قرار داد مقاصد کی تشریح

سوال: مجلس دستور ساز پاکستان کی منظور کردہ قرار داد مقاصد متعلقہ پاکستان میں ایک شق حسب ذیل ہے:

’’جس کی رو سے مسلمانوں کو اس قابل بنایا جائے کہ وہ انفرادی اور اجتماعی طور پر زندگی کو اسلامی تعلیمات و مقتضیات کے مطابق جو قرآن اور سنت رسول میں متعین ہیں، ترتیب دے سکیں‘‘۔

اس کا م کا اصل تعلق تو دراصل حکومت کے انتظامی امور ہیں، کہ وہ اس کے لیے کیا کیا اقدام کرتی ہے۔ قانونی طور پر حکومت کو مجبور کرنے نیز اس سلسلے میں غفلت یا عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں دستور میں کیا کیا (Provisions) ہونی چاہئیں کہ یہ مقصد بروئے کار آجائے؟ نیز دستوری طور پر حکومت کو اس سلسلے میں غفلت برتنے، عدم تعاون یا معاندانہ رویہ اختیار کرنے کی صورت میں کس طرح روکا جاسکے؟ اور ایک شہری کو حکومت کے خلاف عدلیہ کے سامنے اس بات کو لانے کے لیے کیا کیا تدابیر ہونی چاہئیں؟

تدوینِ قانون میں اکثریت کے مسلک کا لحاظ

سوال: آپ نے غالباً کہیں لکھا ہے یا کہا ہے کہ ملک میں فقہی مسلک کے لحاظ سے جن لوگوں کی اکثریت ہو، قوانین انہی کے فیصلوں کے مطابق بنائے جائیں گے اور قلیل گروہ (مثلاً پاکستان میں احناف کے بالمقابل شافعیہ، اہل حدیث اور شیعہ وغیرہ) کے لیے پرسنل لاء کی گنجائش رکھی جائے گی۔ اگر آپ کا خیال یہی ہے تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اکثریت اپنے مخصوص مسلک کے آئینہ دار قوانین بنانے کی مجاز ہوگی جو آئمہ مجتہدین کے مجتہدات پر مبنی ہوں گے، یا آپ کی مراد یہ ہے کہ اکثریت سابق مفروضات کی بجائے محض کتاب و سنت کا بے آمیز مطالعہ کرے گی اور جن نتائج پر پہنچے گی، انہی کو قانونی جواز حاصل ہوگا؟ پہلی صورت میں قوانین کا ماخذ کتاب و سنت کی بجائے فقہائے کرام کی کتب متداولہ ہوں گی۔ لیکن یہ طریق شاید اسلامی حکومت کے مزاج کے منافی ہو۔ دوسری صورت میں ان قوانین کا ماخذ کتاب و سنت ہی ٹھہرے گا۔ لیکن اسکی کیا ضمانت ہے کہ مخصوص تفقہ کی حامل اکثریت خصوصی ڈگر کو چھوڑ کر کتاب وسنت کا مطالعہ کرے گی اور اس میں موروثی فکر و نظر اور مسلکی عصبیت و حمیت دخیل نہ ہوگی۔ اس تشویش کے اظہار سے میری غرض یہ نہیں ہے کہ فقہائے مجتہدین کے افکار عالیہ سے استفادہ نہ کیا جائے۔ صرف چند الجھنیں جو ذہن میں پیدا ہوئی ہیں، ان کا حل مطلوب ہے۔

کیا عربی پاکستان کی قومی و سرکاری زبان بن سکتی ہے؟

سوال: ایک صاحب کا انگریزی مضمون ارسال خدمت ہے جو اگرچہ مسلم لیگ کے حلقے میں ہیں لیکن اسلامی حکومت کے لیے آواز اٹھاتے رہتے ہیں اور دل سے چاہتے ہیں کہ اسلام کی منشاء کے مطابق تبدیلی آئے۔ فی الحال یہ ایک خاص مسئلہ پر متوجہ ہیں۔ یعنی اپنی پوری کوشش اس بات پر صرف کررہے ہیں کہ پاکستان کی سرکاری زبان بروئے دستور عربی قرار پائے۔ ان کے دلائل کا جائزہ لے کر اپنی رائے سے مطلع فرمائیں۔

دعویٰ مہدویت کا بہتان

سوال: مجھے مولانا صاحب ناظم مدرسہ عربیہ… سے جماعتِ اسلامی کے موضوع پر تبادلہ خیال کا موقع ملا۔ انہوں نے آپ پر مہدی بننے کا الزام لگایا اور اپنی ملاقات کا تذکرہ فرمایا۔ حاضرین کے دلوں پر کئی قسم کے توہمات غالب آئے۔ کیا جناب نے ظہور مہدی علیہ السلام کی علامات اپنی ذات سے منسوب فرمائیں اور ان کے اصرار پر تحریری انکار یا اقرار سے پہلو تہی فرمائی؟ مہربانی فرما کر بذریعہ اخبار میرے استفسار کا جواب باصواب عطا فرمائیں؟

