اہل سنت اور اہل تشیع کا اختلاف

سوال: میں نے ایک دین دار شیعہ عزیز کی وساطت سے مذہب شیعہ کی بکثرت کتب کا مطالعہ کیا ہے۔ شیعہ سنی اختلافی مسائل میں سے جو اختلاف نماز کے بارے میں ہے ، وہ میرے لیے خاص طور پر تشویش کا باعث ہے۔ میں اپنے شکوک آپ کے سامنے رکھتا ہوں اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ آپ تفصیلی جواب دے کر ان کا ازالہ فرمائیں۔

میرے شبہات نماز کی ہئیت قیام سے متعلق ہیں۔ نماز اولین رکن اسلام ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ قیام میں ہاتھ باندھنے یا چھوڑ دینے کے بارے میں آئمہ اربعہ کے مابین اختلاف ہے اور پھر افسوس اس امر کا ہے کہ ارشاد نبوی ﷺ ’’انی تارک فیکم الثقلین، کتاب اللہ وعترتہ‘‘ کے باوجود آئمہ اہل سنت نے رفع اختلافات کے لیے اہل بیت کی طرف رجوع نہیں کیا، حالاں کہ امام اعظم ؒ اور امام مالک ؒ ، امام جعفر صادق ؒ کے معاصر بھی تھے۔ اس طرح رسول اللہﷺ کے گھر والوں کو چھوڑ کر دین کے سارے کام کو غیر اہل بیت پر منحصر کردیا گیا اور مسائل دین میں اہل بیت سے تمسک کرنا تو درکنار ان سے احادیث تک نہیں روایت کی گئیں، حالاں کہ بقول ’’صاحب البیت ادری بما فی البیت‘‘ دین کا اصل ماخذ آئمہ اہل بیت تھے۔ امام ابو حنیفہؒ و امام مالکؒ کا انحصار محض روایات پر تھا۔ برعکس اس کے امام جعفر صادقؒ نے اپنے والد امام باقر ؒ کو، انہوں نے زین العابدین ؒ کو اور انہوں نے حسینؒ کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کو وہ قیام میں کیسے کھڑے ہوتے تھے۔ شنیدہ کے بودما ننددیدہ۔ آئمہ اہل بیت کی طرف اسی عدم رجوع کا نتیجہ ہے جو اہل سنت کے اختلافات کی شکل میں رونما ہوا ہے۔

جواب: آپ کا سوال تو صرف نماز کے بارے میں ہے، مگر آپ نے اس کے متعلق اپنی الجھن کی جن بنیادوں کا ذکر کیا ہے، وہ دور تک پہنچی ہوئی ہیں۔ اس لیے ان بنیادوں پر بحث کرنی ناگزیر ہے۔

آپ کی الجھن کا نقطہ آغاز یہ حدیث ہے: ’’ انی تارک فیکم الثقلین…الخ‘‘ اس کے متعلق آپ کو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ یہ حدیث مختلف الفاظ میں مختلف سندوں سے روایت ہوئی ہے جن میں سے بعض ضعیف ہیں اور بعض قوی۔ سب سے زیادہ قوی سند اور تفصیل کے ساتھ جو روایت آئی ہے وہ حضرت زید بن ارقم سے مسلم میں مروی ہے۔ اس میں یہ بیان ہوا ہے کہ نبیﷺ نے غدیر خم کے مقام پر تقریر کرتے ہوئے فرمایا: ’’لوگو! میں ایک انسان ہوں، ہوسکتا ہے کہ اللہ کا فرستادہ (قضا کا پیغام لے کر) جلدی ہی آجائے، اور میں اس پر لبیک کہوں (یعنی دنیا سے رخصت ہوجاؤں) میں تمہارے درمیان دو بھاری چیزیں چھوڑ رہا ہوں۔ پہلی اس میں سے کتاب اللہ ہے جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔ پس تم کتاب اللہ کو لو اور مضبوط تھامو۔‘‘ اس سلسلے میں آپؐ نے حاضرین کو کتاب اللہ کی پیروی پر ابھارا اور اس کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا: ’’ اور دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں، میں اپنے اہل بیت کے معاملے میں تم کو اللہ کی یاد دلاتا ہوں‘‘۔ اس حدیث میں کوئی اشارہ اس طرف نہیں ہے کہ کتاب اللہ کے بعد بس میرے اہل بیت ہی ہیں جن سے تمہیں اپنا دین سیکھنا چاہیے اور جن کی پیروی پر حصر کرنا چاہیے۔ بلکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دونوں چیزوں کو ثقلین (بھاری چیزیں) دو الگ الگ معنوں میں فرمایا گیا ہے۔ کتاب اللہ اس لیے بھاری چیز ہے کہ وہی ہدایت کا سرچشمہ ہے اور اسے چھوڑنا یا اس سے منحرف ہوجا نا تباہی و ضلالت کا موجب ہے اور اہل بیت کو بھاری اس لیے فرمایا کہ ہمیشہ اکابرنوع انسانی کے اہل بیت ان کے پیروؤں کے لیے سخت وجہ آزمائش ثابت ہوئے ہیں۔ کسی نے ان کے حق میں افراط کی ہے اور غلو کرکے پیرزادوں کو معبود بنا ڈالا ہے۔ اور کسی نے ان کے حق میں تفریط کی ہے اور ان پر ظلم و ستم ڈھائے ہیں تاکہ امت کو جو فطری عقیدت اپنے رہبر اور ہادی کے خاندان والوں سے ہوتی ہے، اس کو زبردستی دبایا جائے۔ اسی غرض کے لیے حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں اپنے اہل بیت کے معاملہ میں تم کو خدا کی یاد دلاتا ہوں۔ یعنی ان کے معاملے میں خدا سے ڈرو اور افراط و تفریط کے پہلو اختیار کرنے سے بچو۔

