اقامت دین کے لیے کس قسم کا تزکیہ درکا ر ہے؟

سوال: اقامت دین کی دعوت جس فکر اور جس انداز میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو پیش کرنے کی توفیق عطا فرمائی ہے، اس میں کوئی صاحب ایمان جو سمع و بصر اور شعور کی دولت سے بہرہ ور ہو، اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اس اسلوب میں حاضر کے تقاضوں کا پورا لحاظ اور اس دعوت کے مزاج کی حقیقی رعایت ملحوظ خاطر رکھی گئی ہے اور احقاق حق کے لیے یہی دو چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔ لیکن اس کام سے تمام و کمال اتفاق کے باوجود ذہن میں یہ سوال بار بار ابھرتا ہے کہ دین کو برپا کرنے کے لیے جس صحبت کامل، جس سیرت سازی اور جس نظر کیمیا کے اعلیٰ اوصاف رسول اللہﷺ میں موجود تھے، وہ کوئی پھر کہاں سے لاسکتا ہے۔ حضورﷺ کی عظیم ترین شخصیت، پھر الہام و وحی سے ہر ہرگام پر رہنمائی، پھر استفادہ و استفاضہ کرنے والے قلوب کی غایت توجہ و اشتیاق نے جماعت صحابہ کے ایک ایک فرد میں یقین کی وہ آگ اور خلوص کا وہ لازوال جذبہ پیدا کردیا تھا کہ ان کی زندگی کے ہر ہر جزو سے ان کی دعوت اور ان کے مقصد کا عشق ٹپکا پڑا تھا۔ آج جب کہ نہ وہ پاکیزہ صحبت، نہ وہ بے خطا قیادت اور نہ مخاطبین میں وہ اہلیت و کیفیت ایسی حالت میں مخلص مجاہدین کی وہ جماعت برپا ہوسکے گی؟ اس کا تصور بھی دشوار ہے۔

اس کام کی فرضیت سے مجھے انکار نہیں۔ اسی احساس کی بنا پر اسے کربھی رہا ہوں۔ لیکن کیا اس کے نتائج بھی اسی طرح کے ہوں گے؟ یہ بات میر ے لیے بڑی تشویش کی موجب بن جاتی ہے۔ سوچتا ہوں کہ اس کے لیے ویسے ظروف و احوال والی شخصیتیں کہاں ہیں؟ ویسی قیادت کے اوصاف کسی میں نہ ویسی اطاعت کی صلاحیتیں۔ اقامت دین کا کام کرنے والوں سے کچھ وعدے تو ضرور ہیں مگر ان کا بھی ایک معیار مقرر ہے۔ ایک خاص درجہ کا ایمان و ایقان اور خلوص۔ اپنے مقصد سے عشق اور اس کی تربیت کے لیے ویسی ہی ایک صحبت بھی درکار ہے۔ اگر یہ سب چیزیں مہیا نہ ہوئیں تو چاہے قرآن مجید کے سیاسی نظریے پر ایک گروہ منظم ہوجائے مگر اسلام کی وہ اخلاقی اور روحانی اسپرٹ رکھنے والا گروہ پیدا نہ ہوسکے گا جو اس کے نظام حیات کی صحیح نمائندگی کرسکتا ہو اور جس کے لیے نصرت اور تمکن کے وعدوں کے ساتھ ’’خیر امت‘‘ اور ’’خلفاء اللہ فی الارض‘‘ کے خطابات استعمال کیے گئے ہیں۔

چنانچہ تحریک اسلامی کا کام اگرچہ جاری ہے اور اس کے افراد میں بہت کچھ تبدیلیاں بھی ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں۔ مگر جس ایمان کامل کی گرمی، جس زندہ یقین کے مظاہر اور جس خلوص مقصد کی تاثیر صحابہؓ میں ایمان لانے کے بعد ہی محسوس ہونے لگتی تھی وہ مجھے اپنے یہاں بلحاظ مراتب اور ایک مدت کے بعد بھی دکھائی نہیں دیتی، الاماشاء اللہ اس کی وجہ صحیح تربیت اور پاکیزہ صحبت کی کمی ہے یا اس کام کے معیار کے مطابق ویسے مربی اور مزکی نفوس عالیہ کا فقدان۔ بہرحال جو بھی وجہ ہو،مذکورہ اشکال یا اشتباہ کو اس سے تقویت ہوتی ہے۔

