ایک اور اعتراض

سوال: میں مدرسہ مظاہر العلوم کا فارغ التحصیل ہوں۔ میرا عقیدہ علما دیو بند و مظاہر العلوم سے وابستہ ہے مگر ساتھ ساتھ اپنے اندر کافی وسعت رکھتا ہوں۔ جہاں مجھے بھلائی معلوم ہوجائے، وہاں حتی الامکان اس میں حصہ لینے کا رجحان رکھتا ہوں۔ اسی وجہ سے جماعتِ اسلامی کے ساتھ قلبی ربط رکھتا ہوں۔ اخبار ’’کوثر‘‘ اور لٹریچر کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں، مولانا ابوللیث کی زندگی کو قریب سے دیکھ چکا ہوں۔ علمائے دیوبند اور آپ کے درمیان جو کشیدگی پیدا ہوگئی ہے، اس کا بھی مجھے علم ہے اور اس کی وجہ سے میری طبیعت پریشان ہے۔ میں نے ’’ترجمان القرآن‘‘ کے وہ شمارے پڑھے ہیں جن میں حکیم گنگوہی صاحب کے اعتراضات کے جوابات آپ نے بہ نفس نفیس اور مولانا امین احسن صاحب نے دیے ہیں۔ انہیں پڑھتے ہی میں نے حضرت استاد مفتی … کی خدمت میں جوابی لفافہ بھیجتے ہوئے لکھا ہے کہ میری نظر میں ایک یہی جماعتِ اسلامی موجودہ وقت میں حزب اللہ معلوم ہوتی ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان لوگوں کے ساتھ کام کروں۔ مگر ساتھ ساتھ معلوم ہوا کہ آپ حضرات کو اس جماعت سے شدید اختلاف ہے۔ لہٰذا آپ مولانا مودودی کے وہ خیالات ان کی کتابوں سے نقل فرمائیں جو اہل سنت و الجماعت کے خلاف ہیں۔ چنانچہ انہوں نے ’’کشف الحقیقۃ‘‘ نامی رسالہ بھیج دیا۔میں اس کا مطالعہ کرچکا ہوں۔

مولانا حسین احمدصاحب کا فتویٰ

سوال: جناب مولانا حسین احمد مدنی نے ایک پمفلٹ ’’مسلمان اگرچہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘ شائع کرایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہلِ سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیتِ صریحہ کے بالکل منافی ہے اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزوایمان ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کوشافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ شافعیہ و محدثین اعمال کو ایمان کا جزو مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں۔…

جماعتِ اسلامی اور علمائے کرام

سوال: جماعتِ اسلامی اور علمائے حق کا نزاع اندریں صورت قابل افسوس ہے۔ اس سے اصل کام کی رفتار پر بہت اثر پڑے گا اور یہ معمولی بات نہ سمجھی جائے۔ مذہبی جماعتوں میں سے جماعتِ اسلامی کو اچھی نگاہ سے دیکھنے والی اور جائز حد تک اتفاق ظاہر کرنے والی ایک اہل حدیث کی جماعت ہے (جو قلیل ہے) اور دوسری جماعت علمائے حق کی ہے جو اہل دیو بند سے متعلق ہے (یعنی بریلویوں کے مقابلے میں) اور یہ کثیر تعداد میں ہے۔ اگر اس گروہ عظیم کے اکابر و اصاغر جماعتِ اسلامی سے اس رنگ میں متنفر ہوتے ہیں تو بنظر غائز دیکھ لیا جائے کہ عوام میں کتنی بے لطفی پیدا ہوجائے گی اور اصل مقصد سے ہٹ کر جماعتِ اسلامی کے افراد کس فرقہ بندی کی مصیبت میں مبتلا ہوجائیں گے۔

علمائے کرام کی خدمت میں

سوال: ہمیں ایک اشتہار موصول ہوا ہے جسے ہندوستان سے لاکر پاکستان میں پھیلایا جارہا ہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

حضرت مولانا مدنی کا بصیرت افروز بیان

مولانا مولوی عبدالحمید بلند شہری مدرس مدرسہ اشرف العلوم گنگوہ ضلع سہارنپور کے ایک خط کا وہ اقتباس ہے جو انہوں نے حضرت مولانا سیدحسین احمد مدنی عمت فیوضھم کو لکھا ہے۔ ذیل میں صرف وہ حصہ ہے جس کا تعلق اس جماعت سے ہے جس نے اپنا نام جماعت اسلامی رکھا ہے:

چند دلچسپ سوالات

سوال: ’’حسب ذیل استفسارات پر روشنی ڈال کر بے پایاں شکریہ کا موقع دیں:

۱۔ اگر آپ کی جماعت پاکستان میں نہ آجاتی تو تحریک اسلامی کے ظہور پذیر ہونے یا بڑھنے کے امکانات کا خاتمہ ہوجاتا۔ کیا آپ اس خیال سے متفق ہیں؟

