مسلم سوسائٹی میں منافقین

سوال: اسلام کیخلاف دو طاقتیں ابتدا ہی سے برسر پیکار چلی آرہی ہیں۔ ایک کفر اور دوسری نفاق۔ مگر کفر کی نسبت منافق زیادہ خطرناک دشمن ثابت ہوا ہے کیونکہ وہ مار آستین ہے جو ماتھے پر اخوت اور اسلام دوستی کا لیبل لگا کر مسلمانوں کی بیخ کنی کرتا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ اگرچہ کافر اور منافق دونوں ہی بالآخر جہنم کا ایندھن بننے والے ہیں، لیکن منافق کی سزا کچھ زیادہ ہی ’’بامشقت‘‘ بتائی گئی ہے۔ ’’بیشک منافق جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے۔‘‘ (نساء:۲۱) اسی گروہ کے متعلق خدا تعالیٰ نے یوں دو ٹوک فیصلہ کردیا ہے کہ ’’اے پیغمبرؐ ! ان منافقوں کے حق میں تم خواہ دعائے مغفرت کرو یا نہ کرو (برابر ہے کیونکہ) چاہے تم 70 مرتبہ ہی مغفرت کے لیے دعا کیوں نہ کرو، تب بھی اللہ تعالیٰ انہیں کبھی معاف نہیں کریگا۔‘‘ (توبہ: ۱۰) کم و بیش 60 مختلف علامات اور امتیازی نشانیاں منافقین کی اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہیں، جن کی روشنی میں ہم پاکستان کے اندر بسنے والی اس قوم کو جب دیکھتے ہیں جو مسلمان کہلاتی ہے تو اکثریت بلا مبالغہ منافقین کی نظر آتی ہے… گناہ گار مسلمان اس گروہ منافقین میں شامل نہیں… مگر گناہ گار مسلمان وہ ہے جس سے برائی کا فعل باقتصائے بشریت جب کبھی سرزد ہوجاتا ہے تو فوراً ہی اللہ اور قیامت کا خیال اسے آجاتا ہے۔ سچے دل سے توبہ اور پشیمانی کا اظہار کرتا ہے اور آئندہ کے لیے اپنی اصلاح کرلیتا ہے۔ منافقین اس کے خلاف اپنے برے کاموں پر واقعی نادم ہونے کی بجائے دانستہ کیے جاتے ہیں۔

آپ کی نگاہ اور مطالعہ وسیع ہے، براہِ کرم آپ اپنی رائے بیان فرمائیے کہ موجودہ مدعیانِ اسلام میں منافقین، گناہ گار اورمتقی مسلمانوں کا تناسب اندازاً کیا ہے؟

دوسرا سوال گروہِ منافقین کے ساتھ مسلمانوں کے طرز عمل کا ہے۔ قرآن پاک کی روح سے یہ لوگ مسلمانوں کی جماعت سے خارج ہیں:

’’اور یہ منافق قسمیں کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہاری جماعت میں ہیں۔ حالانکہ وہ تم سے نہیں۔‘‘ (سورۂ توبہ)

صرف یہی نہیں کہ ملت اسلامیہ سے خارج ہیں، بلکہ اس سے بڑھ کر یہ کہ مسلمانوں کے دشمن ہیں: ’’یہ منافق تمہارے دشمن ہیں، ان سے خبردار رہو۔‘‘ (المنافقون)

چونکہ یہ دشمن ہیں لہٰذا حکم ہوتا ہے کہ ان دشمنانِ دین سے کامل علیحدگی اختیار کرلو۔ ان منافقوں میں سے اپنے ساتھی اور دوست نہ بناؤ:

’’اور ان میں سے کسی کو نہ اپنا دوست سمجھو نہ مدد گار۔ (النساء: ۱۲)

اس بائیکاٹ میں یقیناً یہ بات بھی شامل ہے کہ منافقوں سے رشتے ناطے نہ کیے جائیں۔ علیحدگی کی ایک اور صورت یہ بیان فرمائی ہے کہ:

’’اے نبی! اللہ سے ڈرو اور ان کافروں اور منافقوں کی کسی بات کی پیروی نہ کرو۔‘‘ (احزاب: ۱)

یعنی نہ تو نماز میں منافقوں کی پیروی کی جائے اور نہ ہی سیاسی قیادت قبول کی جائے وغیرہ۔ بائیکاٹ کا اظہار ایک اور طریقے سے بھی کرنا چاہیے:

’’اور ان منافقوں میں سے اگر کوئی مرجائے تو کبھی اس کی نمازِ جنازہ نہ پڑھو اور نہ ہی اس کی قبر پر دعائے مغفرت کے لیے کھڑے ہو۔‘‘ (توبہ: ۱۱)

بحیثیت ایک مسلمان کے خود آپ کا طرزعمل اس علیحدگی کے بارے میں کیا ہے؟ کیا مسلمانوں کو جو اقلیت میں ہیں، منافقوں سے (جن کی اکثریت ہے) قطع تعلق کرلینا چاہیے یا کچھ اتمام حجت کی گنجائش ہے؟

جواب: یہ کہنا تو مشکل ہے کہ مسلمانوں میں اس وقت کتنے فیصد کس کس قسم کے لوگ شامل ہیں، مگر میرا اندازہ اپنے مشاہدات اور تجربات کی بنا پر یہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت کو منافق ٹھہرانے میں آپ نے بہت مبالغے سے کام لیا ہے۔ بلاشبہ مومنین اور صالحین کی ہم میں بہت کمی ہے اور یہی ہمارے اخلاقی و مادی تنزل کی اصل وجہ ہے، لیکن ہم میں سے اکثریت منافقوں کی نہیں بلکہ ایسے لوگوں کی ہے جو یا تو اسلام سے ناواقف ہونے کی وجہ سے جاہلیت میں مبتلا ہیں یا تربیت اور نظامِ دینی کی فقدان کی وجہ سے ضعیف الایمان ہو کر رہ گئے ہیں اور اپنی گناہ گاری کا احساس رکھنے کی باوجود گناہ گارانہ زندگی سے بچنے پر قادر نہیں ہیں۔ منافقین ہمارے اندر موجود تو ضرور ہیں مگر ان کی تعداد کم ہے اور وہ زیادہ تر عوام میں نہیں بلکہ اونچے طبقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ایک صحیح اسلامی نظام زندگی کے قیام کے بارے میں ہماری ساری امیدیں اسی چیز سے وابستہ ہیں کہ ہماری قوم کی عظیم اکثریت اسلام کے ساتھ منافقانہ تعلق نہیں رکھتی بلکہ حقیقت میں اس کی عقیدت مند ہے اور صرف تعلیم، تربیت اور دینی تنظیم کی محتاج ہے اس لیے ہم توقع رکھتے ہیں کہ اگر اس کمی کو پورا کرنے میں ہمارے صالح عناصر کامیاب ہوجائیں تو منافقین کی اکثریت آخر کار شکست کھاکر رہے گی اور یہاں ایک حقیقی اسلامی نظام اپنی اصل صورت اور روح کے ساتھ قائم ہو کر رہے گا۔ انشاء اللہ! ورنہ اگر خدانخواستہ اس قوم کی اکثریت منافق ہوچکی ہو تو ہمیں اسلام کے احیاء و اعادہ کی تمام امیدوں سے ہاتھ دھولینا پڑے گا۔ اس کے بعد تو امید کی ایک کرن بھی باقی نہیں رہتی۔

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ، رجب ۱۳۷۰ھ، مارچ تا مئی ۱۹۵۱ء)