ایک دوسری بات میرے لیے باعث خلجان یہ بھی ہے کہ اس دور کی ایک دوسری دینی تحریک جو اتفاق سے اس دور کا نظروفکر نہیں رکھتی، بعض ایسے افراد کو ضرور سامنے لائی ہے جن سے قلب کسی نہ کسی درجہ میں متاثرہوجاتا ہے۔ یہ الجھن میرے لیے حل طلب ہے کہ جو کام ٹھیک ٹھیک معیار پر جاری ہے، اس میں تو وہ روح نہیں ابھری اور ایک محدود سی تحریک میں اس کے کچھ آثار نظر آتے ہیں۔

ممکن ہے یہ کمی ذکر اللہ کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہو، جس ذکر کی تلقین احادیث میں آئی ہے۔ تاہم اس کا کوئی قابل اطمینان حل تلاش نہیں کرسکا۔ اس لیے جناب کو تکلیف دے رہا ہوں۔ دل میں اس دعوت کا یقین کیسے پیدا ہو اور اس پر ایمان کیسے زندہ ہو؟ اس کی تدبیراب تک سمجھ میں نہیں آئی۔ گر مذکورہ امور کی کوئی اہمیت محسوس فرمائیں تو تفصیل کے ساتھ جواب رقم فرمائیں۔

جواب: یہ خلخان جس کا ہمارے محترم رفیق نے اظہار فرمایا ہے، اس سے وقتاً فوقتاً ہمیں سابقہ پیش آتا رہتا ہے اور متعدد مواقع پر اس کو رفع کرنے کی کوشش کی جاچکی ہے۔ آپ رسائل و مسائل جلد اول (صفحہ ۴۶۹ تا صفحہ ۴۷۷) میں اس کا ایک مختصر جواب پاسکتے ہیں۔ تفہیم القرآن کے مقدمہ میں بھی ’’قرآنی سلوک‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے اس کے بعض پہلوؤں سے بحث کی گئی ہے۔ ترجمان القرآن میں پچھلے دنوں جو اشارات نکلتے رہے ہیں، ان میں بھی اس کے بعض گوشوں سے تعرض کیا گیا ہے۔ یہ چیزیں اگر کوئی بغور پڑھے تو امید ہے کہ بڑی حد تک اس کی تشفی ہوجائے گی۔

لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ خلجان پوری طرح رفع نہیں ہوسکتا جب تک آدمی اس کی تشخیص اور اس کا علاج باقاعدگی کے ساتھ نہ کرے۔ پہلے اس کا سرا تلاش کیجیے کہ یہ شروع کہاں سے ہوتا ہے۔

غالباً اس کی ابتداء اس مقام سے ہوتی ہے آپ ’’اقامت دین‘‘ کا جب تصور کرتے ہیں تو معاً آپ کے سامنے دور نبوت اپنی ساری تابناکیوں کے ساتھ آجاتا ہے اور اس خیال سے آپ کا دل بیٹھنے لگتا ہے کہ وہ عظیم رہنما محمدﷺ اور وہ بینظیر کارکن آج کہاں ہیں جن کے ہاتھوں یہ کام اس وقت ہوا تھا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ تھوڑی دیر کے لیے آپ اسی ابتدائی مقام پر پھر واپس پہنچ جائیے اور کسی دوسرے سوال پر غور کرنے یا آگے بڑھنے سے پہلے اپنے دل کا جائزہ لے کر تحقیق کیجیے کہ یہ سوال آپ کے دل میں ابھرتا ہے تو اس کے ساتھ کس قسم کے رجحانات آپ کے نفس کو اپنی طرف کھینچنا شروع کرتے ہیں؟ آپ گہرا جائزہ لیں گے تو نمایاں طور پر دو رجحانات کی کشش آپ کو خود محسوس ہوگی۔

