“سوالات متعلقہ “تفہیم القرآن

سوال: مندرجہ ذیل استفسارات پر روشنی ڈالیں۔
۱۔ آپ نے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں ایک جگہ اس خیال کا اظہار کیا ہے کہ طوفان نوح عام نہیں تھا۔لیکن ظاہری قرائن اس بات کے خلاف ہیں۔ اول کشتی کس لیے بنائی گئی تھی؟ کیوں نہ حضرت نوحؑ کو ہجرت کرنے کا حکم دیا؟ دوم کشتی میں حیوانات میں سے ایک ایک جوڑا لینا بھی اس بات کا موید ہے کہ طوفان نہایت عام تھا۔ حضرت نوحؑ کی بد دعا میں بھی اس عمومیت کی طرف ایک ہلکا سا اشارہ ہے کہ رَّبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا۔(سورۃ نوح، آیت 26)
۲۔ ثانیاً آپ نے خیال ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی موجودہ انسانی نسل ان سب لوگوں کی ہے جو کہ حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے۔ آپ نے ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ (سورۃ لاسراء، آیت:3) سے اس کی دلیل اخذ کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے، کیوں کہ نوحؑ کے ساتھ ان کے تین بیٹے بھی کشتی میں سوار تھے۔ ظاہر ہے کہ اس جگہ من حملنا مع نوح سے مراد حضرت نوحؑ کے بیٹے ہیں نہ کہ کچھ اور لوگ۔ دوسری جگہ اس کی تفسیر خود قرآن مجید کے یہ الفاظ کرتے ہیں کہ وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمْ الْبَاقِينَ (سورۃ الصافات، آیت:77) کتنے کامل حصر کے الفاظ ہیں!

۳۔ سورہ یوسف کی تفسیر میں جناب نے لکھا ہے کہ زلیخا کو حضرت یوسفؑ نے نکاح میں نہیں لیا، کیوں کہ قرآن مجید سے اس عورت کا بدچلن ہونا ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن کیا حضرت لوطؑ اور حضرت نوحؑ کی ازواج کافر نہ تھیں؟ اگر تھیں تو کفر کیا بدچلنی سے زیادہ شدید نہیں ہے؟ علاوہ بریں حضرت یوسفؑ کے قصے میں یہ بیان کیا جاتا ہے کہ عقد نکاح کے وقت تک زلیخا مسلمان ہوچکی تھیں اور سابقہ بد چلنی سے تائب ہوگئی تھیں۔

جواب: (۱) میں قطعیت کے ساتھ تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ طوفان نوح عالمگیر نہ تھا لیکن میرا اندازہ تاریخ و آثار قدیمہ کے مطالعہ کی بنا پر ہے کہ طوفان صرف اس علاقے میں آیا تھا جہاں قوم نوحؑ آباد تھی۔ قرآن مجید سے اس کے خلاف یا موافق کوئی تصریح بات نہیں ملتی۔

آپ کا یہ معارضہ کہ کشتی بنانے کا حکم کیوں دیا گیا؟ ہجرت کا حکم کیوں نہ دیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت تک نسل آدم تمام روئے زمین پر نہ پھیلی تھی۔ آباد دنیا بس اتنی ہی تھی جس میں قوم نوحؑ آباد تھی۔ یہی آپ کے دوسرے معارضات کا بھی جواب ہے۔

۲۔حضرت نوحؑ کے متعلق یہ بات قرآن مجید سے ثابت ہے کہ ان پر ایمان لانے والے صرف ان کے گھر کے لوگ ہی نہ تھے بلکہ ان کی قوم کے دوسرے لوگ بھی تھے، اگر چہ تھوڑے تھے نیز یہ کہ کشتی میں یہ سب اہل ایمان سوار کئے گئے تھے۔ سورہ ہود میں ہے:

قُلْنَا احْمِلْ فِيهَا مِن كُلٍّ زَوْجَيْنِ اثْنَيْنِ وَأَهْلَكَ إِلاَّ مَن سَبَقَ عَلَيْهِ الْقَوْلُ وَمَنْ آمَنَ وَمَا آمَنَ مَعَهُ إِلاَّ قَلِيلٌ

ان لوگوں کے بارے میں یہ کہیں نہیں کہا گیا کہ ان سب کی نسل ناپید ہوگئی۔

اس کے برعکس قرآن مجید دو جگہ تصریح کرتا ہے کہ بعد کی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد تھیں جو حضرت نوحؑ کے ساتھ کشتی پر سوار کئے گئے تھے۔ سورہ بنی اسرائیل میں فرمایا:ذُرِّيَّةَ مَنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ اورسورہ مریم میں فرمایا:

مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ اس کے جواب میں آپ کا یہ اشارہ کہ سورہ صٰفٰت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَجَعَلْنَا ذُرِّيَّتَهُ هُمْ الْبَاقِينَ

اور یہ حصر پر دلالت کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں مقصود یہ ظاہر کرنا نہیں ہے کہ صرف حضرت نوحؑ کی اولاد ہی باقی رہی بلکہ یہ ظاہر کرنا کہ جن لوگوں نے حضرت نوحؑ کو کرب عظیم میں مبتلا کیا تھا، وہ مٹ گئے اور باقی اس شخص کی ذریت ہی رہی، جس کو وہ مٹا دینا چاہتے تھے۔

