کمپنیوں کے حصوں میں زکوٰۃ کا مسئلہ

سوال: کسی مشترکہ کاروبار مثلاً کسی کمپنی کے حصص کی زکوٰۃ کا مسئلہ سمجھ میں نہیں آ سکا۔ حصہ بجائے خود تو کوئی قیمتی چیز نہیں ہے، محض ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے۔ صرف اس دستاویز کے ذریعے حصہ دار کمپنی کی املاک و جائیداد مشترکہ میں شامل ہو کر بقدر اپنے حصہ کے مالک یا حصہ دار قرار پاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ کمپنی کے املاک کیا اور کس نوعیت کے ہیں۔ اگر کمپنی کی جائیداد تعمیرات (بلڈنگ) اراضیات اور مشینری پر مشتمل ہو تو حصہ دار کی شراکت بھی ایسے املاک کی ہوگی جس پر آپ کے بیان کردہ اصول کے ماتحت زکوٰۃ نہیں آتی۔حصہ دار کے حصہ کی مالیت تو ضرور ہے لیکن وہ اس تمام مالیت کا جزو ہے جو غیر منقولہ جائیداد کی شکل میں کمپنی کومجموعی حیثیت سے حاصل ہے۔ پھر حصہ دار کے حصے پر زکوٰۃ کیوں عائد ہونی چاہیے۔

مضاربت کی صورت میں زکوٰۃ

سوال: دو آدمی شرکت میں کاروبار شروع کرتے ہیں۔ شریک اول سرمایہ لگاتے ہیں اور محنت بھی کرتے ہیں۔ شریک ثانی صرف محنت کے شریک ہیں۔ منافع کی تقسیم اس طرح پر طے پاتی ہے کہ کل منافع کے تین حصے کئے جائیں گے، ایک حصہ سرمایہ کا اور ایک ایک حصہ ہر دو شرکاء کا ہوگا۔ اس کاروبار کی زکوٰۃ کے متعلق دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ان کے جوابات سے مطلع فرمائیں:

(ا) اگر کاروبار کے مجموعی سرمایے سے یکجا زکوٰۃ نکالی جائے تو شریک ثانی کو یہ اعتراض ہے کہ کاروبار کا سرمایہ صرف صاحب سرمایہ کی ملکیت ہے اور اس پر اسے علیحدہ منافع بھی ملتا ہے، لہٰذا سرمایہ پر زکوٰۃ سرمایہ دار کو ہی دینی چاہیے۔ کیا شریک ثانی کا یہ اعتراض درست ہے؟

(ب) کاروبار میں نفع اور نقصان دونوں کا احتمال ہوتا ہے۔ زکوٰۃ کا نفع و نقصان سے نہیں بلکہ سرمائے سے تعلق ہے۔ کاروبار میں نقصان کی صورت میں بھی موجود سرمائے پر زکوٰۃ دی جائے گی۔ اگر نقصان کی صورت میں کاروبار سے زکوٰۃ نکالی جائے گی تو شریک ثانی کے حصہ کی زکوٰۃ کی ایک تہائی رقم اس کے اگلے سال کے منافع سے نکالی جائے گی، جبکہ اگلے سال بھی زکوٰۃ کی رقم کا ایک تہائی حصہ اسے دینا ہوگا۔ ایسی حالت میں شریک ثانی کے لیے یہ زکوٰۃ نہیں رہی بلکہ سرمایہ دار کے سرمایہ کی زکوٰۃ کا ایک حصہ ادا کرنے کا ٹیکس ہوجاتا ہے۔ کیا یہ صورت زکوٰۃ کے اصل مقصد کے منافی نہیں ہے؟

اختیار اھون البلیتین کا شرعی قاعدہ

سوال:اختیار ’’اھون البلیتین‘‘ (دو بلاؤں میں سے کم درجے کی بلا کو اختیار کرنے کا مسئلہ) ایک سلسلے میں مجھ کو عرصہ سے کھٹک رہا ہے۔ آج کل اس مسئلہ کا استعمال کچھ اس طرح ہو رہا ہے کہ وضاحت ضروری ہوگئی ہے۔