چند اور موشگافیاں

سوال: خدا کے دین کی اشاعت کا جو کام اپنی توفیق کے مطابق ہم لوگ سر انجام دے رہے ہیں، اس کے پھیلنے میں آپ کی بعض کتابیں مثلاً دینیات، خطبات وغیرہ بہت مدد دے رہی ہیں اور ان کی مانگ روز بروز بڑھ رہی ہے۔ لیکن دوسری طرف مخالفین کرام کا خاص ہدف بھی بنی ہوئی ہیں۔ ان کی بعض عبارات کو چھانٹ چھانٹ کر غلط فہمی پھیلانے اور ہمیں بدنام کرنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں تک کہ دنیا پرست مفتیان کرام ان عبارات کی بنیاد پر ہمارے خلاف فتوائے کفر تک جاری کرچکے ہیں۔ ان حالات میں گفتگوؤں کا محور تمام تر آپ کی چند خاص عبارات بن گئی ہیں۔ یہ عبارات حسب ذیل ہیں:

جماعتِ اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی مہم

سوال: میں اپنے قصبہ … میں جماعتِ اسلامی کی طرف سے کام کر رہا ہوں۔ چند اور رفیق بھی میرے ساتھ ہیں۔ انفرادی مخالفت پہلے بھی تھی جس کی رپورٹ میں اپنی جماعت کے مرکز کو بھیجتا رہا ہوں لیکن اب ایک معاملہ ایسا پیش آگیا ہے کہ آپ سے استفسار کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔

پرسوں سے ایک مولانا صاحب جن کا نام … ہے یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور انہوں نے قصبہ میں اپنے خاص اشتہارات (ایک نقل منسلک ہے) کافی تعداد میں تقسیم کروائے ہیں۔ پھر شام کو ایک بہت بڑے مجمع میں تقریر کرکے جماعتِ اسلامی کے خلاف بہت زہر اگلا ہے۔ میں چند باتیں ان کی نقل کرکے ملتمس ہوں کہ ضروری تصریحات سے جلد از جلد میری رہنمائی فرمائی جائے۔

مزید عنایات

سوال: جماعتِ اسلامی کے تحت قائم شدہ حلقہ ہمدرداں تو ہمارے علاقے میں پہلے سے تھا، لیکن باقاعدہ جماعتی کام حال ہی میں شروع ہوا ہے۔ عوام کا رجحان جماعت کی طرف کثرت کے ساتھ دیکھ کر علمائے دیو بند، سہارن پور، دہلی اور تھانہ بھون نے جو فتاویٰ شائع کیے ہیں، وہ ارسال خدمت ہیں اور علمائے دیو بند کا ایک فتویٰ جو کہ ابھی زیر کتابت ہے، مفصل کتابی شکل میں آنے والا ہے، آنے پر ارسال کردیا جائے گا۔

ان فتوؤں کے جواب میں سکوت مناسب نہیں ہے۔ غور کرکے جواب دیجیے یہ بھی تحریر فرما دیجیے کہ اب آپ کا تعلق ہندوستان کی جماعتِ اسلامی سے کیا ہے؟ کچھ تعلق ہے یا نہیں؟ مولانا ابوللیث اصلاحی جو کہ ہندوستان کی جماعت کے امیر ہیں، حقیقت میں امیر ہیں یا صرف خانہ پری کے لیے فرضی ہیں؟ نیز یہ کہ اگر آپ نے کسی عالم سے فیض حاصل کیا ہو تو ان کے نام ضرور تحریر فرمائیں اور اگر کوئی اور وجوہ آپ کو ان کے فتوؤں کے بارے میں معلوم ہوں تو وہ بھی تحریر کریں کہ اس قدر شدت کے ساتھ یہ طوفان کیوں اٹھ رہا ہے؟

تشخیص مریض

سوال:عنایت نامہ مایوسی کی حالت میں پہنچا۔ اس نے میرے قلب و دماغ پر جو اثر کیا وہ دائرہ تحریر سے باہر ہے۔ میں نے جو خیالات ظاہر کیے ہیں، ان کو لے کر میں ہر جماعت میں داخل ہوا لیکن ہر جگہ سے بد دل ہو کر لوٹا اور آخر کار فیصلہ کرلیا کہ اب کسی جماعت میں دخل نہ دوں گا بلکہ انفرادی حیثیت سے جو کچھ خدمت دین ممکن ہوگی، انجام دوں گا۔ اسی خیال کے تحت محلے کی مسجد میں بعد نماز فجر تفسیر حقانی اور بعد نماز عشاء رحمتہ للعالمین مولفہ قاضی سلمان منصور پوری یکم اکتوبر ۱۹۴۹ء سے سنانی شروع کی۔ میرے خیالات اس کام سے اور پختہ ہوگئے۔ ستمبر ۵۱ء میں اتفاقیہ ایک شخص کے ذریعے مجھے ’’سیاسی کشمکش‘‘ کا تیسرا حصہ مل گیا۔ میں نے اس کو کئی مرتبہ پڑھا، میرے خیالات کی دنیا نے پلٹا کھایا اور اب میں جماعتِ اسلامی کی طرف متوجہ ہوگیا ۔ لٹریچر کا خوب اچھی طرح مطالعہ کیا اور پھر مسجد میں خطبات سنانے کا سلسلہ شروع کیا۔ اس کو شروع کرنے کے بعد وہ فتنہ پھوٹا جس کا ذکر پہلے کرچکا ہوں۔

