نسخ فی القرآن

سوال: نسخ کے بارے میں مندرجہ ذیل سوالات پر براہ کرم روشنی ڈالیں:

(۱) قرآن مجید میں نسخ کے بارے میں آپ کی تحقیق کیا ہے؟ کیا کوئی آیت مصحف میں ایسی ہے جس کی تلاوت تو کی جاتی ہو مگر اس کا حکم منسوخ ہو۔

(۲) قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت ہے جو منسوخ التلاوۃ ہو مگر اس کا حکم باقی ہو؟ محدثین و فقہا نے آیت رجم کو بطور مثال پیش کیا ہے۔

(۳) اصول فقہ کی کتابوں میں لکھا ہے کہ حدیث قرآن مجید کو منسوخ کر سکتی ہے۔ کیا یہ نظریہ آئمہ فقہا سے ثابت ہے؟ اگر ہے تو اس کا صحیح مفہوم کیا ہے؟

جواب: آپ کے سوالات تو مختصر ہیں مگر ان کے جواب کے لیے تفصیلی بحث کی ضرورت ہے جس کی فرصت مجھے حاصل نہیں ہے۔ اس لیے مجمل جوابات پر ہی قناعت کرتا ہوں۔

(۱) قرآن مجید میں نسخ دراصل تدریج فی الاحکام کی بنیاد پر ہے۔یہ نسخ ابدی نہیں ہے۔ متعدد احکام منسوخہ ایسے ہیں کہ اگر معاشرے میں کبھی ہم کو پھر ان حالات سے سابقہ پیش آجائے جن میں وہ احکام دیئے تھے تو انہی احکام پر عمل ہوگا۔ وہ منسوخ صرف اسی صورت میں ہوتے ہیں جبکہ معاشرہ ان حالات سے گزر جائے اور بعد والے احکام کو نافذ کرنے کے لیے حالات پیدا ہوجائیں۔

(۲)میرے نزدیک قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جو منسوخ التلاوۃ ہو اور بس اس کا حکم باقی ہو۔ آیت رجم جس کا ذکر بعض روایات میں آیا ہے، دراصل ایک دوسری کتاب اللہ یعنی تورات کی آیت تھی، نہ کہ قرآن مجید کی۔ اس آیت کے نسخ سے مراد یہ ہے کہ جس کتاب میں یہ آیت تھی، اس کتاب کو تو منسوخ کر دیا گیا مگر اس کے رجم کے حکم کو باقی رکھا گیا۔

(۳) بلاشبہ فقہا کا ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ سنت قرآن مجید کی ناسخ اور اس پر قاضی ہے، لیکن اس کا مطلب وہ نہیں ہے جو بظاہر الفاظ سے متبادر ہوتا ہے۔ بلکہ مطلب یہ ہے کہ جس طرح نبیﷺ کی تشریح سے قرآن مجید کا ایک خاص حکم عام ہوسکتا ہے، بالکل اسی طرح آپ کی قولی یا عملی تشریح یہ بھی بتاتی ہے کہ کسی خاص آیت کا حکم باقی نہیں رہا ہے۔ اس مفہوم کے علاوہ اگر اس اصول سے کوئی دوسرا مفہوم اخذ کیا گیا ہے تو وہ صحیح نہیں ہے۔

(ترجمان القرآن۔ شعبان، رمضان ۱۳۷۲ھ۔ مئی، جون۱۹۵۳ء)