ہم مسلمانوں میں سے چوٹی کے حضرات (جیسے علمائے دیو بند، مولانا حسین احمد مدنی، اور مولانا ابوالکلام آزاد) کا جماعت اسلامی کے پیش کردہ نصب العین سے اختلاف ایک ایسا سوال ہے جس پر میں دل ہی دل میں برابر غور کرتا رہا ہوں۔ میرا خیال یہ ہوا کہ ان حضرات کی نگاہ میں نصب العین کو ترک کرنا اہون ہوگا لہٰذا انہوں نے ترک کیا اور جماعت اسلامی کے نزدیک اس کا قبول کرنا اہون ہوگا لہٰذا انہوں نے اسے اختیار کرلیا۔ میں اسی سوچ بچار میں تھا کہ ترجمان القرآن میں مولانا حسین احمدمدنی کی ایک تحریر پڑھی جس میں واقعی یہ قرار موجود تھا کہ اھون البلیتین کو انہوں نے اختیار فرمایا ہے۔ اس پر مجھ کوحیرت ہوئی، پوری بات اور آگے چل کر کھلی جب ’’الانصاف‘‘ (انڈیا) میں جمعیت کی پالیسی کے متعلق مولانا کا یہ بیان نظر سے گزرا کہ کانگریس اور کمیونسٹ جو دو بلیتین تھیں ان میں سے ہم نے اہون کانگریس کو اختیار کیا ہے۔

پوسٹ مارٹم، شق صدر اور لفظ ’’دل‘‘ کا قرآنی مفہوم

سوال: (۱)اسلامی حکومت میں نعشوں کی چیر پھاڑ (Post mortom) کی کیا صورت اختیار کی جائے گی؟ اسلام تو لاشوں کی بے حرمتی کی اجازت نہیں دیتا۔ پوسٹ مارٹم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک (Medico-Legal) زیادہ تر تفتیش کے لیے، دوسرے علم الامراض کی (Pathological) ضروریات کے لیے۔ ممکن ہے اوٓل الذکر کی کچھ زیادہ اہمیت اسلامی حکومت میں نہ ہو، لیکن موخرالذکر کی ضرورت سے انکار نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ اس طریقے سے امراض کی تشخیص اور طبی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔

پوسٹ مارٹم اور دوسرے طبی مسائل

سوال: سابق خط کے جواب سے میری تشفی نہیں ہوئی۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’پوسٹ مارٹم کی ضرورت بھی مسلم ہے اور احکام شرعیہ میں شدید ضرورت کے بغیر اس کی گنجائش بھی نظر نہیں آتی‘‘۔مگر مشکل یہ ہے کہ طبی نقطہ نگاہ سے کم از کم اس مریض کی لاش کاپوسٹ مارٹم تو ضرور ہونا چاہئے جس کے مرض کی تشخیص نہ ہوسکی ہو یا اس کے باوجود علاج بیکار ثابت ہوا ہو۔ اسی طرح ’’طبی قانونی‘‘ (Medico-Legal) نقطہ نظر سے بھی نوعیت جرم کی تشخیص کے لیے پوسٹ مارٹم لازمی ہے۔ علاوہ ازیں اناٹومی، فزیالوجی اور آپریٹو سرجری کی تعلیم بھی جسد انسانی کے بغیر نا ممکن ہے۔ آپ واضح فرمائیں کہ ان صورتوں میں شرعاً شدید ضرورت کا اطلاق ہوسکتا ہے یا نہیں؟

الکوہل کے مختلف مدارج و اشکال کا حکم

سوال: آ پ نے ترجمان القرآن میں ایک جگہ الکوہل کے خواص رکھنے والی اشیاء کی حلت و حرمت پر بحث کی ہے۔ اس سلسلے میں بعض امور وضاحت طلب ہیں۔ طبعی اور قدرتی اشیاء میں الکوہل اس وقت پائی جاتی ہے جبکہ وہ تعفین و تخمیر کے منازل خاص طریق پر طے کرچکی ہوں۔ بالفاظ دیگر جس شے سے الکوہل حاصل کرنا مقصود ہو، اسے اس قابل بنایا جاتا ہے کہ اس میں الکوہل پیدا ہوجائے۔ جب تک اس میں یہ صلاحیت پیدا نہ ہو، اس وقت تک اس میں الکوہل کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات دوسری ہے کہ بعض اشیاء میں الکوہل کی صلاحیت زیادہ ہے، بعض میں کم اور بعض میں بالکل نہیں۔ جن اشیاء سے شراب تیار کی جاتی ہے، ان میں یہ صلاحیت بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے۔ اگر ایسی صلاحیت رکھنی والی قدرتی اشیاء میں تخمیر وتعفین کی وجہ سے الکوہل یا سکر پیدا ہوجائے تو وہ سب حرام ہوجائیں گی؟

حرام کو حلال کرنے کے لیے حیلہ سازی

سوال: زید پر حکومت کی طرف سے ناجائز ٹیکس واجب الادا ہیں وہ انہیں مجبوراً ادا کرتا ہے۔ زید نے اس نقصان کی تلافی کا یہ حیلہ سوچا ہے کہ اس کا جو روپیہ بینک یا ڈاک خانہ میں ہے، اس پر وہ سود وصول کرلے۔ کیا ایسا کرنا صحیح ہے؟