ایک یہ کہ مایوس ہوجاؤ۔ اب نہ وہ رہنما اور کارکن میسر آئیں گے۔ نہ یہ کام ہوسکے گا۔ اس لیے بہتر ہے کہ پورے دین کی اقامت کا تصور ہی چھوڑدو۔ جو کام ہو نہیں سکتا، اس کے پیچھے پڑنے سے کیا حاصل، دین کی جزوی خدمت میں سے کوئی ایک خدمت اپنے ہاتھ میں لے لو اور جیسی کچھ بری بھلی بن آئے، کرتے رہو۔ میں اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات کی بنا پر کہتا ہوں کہ یہ اولین رجحان ہے جو اس مقام پر آدمی کے سامنے آتا ہے اور میں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ یہ پہلا دھوکہ ہے جو شیطان ایک نیک نفس مسلمان کو دیتا ہے تاکہ وہ اقامت دین کے نصب العین سے کسی طرح باز آجائے۔ اس لیے آگے کوئی بات سوچنے سے پہلے آپ کو چاہیے کہ اس فریب کو اول قدم پر ہی پہچان لیں اور اگر آپ نیک نیت ہیں تو پورے شعور سے اور عزم کے ساتھ اپنے ذہن میں پہلے اس کا اچھی طرح قلع قمع کردیں۔

دوسرا رجحان جو اس کے بعد سامنے آتا ہے۔ یہ ہے کہ یہ کام ہے تو بے شک ضروری اور فرض، مگر اس کے لیے رہنماؤں اور کارکنوں میں وہی روحانی و اخلاقی اوصاف درکار ہیں جن کی بدولت عہد نبوی میں یہ کام ہوا تھا، لہٰذا پہلے ویسے بن جاؤ اور اس طرز کے آدمی بنالو، پھر اس کام میں لگو… یہ دوسرا دھوکہ ہے جو پہلے دھوکے سے بچ نکلنے والے کو شیطان رجیم دیا کرتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ یہ شخص اس نصب العین پرجم گیا ہے اور اس سے ہٹنے پر کسی طرح راضی نہیں ہوتا تو پھر وہ اس کو فکر کی بجائے تدبیر کی ایک غلط راہ پر ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے کہ بے شک دریا پار جس منزل مقصود کی طرف تو جانا چاہتا ہے۔ وہ ہے تو منزل مقصود، مگر بے وقوف، تیرناسیکھے بغیر دریا میں اترے گا؟ پہلے دریا سے باہر خشکی پر تیرنے کی مشق اچھی طرح کرلے، پھر دریا میں قدم رکھ، اس طرح وہ ناصح مشفق بن کر، آدمی کو واقعی بے وقوف بنادیتا ہے اور جو لوگ اس کے داؤں سے مات کھا جاتے ہیں وہ سب نہ صرف خود خشکی پر تیراکی کی مشق شروع کردیتے ہیں بلکہ جن جن لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں، ان کو بھی خشکی کا تیراک بنانے میں خوب مہارت فن دکھاتے ہیں۔ مگر اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان ماہرین فن کو اکثر تو عمر بھر دریا میں اترنے کی ہمت نہیں ہوتی اور اگر کبھی اتر جاتے ہیں تو زمین پاؤں تلے سے نکلتے ہی یا غرق ہوجاتے ہیں یا دریا کے بہاؤ پر بہہ نکلتے ہیں۔ کیوں کہ دریا سے باہر خشکی پر تراکی میں جو کمال پیدا کیا جاتا ہے، وہ دریا کی روانی سے پہلا سابقہ پڑتے ہی کالعدم ہوجاتا ہے۔