۲۔ پنچائتی نظام اگر کسی جماعت کے امیر کو ’’صالح‘‘ نمائندہ تجویز نہیں کرسکتا تو اس جماعت کے افراد کیوں کر صالح قرار دیے جا سکتے ہیں؟

۳۔ ایک شیعہ (جوخلفائے ثلاثہ کی حکومت کو غیر اسلامی قرار دیتا ہے) اپنے عقیدہ پر قائم رہتے ہوئے آپ کی تحریک میں شامل ہوسکتا ہے یا نہیں؟

۴۔ کیا ایک صالح نمائندہ اپنے حق میں ووٹ ڈال سکتا ہے۔ شرعی دلیل کیا ہے؟

۵۔ آپ کے تجویز کردہ نظام پنچائیت میں اسمبلی سے باہر اور اندر حلقوں اور عہدوں کی بھر مار اور سر جوڑ کر بیٹھنے کا طریق خلافت راشدہ کے زمانے میں موجود تھا؟ یا خلیفہ وقت عوام کے لیے از خود نمائندے نامزد کرتا تھا؟

۶۔ ہندوستان میں کفر و ارتداد کی مہم تیز ہے۔ کیا ان حالات میں پاکستان کا فرض نہیں کہ وہ بزور شمشیر ہندوستان پر قابض ہو کر آپ کی صالحانہ قیادت کی روشنی میں اسلامی حکومت کا قیام عمل میں لے آئے؟ اس صورت میں کیا موجودہ مالی اور اقتصادی معاملات اسلامی علم بلند کرنے کے راستے میں کبھی روک تو ثابت نہیں ہوسکتے؟

تبلیغی جماعت سے ایک دوستانہ شکایت

سوال:پچھلے دنوں سکھر میں تبلیغی جماعت کا ایک بڑا جلسہ منعقد ہوا تھا۔ جس میں ہندوستان و پاکستان کی تبلیغی جماعت کے امیر جناب مولانا محمد یوسف صاحب (صاحب زادہ و جانشین مولانا محمد الیاس صاحب مرحوم) خود تشریف لائے تھے۔ جماعتِ اسلامی سکھر نے فیصلہ کیا کہ اس موقع پر جلسہ گاہ کے حدود میں اپنا ایک بک اسٹال لگائے۔ چنانچہ منتظمین سے مل کر انہوں نے دریافت کیا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہ ہوگا۔ ان کے ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا اس میں اعتراض کی کون سی وجہ ہوسکتی ہے، آپ شوق سے اپنا مکتبہ لگائیں۔ اس کے بعد ان سے اسٹال کے لیے جگہ بھی طے ہوگئی۔ مگر دوسرے روز شام کو جب فضل مبین صاحب امیر جماعتِ اسلامی سکھر نے وہاں جا کر اسٹال لگوانے کا انتظام شروع کیا تو انہیں یکایک منع کردیا گیا۔ وجہ پوچھی گئی تو ایک ذمہ دار بزرگ نے جواب دیا کہ ’’ہماری مجلس شوریٰ نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم نہ آپ کو مکتبہ لگانے کی اجازت دیں گے اور نہ آپ سے کسی قسم کا دوسرا تعاون لیں گے۔ اور اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ آپ ایک سیاسی جماعت ہیں‘‘۔ اس جواب اور اس طرز عمل پر جو تعجب ہوا، اس پر مزید تعجب اس بات پر ہوا کہ وہاں دوسرے متعدد بک اسٹالز موجود تھے اور اس پر ان حضرات کو کوئی اعتراض نہ تھا مگر جماعتِ اسلامی کے متعلق ان کی خواہش یہ تھی کہ ان کی جلسہ گاہ سے ایک میل تک بھی اس کا مکتبہ نظر نہ آئے۔

اقامت دین کے لیے کس قسم کا تزکیہ درکا ر ہے؟

سوال: اقامت دین کی دعوت جس فکر اور جس انداز میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس میں کوئی صاحب ایمان جو سمع و بصر اور شعور کی دولت سے بہرہ ور ہو، اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس اسلوب میں حاضر کے تقاضوں کا پورا لحاظ اور اس دعوت کے مزاج کی حقیقی رعایت ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے اور احقاق حق کے لیے یہی دو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کام سے تمام و کمال اتفاق کے باوجود ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ دین کو برپا کرنے کے لیے جس صحبت کامل، جس سیرت سازی اور جس نظر کیمیا کے اعلیٰ اوصاف رسول اللہﷺ میں موجود تھے، وہ کوئی پھر کہاں سے لاسکتا ہے۔ حضورﷺ کی عظیم ترین شخصیت، پھر الہام و وحی سے ہر ہرگام پر رہنمائی، پھر استفادہ و استفاضہ کرنے والے قلوب کی غایت توجہ و اشتیاق نے جماعت صحابہ کے ایک ایک فرد میں یقین کی وہ آگ اور خلوص کا وہ لازوال جذبہ پیدا کردیا تھا کہ ان کی زندگی کے ہر ہر جزو سے ان کی دعوت اور ان کے مقصد کا عشق ٹپکا پڑا تھا۔ آج جب کہ نہ وہ پاکیزہ صحبت، نہ وہ بے خطا قیادت اور نہ مخاطبین میں وہ اہلیت و کیفیت ایسی حالت میں مخلص مجاہدین کی وہ جماعت برپا ہوسکے گی؟ اس کا تصور بھی دشوار ہے۔

