ختم نبوت کے خلاف قادیانیوں کی ایک اور دلیل

سوال: ’’تفہیم القرآن‘‘ (سورہ آل عمران صفحہ ۲۶۸، ع۔۹)، آیت وَإِذْ أَخَذَ اللّهُ مِيثَاقَ النَّبِيِّيْنَ …الخ کی تشریح کرتے ہوئے آپ نے حاشیہ نمبر ۶۹ یوں درج کیا ہے کہ ’’یہاں اتنی بات اور سمجھ لینی چاہئے کہ حضرت محمدؐ سے پہلے ہر نبی سے یہی عہد لیا جاتا رہا ہے اور اسی بنا پر ہر نبی نے اپنی امت کو بعد کے آنے والے نبی کی خبر دی ہے اور اس کا ساتھ دینے کی ہدایت کی ہے۔ لیکن نہ قرآن میں، نہ حدیث میں، کہیں بھی اس امر کا پتہ نہیں چلتا کہ حضرت محمدؐ سے ایسا عہد لیا گیا ہو، یا آپؐ نے اپنی امت کو کسی بعد کے آنے والے نبی کی خبر دے کر اس پر ایمان لانے کی ہدایت فرمائی ہو‘‘۔

اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف

سوال: میں نے ایک دین دار شیعہ عزیز کی وساطت سے مذہب شیعہ کی بکثرت کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ شیعہ سنی اختلافی مسائل میں سے جو اختلاف نماز کے بارے میں ہے ، وہ میرے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ میں اپنے شکوک آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ تفصیلی جواب دے کر ان کا ازالہ فرمائیں۔

میرے شبہات نماز کی ہئیت قیام سے متعلق ہیں۔ نماز اولین رکن اسلام ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑ دینے کے بارے میں آئمہ اربعہ کے مابین اختلاف ہے اور پھر افسوس اس امر کا ہے کہ ارشاد نبوی ﷺ ’’انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اللہ وعترتہ‘‘ کے باوجود آئمہ اہل سنت نے رفع اختلافات کے لیے اہل بیت کی طرف رجوع نہیں کیا، حالاں کہ امام اعظم ؒ اور امام مالک ؒ ، امام جعفر صادق ؒ کے معاصر بھی تھے۔ اس طرح رسول اللہﷺ کے گھر والوں کو چھوڑ کر دین کے سارے کام کو غیر اہل بیت پر منحصر کردیا گیا اور مسائل دین میں اہل بیت سے تمسک کرنا تو درکنار ان سے احادیث تک نہیں روایت کی گئیں، حالاں کہ بقول ’’صاحب البیت ادری بما فی البیت‘‘ دین کا اصل ماخذ آئمہ اہل بیت تھے۔ امام ابو حنیفہؒ و امام مالکؒ کا انحصار محض روایات پر تھا۔ برعکس اس کے امام جعفر صادقؒ نے اپنے والد امام باقر ؒ کو، انہوں نے زین العابدین ؒ کو اور انہوں نے حسینؒ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کو وہ قیام میں کیسے کھڑے ہوتے تھے۔ شنیدہ کے بودما ننددیدہ۔ آئمہ اہل بیت کی طرف اسی عدم رجوع کا نتیجہ ہے جو اہل سنت کے اختلافات کی شکل میں رونما ہوا ہے۔

اختلاف کے جائز حدود

سوال: تحریک کا ہمدرد ہونے کی حیثیت سے اس کے لٹریچر اور جرائد واخبارات کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں۔ اب تک بزرگان دیو بند اور دوسرے علما کی طرف سے جو فتوے شائع ہوتے رہتے ہیں اور ان کے جو جوابات امیر جماعت ہند و امیر جماعت پاکستان و دیگر اراکین جماعت کی طرف سے دیے گئے ہیں، سب کو بالالتزام پڑھتا رہتا ہوں۔ اپنے بزرگوں کی اس حالت کو دیکھ کر بہت صدمہ ہوتا ہے مگر سوائے افسوس کے اور چارہ کوئی نظر نہیں آتا۔

