئے ہیں تو کچھ عرصہ بعد دنیائے اسلام میں قرآن مجید کے ان الفاظ کا صحیح مفہوم متعین نہیں رہے گا۔ پھر اس سے بھی عجیب تر آپ کا یہ استدلال ہے کہ چوں کہ ان حروف کے معانی کے تعین پر ہدایت و نجات کا دارومدار نہیں ہے اس لیے ان کی تشریح و توضیح کی ضرورت نہیں، اس طرح تو قرآن مجید کے بیشتر حصے کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ اس کا مطلب سمجھنے پر ہدایت کا انحصار نہیں، اور اس حصے کو نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ اس نظریے کے تحت تو تجدید پسند حضرات سے کچھ بعید نہیں کہ وہ قرآن کے ایک حصے کو اہمیت دیں اور دوسرے حصے سے صرف نظر کرلیں۔ براہ کرم آپ اپنے موقف کی دوبارہ وضاحت فرمائیں۔

جواب: آپ نے جو اعتراضات کیے ہیں، ان سے پہلے اگر آپ ان بحثوں کو پڑھ لیتے جو قدیم ترین تفسیروں سے لے کر آج تک کی تفسیروں میں حروف مقطعات پر کی گئی ہیں تو آپ کو میری بات سمجھنے میں زیادہ سہولت ہوتی۔بلکہ شاید ان بحثوں کو دیکھنے کے بعد آپ محسوس کرتے کہ اس مسئلے میں سب سے زیادہ اطمینان بخش وہی بات ہوسکتی ہے جو میں نے لکھی ہے۔

کسی زبان میں بعض اسالیب بیان کا متروک ہوجانا یا معروف نہ رہنا کوئی ایسا انوکھا واقعہ نہیں ہے کہ آپ کو یہ سن کر اس قدر تعجب ہوا بلکہ اس کے برعکس یہ ایک عجیب بات ہے کہ قرآن مجید کی بدولت تیرہ سو سال سے عربی زبان کے ادب میں اتنا کم تغیر واقع ہوا ہے۔ اتنی طویل مدت میں تو زبانیں بدل کر کچھ سے کچھ ہوجایا کرتی ہیں۔

حروف مقطعات زیادہ تر خطبات اور شعر میں استعمال ہوتے تھے اور ان کے کوئی ایسے متعین معنی نہ تھے کہ باقاعدہ لغت میں درج کیے جاتے۔ بلکہ یہ ایک اسلوب بیان تھا جس سے کثرت استعمال کی بنا پر بولنے والے اور سننے والے یکساں طور پر مانوس تھے۔ اسی لیے جب رفتہ رفتہ زبان میں یہ اسلوب کم استعمال ہوتے ہوتے متروک ہوگیا تو لوگوں کے لیے اس کا سمجھنا مشکل ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ تیسری چوتھی صدی کے مفسرین کو ان کے معنی متعین کرنے کے لیے لمبی چوڑی بحثیں کرنی پڑیں اور پھر بھی وہ کوئی تسلی بخش بات نہ کہہ سکے۔

اسالیب بیان کے بتدریج متروک ہونے کی شان یہی ہوتی ہے کہ کوئی خاص تاریخ ان کے متروک ہونے کی بیان نہیں کی جاسکتی۔ بس ایک مدت کے بعد محسوس ہونے لگتا ہے کہ لوگ ان کو سمجھنے سے قاصر ہو رہے ہیں۔ جس زمانے میں یہ اسلوب مستعمل تھا، اس زمانے میں اس کی تشریح کی کسی کو ضرورت پیش نہ آئی اور جب یہ مستعمل نہ رہا تو تشریح کی ضرورت بھی پیش آئی اور تشریحات کی بھی گئیں۔ مگر جیسا کہ میں اوپر کہہ چکا ہوں ، یہ تشریحات اتنی مختلف تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی تشفی بخش نہ ہوسکی۔

آپ کا یہ شبہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگر قرآن مجید کے بعض الفاظ متروک ہوجائیں تو کیا ان کا مفہوم بھی متعین نہ رہے گا؟ الفاظ اور اسالیب بیان کو خلط ملط نہ کیجیے۔ الفاظ کے سارے مادے لغت میں ضبط کیے جا چکے ہیں اور ان کی جملہ تشقیقات، نیز محاورے میں ان کے استعمالات، سب کو اہل لغت نے وضاحت کے ساتھ لکھ دیا ہے۔ اس لیے اب اگر عربی زبان میں ان کا استعمال عموماً نہ ہو، تب بھی کوئی نقصان واقع نہیں ہوتا۔ مگر اسالیب بیان کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ انکے معنی کہیں ضبط کیے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ استعمال ہی سے سمجھ میں آتے ہیں، اور استعمال متروک ہونے کے بعد کسی حد تک وہی لوگ ان کو سمجھ سکتے ہیں، جو اس دور کے ادب کا کثرت سے مطالعہ کریں، جس دور میں وہ اسالیب مستعمل تھے، یہاں تک کہ ان کا ذوق ان اسالیب سے مانوس ہوجائے۔

میں نے حروف مقطعات کے متعلق جو بات کہی ہے کہ ان کا مفہوم نہ سمجھنے سے کوئی بڑی قباحت واقع نہیں ہوتی، اسے آپ خواہ مخواہ کھینچ کر بہت دور لے گئے ہیں۔ میرا مطلب صرف یہ ہے کہ یہ حروف چوں کہ خطیبانہ بلاغت کی شان رکھتے ہیں، اور ان میں کوئی خاص حکم یا کوئی خاص تعلیم ارشاد نہیں ہوئی ہے۔ اس لیے اگر آدمی ان کا مطلب نہ سمجھ سکے تو اس کا یہ نقصان نہیں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کے جاننے سے یا کسی تعلیم سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہ گیا ۔ لہٰذا جب ان کے معنی متعین کرنے کے لیے کوئی اصول ہاتھ نہیں آتا، اور کوئی مستند تشریح بھی نہیں ملتی تو خواہ مخواہ تکلیف سے معنی پیدا کرنے اور تیر تکے لڑانے کی ضرورت نہیں۔ ان کی صحیح مراد خدا پر چھوڑئیے اور کتاب کی ان آیات پر تدبر شروع کردیجیے جنہیں سمجھنے کے ذرائع ہمارے پاس ہیں۔

(ترجمان القرآن۔ ذی الحجہ ۱۳۷۱ھ۔ مطابق ستمبر ۱۹۵۲ء)