نمائش فقر کا مطالبہ

سوال: آپ حضرات موجودہ برسرِ اقتدار طبقہ اور امراء پر سخت تنقید کرتے ہیں اس بنا پر کہ وہ زبان سے ’’اسلام اسلام‘‘ پکارتے ہیں، عوام اور غرباء کی ہمدردی کا راگ الاپتے ہیں مگر ان کے اعمال ان کے اقوال سے سراسر مختلف ہیں لہٰذا خود آپ حضرات کے لیے تو اشد ضروری ہے کہ (جبکہ آپ ایک اسلامی سوسائٹی برپا کرنے کے لیے جدوجہد کررہے ہیں) آپ کے اقوال و افعال میں کامل یکسانیت ہو ورنہ آپ کی تنقید موجودہ امراء اور برسر اقتدار طبقہ پر بے معنی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ اسلام اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنی جائز کمائی سے اپنے آرام و آسائش کے سامان مہیا کریں، اچھی غذائیں کھائیں، مگر کیا ایک ایسی سوسائٹی میں جہاں ہر طرف بھوک اور افلاس ہو، غریبی اور بے چارگی ہو، خصوصاً ایک داعی کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اچھے ملبوسات استعمال کرے، عمدہ غذائیں کھائے اور ایک پرتکلف زندگی گزارے؟ کیا رسول اللہﷺ اور آپؐ کے صحابہؓ کی یہی روش تھی جبکہ وہ اسلامی تحریک کو پھیلانے میں مصروف تھے؟ آپ کے بعض ارکان کی ایک حد تک متعیشانہ (Luxurious) طرز زندگی کو دیکھ کر میرے اندر یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ براہِ کرم اس ذہنی خلجان کو دور کریں۔

رکنیت جماعت اسلامی کی ایک درخواست پر فیصلہ

سوال: ایک مقامی جماعت اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں

’’… ایک صاحب عرصہ سے سرگرمی سے کام کررہے ہیں، رکنیت کے اہل ہیں، عرصہ سے ان کی درخواست پڑی ہے… ان کی ذاتی زندگی شریعت کے مطابق ہے۔ مگر دکان کے حسابات اصلی پیش نہیں کرتے… کیونکہ انکم ٹیکس والے نفع کی فیصدی اتنی زیادہ لگاتے ہیں اگر اصل بکری دی جائے تو ساری آمدنی ٹیکس میں چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی چیز قابل اعتراض نہیں ہے۔‘‘ اس پر حلقے کی جماعت اسلامی کے امیر رپورٹ کرتے ہیں:

اسلام سے توبہ

سوال: مجھے آپ کی تحریک سے ذاتی طور پر نقصان پہنچ رہا ہے۔ میری ایک بہن آپ کی جماعت میں شامل ہوگئی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کی جون بدل گئی ہے ہر وقت نماز، تسبیح، وعظ اور نصیحت سے کام ہے، گھر کے افراد کو زبردستی آپ کا ترجمہ قرآن سناتی ہے۔ اگرچہ تعلیم یافتہ ہے لیکن خیالات کے اعتبار سے وہ موجودہ زمانہ کی لڑکی نہیں رہی۔ لباس سادہ اور سفید پہنتی ہے جس دن دل چاہے روزہ رکھ لیتی ہے۔ میں اس کے اس طرز عمل سے نہایت پریشان ہوں۔ رشتہ داروں میں جو سنتا ہے وہ اس کے لیے رشتہ پر آمادہ نہیں ہوتا کہ رات دن وعظ کون سنے۔ پرسوں میری خالہ آئی تھیں، ان کو بھی یہ نصیحت کرنے لگیں۔ چند کتابیں اور ایک کیلنڈر آپ کے ہاں کا انہیں دے دیا۔ کل اتوار تھا ہم لوگ سیر کے لیے گئے۔ اس سے بہت کہا مگر یہ نہیں گئی۔ بالکل ولیوں کی سی زندگی بسر کرنے کے لیے اس ماحول میں آخر کس طرح گنجائش پیدا کی جائے۔ نہ تو اس کی شادی اس طرح ہوسکتی ہے اور نہ اس کے خیالات بدلنا میرے یا کسی کے بس میں ہے۔ اگر اس سے کچھ کہا جائے تو رنجیدہ ہوجاتی ہے۔ بتائیے میں کیا کروں؟