اس کی مثال تلاش کرنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں۔ اپنے ہی ملک کے ان علما کا حشر دیکھ لیجیے جنہوں نے درس حدیث و فقہ کی مسندوں اور تزکیہ نفس کے زاویوں سے نکل کر ملکی سیاحت کے بحر مواج میں چھلانگ لگائی تھی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان نفوس قدسیہ کی برکت سے دریا کی رفتار کا رخ بدل جاتا اور اس کی گندگیاں دور ہوجاتیں مگر ہوا یہ کہ وہ خود اس کی گندگیوں میں لت پت ہوگئے اور دریا کا رخ موڑنے کی بجائے خود اس کے رخ پر مڑ گئے۔ آپ ان بزرگوں کی فہرست پر نگاہ ڈالیں۔ اس میں کیسے نامور استادان فن سیاحت شریک ہیں۔ مگر اس مشاہدے کو اب کون آنکھوں والا جھٹلا سکتا ہے کہ یہ سارے ہی استاد اپنے مایہ ناز شاگردوں اور خلیفوں سمیت یا تو غرق ہوئے یا بہہ گئے۔

میں چاہتا ہوں کہ آپ شیطان کے اس دھوکے کو بھی اچھی طرح پہچان لیں اوراگر واقعی خدا کی راہ میں کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اپنے دل کو اس کی ہر کھٹک سے صاف کیے بغیر ایک قدم بھی آگے نہ بڑھیں، ورنہ راستے میں ہر قدم پر یہ آپ کے اندر بھی کمزوری پیدا کرتا رہے گا اور آپ کے توسط سے دوسرے بہت سے ساتھیوں تک بھی اس کا اثر متعدی ہوگا۔

ان دونوں رجحانات کی غلطی کو اگر آدمی آغاز ہی میں محسوس کرلے تو وہ اس طریق تزکیہ و تربیت کو آپ سے آپ ترجیح دے گا جسے ہم نے ترجیح دی ہے۔ لیکن اس راہ پر چند قدم چلتے ہی یکے بعد دیگرے کچھ دوراہے ایسے آتے ہیں جن میں سے ہر ایک پر پہنچ کر آدمی کا دل چاہتا ہے کہ دائیں یا بائیں مڑ جائے اور اگر وہ نہ مڑے تب بھی آگے چلتے ہوئے بار بار اس کے دل میں ایک کھٹک محسوس ہوتی ہے کہ وہ ان میں سے کسی موڑ پر کیوں نہ مڑ گیا، بلکہ بسا اوقات یہاں تک جی چاہنے لگتا ہے کہ پلٹے اور انہی میں سے کسی موڑ کی طرف مڑ جائے۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ ذرا اپنے ذہن میں اپنا سفر آغاز سے شروع کردیں اور ان میں سے ہر ایک موڑ کی کشش محسوس کرکے ذرا اس کا جائزہ لے کر دیکھیں کہ ادھر کیا ہے اور کیا چیز اس کی طرف مائل کرتی ہے۔

ایک موڑ آتا ہے جہاں آدمی کے دل میں بار بار یہ خیال چٹکیاں لیتا ہے کہ ا س کام کے لیے بہر حال تزکیہ نفس ضروری ہے اور تزکیہ نفس کے وہ طریقے جو مکے اور مدینے میں اختیار کیے گئے تھے، کچھ واضح اور منضبط نہیں ہیں اور بعد کے ادوار میں جن بزرگوں نے ان طریقوں کو منضبط کیا، وہ صوفیائے کرام ہیں، اور ظاہر ہے کہ وہ سب بزرگان دین ہی ہیں، لہٰذا اس کام کے لیے جو تزکیہ مطلوب ہے، اس کو حاصل کرنے کے لیے تصوف کے معروف طریقوں میں سے کسی کو اختیار کرنا ناگزیر ہے۔ نئے طرز کے لوگوں میں تو شاید کم ہوں گے مگر مذہبی خانوادوں میں جن لوگوں نے آنکھیں کھولی ہیں، ان سب کو اس موڑ کی کشش کم و بیش متاثر کرتی ہے۔ میں ان تمام لوگوں سے جو اس کشش کو محسوس کرتے ہیں، عرض کرتا ہوں کہ براہ کرم اس مقام پر ٹھہر کر خوب اچھی طرح غور و تحقیق کریں اور ذرا بے لاگ طریقے سے کریں۔ کیا واقعی کہیں صوفیانہ لٹریچر میں اس بات کا ثبوت ملتا ہے کہ اقامت دین اپنے وسیع و جامع تصور کے ساتھ ان بزرگوں کے پیش نظر تھی، جن سے یہ صوفیانہ طریقے ماثور ہیں؟ کیا کہیں اس بات کا پتہ اور نشان ملتا ہے کہ اسی مقصد کے لیے کارکن تیار کرنے کی غرض سے انہوں نے ان طریقوں کو اختیار کیا تھا؟ کیا ان طریقوں سے تیار کیے ہوئے آدمیوں نے کبھی یہ کام کیا ہے؟ اور کیا ہے تو یہ طریقے اس کام میں مفید ثابت ہوئے ہیں؟