۳۔ زلیخا سے حضرت یوسفؑ کے نکاح کا کوئی ثبوت نہ قرآن میں ہے نہ کسی حدیث میں اور نہ بنی اسرائیل کی معتبر روایات میں۔ نیز قرآن مجید سے اس عورت کی توبہ کا بھی کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ پھر اس قصے کی صحت پر اصرار کی کیا ضرورت ہے؟ جس بدچلنی کا ارتکاب امرأۃ العزیز سے ہوا تھا، حضرت لوطؑ اور حضرت نوحؑ کی بیویوں کے متعلق اس طرح کی کسی بدچلنی کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔رہا آپ کا یہ ارشاد کہ کفر سے زیادہ بدچلنی اور کیا ہوسکتی ہے، تو آپ خود غور کریں گے توآپ کو اس قول کی کمزوری معلوم ہوجائے گی۔ زنا اور اس کے مقدمات ایک ایسی بدچلنی ہیں جو بالاتفاق تمام عالم انسانی میں قبائح اور رزائل میں سے شمار ہوتی ہے۔ اس میں ملوث ہونا اور بات ہے اور کفرو شرک میں مبتلا ہونا اور بات۔ انبیاء علیہم السلام کے آباؤ اجداد اور بعض کے اہل بیت تک کفرو شرک میں مبتلا رہے ہیں، مگر بے عصمتی میں مبتلا نہیں رہے۔ اعتقادی حیثیت سے کفرو شرک خواہ کتنے ہی اشد ہوں مگر اخلاقی حیثیت سے بے عصمتی بہت زیادہ پست اور ادنیٰ چیز ہے، جسے کفار و مشرکین تک بھی ذلت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سوال: ’’مجھے علم نباتات میں کوئی مہارت نہیں، تاہم تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے ہوئے چند سوالات پیدا ہوئے ہیں جنہیں اطمینان حاصل کرنے کے لیے پیش کرتا ہوں۔

’’ترجمان القرآن‘‘ ،جلد ۳۵، عدد ۳، ۴، صفحہ ۱۴۳ پر یہ حاشیہ ہے کہ ’’ایک ہی درخت ہے اور اس کا ہر پھل دوسرے پھل سے نوعیت میں متحد ہونے کے باوجود شکل، جسامت، اور مزے میں مختلف ہے‘‘ اور ’’ایک ہی جڑ ہے اور اس سے دو الگ تنے نکلتے ہیں جن کے پھل ایک دوسرے سے مختلف ہیں‘‘۔

’’مزے میں مختلف‘‘ ہونے کی یہ رائے جو آپ نے لکھی ہے، یہ مشاہدے کی بنا پر ہے یا کتابی علم کی بنا پر؟ اگر واقعہ یہی ہے تو بہترتھا کہ چند ایسے درختوں کی مثالیں بھی دی جاتیں۔ میرا تو خیال یہ ہے کہ ایک ہی درخت کے پھل کے مزے میں کوئی نمایاں فرق نہیں ہوتا، البتہ درخت کے جس حصے کو سورج کی روشنی وافر ملتی ہے۔ اس حصے کے پھل پہلے پختہ ہوجاتے ہیں۔ پھلوں کی شکلوں اور جسامت میں تو فرق ہوسکتا ہے مگر مزے میں فرق ہونا سمجھ میں نہیں آیا۔‘‘

جواب: ہر درخت کے پھلوں کی جسامت، رنگ اور مزے کا انحصار اس غذا پر ہے جو ان کو جڑ کے توسط سے پہنچتی ہے اور اس سردی گرمی پر ہے جو انہیں دھوپ، ہوا اور دوسرے شب وروز کے اثرات سے پہنچتی ہے۔ یہ سب عوامل چوں کہ تمام پھلوں پر یکساں طریقے سے اثر انداز نہیں ہوتے، بلکہ ہر ایک پھل اور دوسرے پھل کے معاملے میں ان کے اثرات کچھ نہ کچھ متفادت ہوتے ہیں۔ اس لیے جس طرح جسامت اور رنگ میں تھوڑا بہت تفاوت ضرور ہوتا ہے، اسی طرح مزے میں بھی کم و بیش تفاوت ہوا کرتا ہے، اگرچہ بہت زیادہ نمایاں نہیں ہوتا۔

اس کے علاوہ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ کائنات میں کوئی دو چیزیں بھی ایسی نہیں ہیں جو جملہ حیثیات سے بالکل یکساں ہوں۔ ہر شے کے اندر اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی انفرادیت رکھ دی ہے جس میں کوئی دوسری شے اس کی شریک نہیں ہے۔ حد یہ ہے کہ ایک ہی آدمی کے جسم کے ایک ہاتھ کے نشانات دوسرے ہاتھ کے نشانات سے مختلف ہوتے ہیں، ایک ہی چہرے کا دایاں رخ بائیں رخ سے مختلف ہوتا ہے، ایک ہی سر کے دو بال بالکل یکساں نہیں ہوتے۔ اس طرح صانع کامل واکمل نے یہ دکھایا ہے کہ اس کی صناعی کمال درجے کی جدت طراز ہے۔ اس حیرت انگیز شان خلاقی پر اگر آدمی کی نگاہ ہو تو اسے یقین آجائے کہ اللہ تعالیٰ اس بے پایاں کائنات کے ہر گوشے میں ہر وقت، ہر چیز پر تصرف اور توجہ فرما رہا ہے اور ہر آن اس کا تخلیقی اور تدبیری کام عالمگیر پیمانے پر جاری ہے۔ سخت نادان اور جاہل ہیں وہ لوگ جو یہ سمجھتے ہیں کہ خدا اس کارخانہ ہستی کو حرکت میں لاکر کسی گوشے میں بیکار بیٹھ گیا ہے اور اب یہ کارخانہ ایک لگے بندھے قاعدے کے مطابق آپ سے آپ چل رہا ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو تخلیق میں بے پایاں تنوع اور صنعت میں یہ کمال درجے کا تجدو کیسے پایا جاسکتا۔

(ترجمان القرآن، جمادی الاول، جمادی الاخر ۱۳۷۰ھ۔ اپریل، مئی ۱۹۵۰ء)