شفاعت کا صحیح تصور

سوال: کسی مولوی صاحب نے ایک اشتہار شائع کیا ہے جس میں آپ پر معتزلی اور خارجی ہونے کا فتویٰ لگایا ہے۔ بنائے فتویٰ یہ ہے کہ آپ نبی کریم ﷺ کی طرف سے قیامت کے روز امت کے بارے میں شفاعت کے منکر ہیں۔ اس کا حوالہ ترجمان القرآن جلد ۲۶، عدد ۱، ۲ صفحہ ۳۰ سے لیتے ہوئے آیت ’’جنگ کرو اہل کتاب میں سے ان لوگوں کے خلاف جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے‘‘ کے تشریحی نوٹ کا دیا ہوا ہے۔ یہ نوٹ یوں ہے : ’’وہاں کوئی سعی سفارش، کوئی فدیہ اور کسی بزرگ سے منتسب ہونا کام نہ آئے گا‘‘۔ اسی طرح تفہیمات سے بھی کوئی حوالہ اسی قسم کا اخذ کیا ہے۔

براہ کرم آپ بیان فرمائیں کہ اہل سنت کا عقیدہ شفاعت کے بارے میں کیا ہے۔ نبی ﷺ اپنی امت کی شفاعت کس حیثیت سے کریں گے، نیز آیا وہ ساری امت کی طرف سے شفیع ہوں گے؟

نماز کا مسنون طریقہ

سوال: میں پہلے نماز ادا کرنے کی سعادت سے محروم تھا، لیکن الحمد للہ کہ اب نماز ادا کرتا ہوں۔ مجھ کو اس بارے میں بڑی پریشانی درپیش ہے۔ میں جس بستی میں تعلیم پا رہا ہوں وہاں کے لوگ دیو بندی حنفی ہیں اور میرے گاؤں کے لوگ اہل حدیث ہیں۔ اب اگر میں نماز اہل حدیث کے طریقے پر ادا کرتا ہوں تو بستی کے لوگ مجھے وہابی کہہ کر پریشان کرتے ہیں اور جب حنفی طریقے پر پڑھتا ہوں تو گاؤں کے لوگ مجھے مقلد ہونے کا طعنہ دے دیتے ہیں۔ چوں کہ مجھے آپ پر اعتماد ہے، لہٰذا اس معاملے میں آپ سے رہنمائی چاہتا ہوں۔

سوال یہ ہے کہ آخر رسول اللہ ﷺ نے تو نماز ایک ہی طریقے پر پڑھی ہوگی، پھر یہ مختلف فرقوں کے مختلف طریقوں کا اسلام میں کیا مقام ہے؟ میں معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ کون سا فرقہ آنحضرت ﷺ کے طریق پر نماز ادا کرتے ہیں اور میں کس مسلک پر رہوں۔ یہ بھی جاننا چاہتا ہوں کہ خود آپ کس طریق پر نماز ادا کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں دیہات میں نماز جمعہ ادا کرنی چاہیے یا نہیں؟

’’خدا اندر قیاس مانہ گنجد‘‘

سوال: کچھ عرصہ ہوا ایک دوست کے ساتھ میری بحث ہوئی۔ سوال یہ تھا کہ خدا ہے یا نہیں؟ اور ہے تو وہ کہاں سے آیا؟ ہم دونوں اس معاملے میں علم نہیں رکھتے تھے، لیکن پھر بھی میں سوال کے پہلے جزو کی حد تک اپنے مخاطب کو مطمئن کرنے میں کامیاب ہوگیا، لیکن دوسرے جز کا کوئی جواب مجھ سے بن نہ آیا۔ چنانچہ اب یہ سوال خود مجھے پریشان کر رہا ہے؟

ایک موقع پر میری نظر سے یہ بات گزری ہے کہ نبی ﷺ سے بھی یہ سوال کیا گیا تھا، اور آپ ﷺ نے اس کے جواب میں فرمایا تھا کہ کچھ باتیں انسان کے سوچنے اور سمجھنے سے باہر ہوتی ہیں، اور یہ سوال بھی انہی میں شامل تھا۔ میں بہت کوشش کرتا ہوں کہ آنحضرت ﷺ کے اس فرمودہ سے اطمینان حاصل کروں، لیکن کامیابی نہیں ہوتی۔ براہ کرم آپ میری مدد فرمائیں۔

میرا دوسرا سوال یہ ہے کہ انسان کو صحیح معنوں میں انسان بننے کے لیے کن کن اصولوں پر چلنا چاہیے؟