پھر قطع نظر اس سے کہ صدر اوّل کا طریقہ تزکیہ نفس منضبط ہے یا نہیں، ہمیں قرآن اور سیرت محمد ﷺ میں اس کے جو اصول اور عملی جزئیات ملتے ہیں، ان کا مقابلہ بعد کے صوفیانہ طریقوں سے کرکے آپ خود دیکھیں، کیا ان دونوں میں نمایاں فرق نہیں پایا جاتا؟ اس بحث میں نہ پڑئے کہ صوفیانہ طریقوں میں جو مختلف چیزیں پائی جاتی ہیں، وہ مباحات کے قبیل سے ہیں یا محظورات کے قبیل سے۔ بحث صرف یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں اخلاقی و روحانی علاج کے لیے جو نسخہ تجویز کیا گیا تھا، آیا صوفیاء نے اسی نسخے کو جوں کا توں استعمال کیا؟ یا اس نسخے کے بعض اجزا کو کم بعض اجزا کو زیادہ اور بعض نئے اجزا کا اس میں اضافہ کردیا؟ پہلی صورت کا تو شاید آج تصوف کا کوئی بڑے سے بڑا وکیل بھی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ لامحالہ دوسری صورت ہی ماننا پڑے گی اور وہی واقعۃً موجود بھی ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اجزا کی مقداروں میں کمی و بیشی اور نئے اجزا کے اضافہ سے نسخے کا مزاج بدلا ہے یا نہیں؟ اگر بدل گیا ہے تو یہ اس مقصد کے لیے کیسے مفید ہوسکتاہے جس کے لیے حکیم مطلق اور اس کے بلاواسطہ شاگرد ﷺ نے اپنا نسخے مرتب کیا تھا؟ اور کوئی کہتا ہے کہ ان مختلف ترمیمات اور اضافوں کے باوجود نسخے کامزاج نہیں بدلا ہے تو میں عرض کروں گا کہ تاریخ حکمت میں یہ بالکل ہی ایک نرالاواقعہ ہے (بلکہ شاید خرق عادت ہے) کہ اجزائے نسخے میں مقادیر کی کمی بیشی اور مختلف نئے اضافوں کے باوجود نسخے کا مزاج جوں کا توں رہ گیا!

میں توقع رکھتا ہوں کہ اگر کوئی شخص حقیقت میں بے جا عقیدتوں اورموروثی تعصبات کو دخل نہ دے گا اور ٹھنڈے دل سے بے لاگ تحقیق کرے گا تو اس معاملہ میں پورا اطمینان ہوجائے گا کہ اقامت دین کے لیے ہمیں اسی طریقہ تزکیہ پر اعتماد کرنا ہوگا جو قرآن اور سیرت رسول ﷺ میں ملتا ہے۔ وہ اگر منضبط نہیں ہے تو اب اسے منضبط کرنا چاہیے۔