ایک ہمدرد بزرگ کا مشورہ

سوال: اقامت دین کی تحریک حسب معمول قدیم نئے فتنوں سے دو چار ہو رہی ہے۔ فتویٰ بازی اور الزام تراشی جس طبقہ کا مخصوص شعار تھا، وہ تو اپنا ترکش خالی کرکے ناکام ہوچکا ہے۔ اب اصحاب غرض نے ہمارے سلسلہ دیو بند کو بھی اس مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کیا ہے۔ ممکن ہے کہ وہاں کی جماعتِ اسلامی نے کچھ تنقید و تبلیغ میں بے اعتدالی سے کام لیا ہو اور اس کا رد عمل ہو۔ وہاں کے استفتاء کے جواب میں بھی اور یہاں پاکستان کے استفتاؤں کے جواب میں بھی مستند و محتاط حضرات کے فتویٰ شائع ہونے شروع ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں اہل علم کا بہت زیادہ طبقہ دیو بند سے وابستہ ہے اور وہاں کے فتوے سے اثر پذیر ہونا بھی لازمی ہے جس کا اثر بد تحریک پر بھی پڑسکتا ہے۔ لہٰذا آپ ضرور مناسب طریقے سے اس کی مدافعت کیجیے۔ ۳۲ صفحے کا ایک فتوی دارالافتاء سہارن پور کا شائع ہوا ہے جس کے آخر میں مولانا مفتی مہدی حسن صاحب شاہجہان پوری اور مولانا اعزاز علی صاحب کا فتویٰ بھی ہے رسالہ دارالعلوم کا جو پہلا نمبر نکلا ہے اس میں حضرت مولانا گنگوہی کے پوتے حکیم محمود صاحب کا ایک طویل مکتوب ہے۔ اگرچہ انہوں نے نہایت محتاط طریقے سے اور متانت کے رنگ میں لکھا ہے اور میرے خیال میں انداز تعبیر نہایت سنجیدہ ہے۔ لیکن بہرحال انہوں نے بھی تحریک کو عوام کے لیے دینی لحاظ سے مضر بتایا ہے۔ اثر انگیز ہونے کے لحاظ سے جوشیلے اور غیر معتدلانہ فتوؤں سے یہ زیادہ برا ہوتا ہے۔ کل مجھے بٹالہ کے ایک بزرگ کو ضلع … سے خط آیا ہے جن کا حضرت گنگوہی سے تعلق تھا اور اس کے بعد دوسرے تمام بزرگان دیو بند سے تعلق رہا ہے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ ’’ابھی مجھے حضرت … کا خط سہارن پور سے آیا ہے اور انہوں نے تحقیق حال کے طور پر پوچھا ہے کہ ایک واقعہ مجھے صحیح طور پر معلوم کرکے لکھو۔ پاکستان سے برابر خط آرہے ہیں کہ مولانا مودودی، حضرت مولانا گنگوہی اور حضرت مولانا نانوتوی کا نام لے لے کر ان کی مخالفت میں تقریریں کرتا رہا ہے اور کہتا پھرتا ہے کہ ان لوگوں کو دین کے ساتھ مناسبت ہی نہ تھی اور خاص طور پر سرگودھا کی تقریروں کا حوالہ دیا ہے کہ وہاں نام لے کر یہ مخالفت کی گئی ‘‘۔ بٹالو بزرگ نے مجھ سے پوچھا ہے کہ صحیح واقعہ کیا ہے۔ میں نے انہیں جواب دے کر تردید کردی ہے کہ یہ محض افترا ہے اور خود سہارن پور بھی حضرت … کو خط لکھ دیا ہے۔ تاہم آپ خود بھی ان الزامات کی تردید کریں۔ جواب در جواب کا سلسلہ بھی غلط ہے اور سکوت محض سے بھی لوگوں کے شبہات قوی ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اصل مقصد یعنی تحریک اقامت دین کو نقصان پہنچتا ہے۔ علی الخصوص حضرت مولانا حسین احمد مدنی صاحب، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب، حضرت مولانا محمد طیب صاحب، حضرت مولانا مفتی کفایت اللہ صاحب، حضرت مولانا حفیظ الرحمٰن صاحب، حضرت مولانا احمد سعید صاحب، حضرت مولانا محمد ذکریا صاحب، حضرت مولانا حافظ عبد اللطیف صاحب سے خط و کتابت کرکے انہیں مشورہ دیں کہ اگر میرے متعلق یا جماعت کے متعلق کوئی استفتاء آپ کے سامنے آئے تو جواب دینے سے پہلے مجھ سے اصل حقیقت معلوم کرلیا کریں۔