ایمان اور عمل کا تعلق

سوال: آئمہ سلف میں اس مسئلے کے بارے میں بہت اختلاف رہا ہے کہ عمل صالح ایمان کا جزہے یا نہیں۔ میں نے قرآن و حدیث و سیرت کا بھی مطالعہ کیا ہے، اپنی حد تک آئمہ کے اقوال و استدلال کو بھی دیکھا ہے اور اپنے اساتذہ اور بزرگوں سے بھی رجوع کیا ہے لیکن اس سوال کا شافی جواب حاصل کرنے میں ناکام رہا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ بعض لوگوں نے محض اختلافات کو ہوا دینے کے لیے اس مسئلے کو چھیڑا ہے۔ لیکن میرا مقصد سوائے تحقیق و اطمینان کے کچھ نہیں ہے۔

ایک نوجوان کے چند سوالات

سوال: (۱) ہمیں یہ کیونکر معلوم ہو کہ ہماری عبادت خامیوں سے پاک ہے یا نہیں اور اسے قبولیت کا درجہ حاصل ہورہا ہے یا نہیں؟… قرآن و حدیث کے بعض ارشادات جن کا مفہوم یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کو روزے میں بھوک پیاس کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، بہت سے لوگ اپنی نمازوں سے رکوع و سجود کے علاوہ کچھ نہیں پاتے، یا یہ کہ جو کوئی اپنے عابد سمجھے جانے پر خوش ہو نہ صرف اس کی عبادت ضائع ہوگئی بلکہ وہ شرک ہوگی اور اس طرح سے دیگر تنبیہات جن میں سے عبادت کے لیے بے صلہ ہوجانے اور سزا دہی کی خبر دی گئی ہے، دل کو نا امید و مایوس کرتی ہیں۔

مسلم سوسائٹی میں منافقین

سوال: اسلام کیخلاف دو طاقتیں ابتدا ہی سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں۔ ایک کفر اور دوسری نفاق۔ مگر کفر کی نسبت منافق زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ مار آستین ہے جو ماتھے پر اخوت اور اسلام دوستی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کافر اور منافق دونوں ہی بالآخر جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں، لیکن منافق کی سزا کچھ زیادہ ہی ’’بامشقت‘‘ بتائی گئی ہے۔ ’’بیشک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘ (نساء:۲۱) اسی گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یوں دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ ’’اے پیغمبرؐ ! ان منافقوں کے حق میں تم خواہ دعائے مغفرت کرو یا نہ کرو (برابر ہے کیونکہ) چاہے تم 70 مرتبہ ہی مغفرت کے لیے دعا کیوں نہ کرو، تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں کریگا۔‘‘ (توبہ: ۱۰) کم و بیش 60 مختلف علامات اور امتیازی نشانیاں منافقین کی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں، جن کی روشنی میں ہم پاکستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو جب دیکھتے ہیں جو مسلمان کہلاتی ہے تو اکثریت بلا مبالغہ منافقین کی نظر آتی ہے… گناہ گار مسلمان اس گروہ منافقین میں شامل نہیں… مگر گناہ گار مسلمان وہ ہے جس سے برائی کا فعل باقتصائے بشریت جب کبھی سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً ہی اللہ اور قیامت کا خیال اسے آجاتا ہے۔ سچے دل سے توبہ اور پشیمانی کا اظہار کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ منافقین اس کے خلاف اپنے برے کاموں پر واقعی نادم ہونے کی بجائے دانستہ کیے جاتے ہیں۔

نیکی کی راہ میں مشکلات کیوں؟

سوال: آج سے ایک سال قبل دنیا کے جملہ افعال بد سے دوچار تھا، لیکن دنیا کی بہت سی آسانیاں مجھے حاصل تھیں۔ میں نہ کسی کا مقروض تھا اور نہ منت کش اور اب جبکہ میں ان تمام افعال بد سے تائب ہو کر بھلائی کی طرف رجوع کرچکا ہوں، دیکھتا ہوں کہ ساری فارغ البالی ختم ہوچکی ہے اور روٹی تک سے محروم ہوں۔ سوال یہ ہے کہ اچھے اور نیک کام کرنے والوں کے لیے دنیا تنگ کیوں ہوجاتی ہے اوراگر ایسا ہے تو لوگ آخر بھلائی کی طرف کا ہے کو آئیں گے؟ یہ حالت اگر میرے لیے آزمائش ہے کہ سرمنڈاتے ہی اولے پڑے تو یہ منزل میں کس طرح پوری کروں گا؟