اس موڑ کو جو شخص پورے اطمینان کے ساتھ چھوڑ کر آگے بڑھتا ہے، اسے ذرا آگے چل کر ایک اور مقام پر حیرانی پیش آتی ہے۔ سیرت نگاروں نے عہد صحابہ ؓ کی شخصیتوں کے جومرقع کھینچے ہیں، وہ اس کی نگاہ میں گھومنے لگتے ہیں اور یہ دیکھ کر اس کا دل پھر بیٹھنے لگتا ہے کہ ان کتابی مرقعوں سے ملتی جلتی شخصیتیں تو کہیں نظر نہیں آتیں، پھر بھلا یہ کام کیسے ہوگا؟ اس مقام پر آدمی ہر طرف نظر دوڑاتا ہے کہ کہاں کوئی راستہ ملتا ہے جدھر جا کر اپنی مطلوبہ شخصیتیں پاسکوں گا اور بسا اوقات شیطان یہاں اس کو پھر مشورہ دیتا ہے کہ بس اسی جگہ سے پیچھے مڑ جاؤ، یا مایوس ہو کر یہیں بیٹھ رہو۔ اس مرحلے پر ٹھہر کر آدمی کو اچھی طرح غور کرنا چاہیے اور ٹھنڈے دل سے تحقیق کرکے ایک رائے قائم کرنی چاہیے۔ میں اپنے ذاتی تجربے کی بنا پر یہ عرض کرتا ہوں کہ یہاں جو کچھ بھی حیرانی و پریشانی آدمی کو لاحق ہوتی ہے، وہ دو حقیقتوں سے غفلت کی بنا پر ہوتی ہے۔ وہ دو حقیقتیں اگر اس کی سمجھ میں آجائیں تو قلب مطمئن ہوجاتا ہے اور آگے کا راستہ صاف نظر آنے لگتا ہے۔

پہلی حقیقت یہ ہے کہ جن شخصیتوں کے نمونے وہ تلاش کر رہا ہے، وہ شخصیتیں نہ ایک دن میں بنی تھیں، نہ آپ ہی آپ بن گئی تھیں۔ وہ بنانے سے بنی تھیں، سالہا سال میں بنی تھیں اور اگر آپ بے لاگ تحقیق سے کام لیں گے تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ گوشہائے عزلت میں نہیں بنی تھیں بلکہ قرآن و سنت کی ہدایت کے مطابق اقامت دین کی جدوجہد میں لگ جانے اور جاہلیت کے خلاف کشمکش کرنے سے ہی بتدریج بن سنور کر وہ اس مرتبے پر پہنچی تھیں جسے آپ سیرت کی کتابوں میں دیکھ دیکھ کر آج عش عش کر رہے ہیں۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ شخصیت سازی کے اس طریقے کی پیروی کرنے سے وہی نتائج حاصل نہ ہوں۔ اس درجے کے نتائج نہ سہی، اس طرز اور اس نوعیت کے نتائج یقیناً حاصل ہونے ہی چاہئیں، بشرطیکہ صبر سے کام لے کر اسی طریقے کی پیروی کی جائے اور حکمت وتفقہ کے ساتھ اس کو ٹھیک ٹھیک سمجھ کر کی جائے۔

دوسری حقیقت جس کو نہ سمجھنے سے یہ پریشانی لاحق ہوجاتی ہے یہ ہے کہ کتابی شخصیتیں واقعی شخصیتوں سے اچھی خاصی مختلف ہوتی ہیں۔ ایک گزرے ہوئے زمانے کے جو نقشے صفحہ قرطاس پر کھینچے جاتے ہیں، گوشت پوست کی دنیا میں بعینہ وہ نقشے کبھی پیدا نہیں کیے جاسکتے۔ لہٰذا جس شخص کو خیالی دنیا میں نہ رہنا ہو، بلکہ واقعی حقیقی دنیا میں کچھ کرنا ہو، اسے اس خام خیالی میں مبتلا نہ ہونا چاہیے کہ گوشت پوست کے انسان کبھی بشری کمزوریوں سے بالکل منزہ اور تمام مثالی کمالات کا مرقع بن سکیں گے۔ آپ حد کمال کو نگاہوں سے اوجھل تو نہ ہونے دیں اور اس تک خود پہنچنے کی کوشش اور دوسروں کو پہنچانے کی کوشش بھی جاری رکھیں، مگر جبکہ عملاً خدا کی راہ میں کام کرنا اور ہزارہا آدمیوں سے کام لینا ہو تو قرآن و سنت کے مطابق دین کے تقاضوں اور مطالبات کی حد اوسط آپ کو نگاہ میں رکھنی پڑے گی جس پر آپ کا اور آپ کے ساتھیوں کا قائم ہوجانا راہ خدا میں کام کرنے کے لیے کافی ہو اور جس سے نیچے گر جانا قابل برداشت نہ ہو۔ یہ حد اوسط خود ساختہ نہ ہونی چاہیے۔ اس کا ما خذ خدا کی کتاب اور اس کے رسول ﷺ کی سنت ہی ہونی چاہیے۔ لیکن بہرحال اس حد کو سمجھنا اور نگاہ میں رکھنا ضروری ہے۔ اس کے بغیر کوئی عملی کام آدمی نہیں کرسکتا۔ صدر اول میں جن لوگوں سے خدا کا کام لیا گیا تھا، وہ سب نہ تو یکساں تھے اور نہ ان میں سے کوئی بشری کمزوریوں سے مبرا تھا۔ آج بھی جن لوگوں کے ہاتھوں یہ کام ہوگا، وہ ہر طرح کی کمزوریوں سے پاک نہ ہوں گے۔ یہ خوبی نظام جماعت میں ہونی چاہیے کہ وہ مجموعی طور پر ایک صالح اور حکیمانہ نظام ہو اور اس کے اندر یہ استعداد موجود ہو کہ افراد اس میں شامل ہو کر دین حق کی زیادہ سے زیادہ خدمت انجام دیں اور ان کی کمزوریاں بروئے کار آنے کے کم سے کم مواقع پائیں۔

ان سب الجھنوں سے بچ نکلنے کے بعد پھر بھی آدمی کے دل میں یہ خلجان باقی رہ جاتا ہے کہ اپنے جن رفقاء کے ساتھ وہ اقامت دین کے لیے کام کر رہا ہے وہ معیار مطلوب سے بہت نیچے ہیں اوران کے اندر بہت سے پہلوؤں میں ابھی تک خامیاں پائی جاتی ہیں۔ اس خلجان سے میں نے اپنے کسی رفیق کو بھی خالی نہیں پایا ہے اور میں خود بھی اس سے خالی نہیں ہوں۔ لیکن میں کہتا ہوں کہ اگر یہ خلجان ہمیں اپنی اور اپنے ساتھیوں کی خامیاں دور کرنے پر اکساتا ہے، اور ان صحیح ذرائع و وسائل کی تلاش اور ان کے استعمال پر آمادہ کرتا ہے جن سے یہ خامیاں دور ہوں تو مبارک ہے یہ خلجان۔ اسے مٹنا نہیں بلکہ آگے بڑھنا چاہیے کیوں کہ ہماری ساری اخلاقی و روحانی ترقی کا انحصار اسی خلجان کی پیدا کی ہوئی خلش پر ہے۔ جس روز یہ مٹا اور ہم اپنی جگہ مطمئن ہوگئے کہ جو کچھ ہمیں بننا چاہیے تھا، ہم بن چکے ہیں، اسی روز سے ہماری ترقی بند ہوجائے گی اور ہمارا تنزل شروع ہوجائے گا، لیکن اگر یہ خلجان ہمیں مایوسی اور فرار پر آمادہ کرتا ہو تو یہ خلجان نہیں، وسوسہ شیطان ہے۔ جب بھی اس کی کھٹک محسوس ہو، لا حول ولا قوۃ الا باللہ پڑھیے اور اپنے کام میں لگ جائیے۔ اگر واقعی خدا کا کام کرنے اٹھے ہیں تو خوب سمجھ لیجیے کہ ایسے وسواس سے اپنے دل کو فارغ کیے بغیر آپ کچھ نہ کرسکیں گے۔ اس وقت شیطان کے لیے اس سے زیادہ مرغوب کوئی کام نہیں ہے کہ آپ کے سامنے جماعت اسلامی کی ہر خوبی کو بے قدر اور بے وزن کرکے پیش کرے اور اس کی یا اس کے افراد کی ہر کمزوری کو بڑھا چڑھا کر دکھائے تاکہ آپ کسی نہ کسی طرح دل چھوڑ بیٹھیں۔

(ترجمان القرآن۔ صفر ۱۳۷۱ھ ، نومبر ۱۹۵۱ء)