دوسرے، اگر بالفرض مان لیا جائے کہ حضور ﷺ نے اپنی عترت یا اہل بیت (دونوں ہی الفاظ حدیث میں آئے ہیں) سے دین سیکھنے کا ہی حکم دیا ہے تو ان الفاظ کا مفہوم آخر صرف اولاد حضرت علیؓ تک ہی کیوں محدود کردیا گیا؟ اس میں ازروئے قرآن ازواج نبی بھی داخل ہیں اور ان میں آل جعفر، آل عقیل، آل عباس اور تمام بنو ہاشم بھی داخل ہیں جن پر حضور ﷺ نے صدقہ حرام کیا۔

تیسرے یہ کہ حضورﷺ نے صرف یہی نہیں فرمایا کہ ترکت فیکم الثقلین … بلکہ یہ بھی فرمایا ہے کہ’’ علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین‘‘ (میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت پر چلو) اور یہ بھی فرمایا کہ ’’اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم‘‘ (میرے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کسی کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے)۔ پھر آخر کیا وجہ ہے کہ حضور ﷺ کے ایک ارشاد کو تو لیا جائے اور دوسرے ارشادات کو چھوڑ دیا جائے؟ کیوں نہ اہل بیت سے بھی علم حاصل کیا جائے اور ان کے ساتھ خلفائے راشدین اور اصحاب نبی رضی اللہ عنہم سے بھی؟

چوتھے یہ کہ عقل کسی بھی طرح یہ باور نہیں کرسکتی کہ تیئس سال کے دوران میں جو عظیم الشان کام نبی نے سینکڑوں ہزاروں آدمیوں کی شرکت و رفاقت میں سر انجام دیا اور جسے لاکھوں آدمیوں نے اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا، اس کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں صرف آپ کے گھر والوں پر ہی حصر کرلیا جائے اور ان بہت سے دوسرے لوگوں کو نظر انداز کردیا جائے جو اس کام میں شریک ہوئے اور جنہوں نے اسے دیکھا۔ حالاں کہ حضور ﷺ کے گھر والوں میں سے خواتین کو اگر موقع ملا ہے تو زیادہ تر آپﷺ کی خانگی زندگی دیکھنے کا موقع ملا ہے اور مردوں میں ایک حضرت علی ؓ کے سوا کوئی دوسرا ایسا نہیں ہے جسے آپ ﷺ کی رفاقت کا اتنا موقع ملا ہو جتنا حضرت ابو بکر صدیقؓ، عمرؓ، عثمانؓ، ابن مسعودؓ اور دوسرے بہت سے صحابہ کرام کو ملا۔ پھر آخر محض اہل بیت ہی پر حصر کرلینے کی کونسی معقول وجہ ہے؟

اس سوال کو رد کرنے کے لیے بآلاخر ایک گروہ کو یہ کہنا پڑا کہ گنتی کے چند آدمیوں کے سوا باقی تمام صحابہ معاذ اللہ منافق تھے۔ مگر یہ بات صرف وہی شخص کہہ سکتا ہے جو تعصب میں اندھا ہوچکا ہو۔ جسے نہ اس بات کی پروا ہو کہ تاریخ اس کی تمام خاک اندازیوں کے باوجود کس طرح اس کے قول کوجھٹلا رہی ہے اور نہ اس امر کی پروا ہو کہ اس قول سے خود سرکار رسالت مآب اور آپؐ کے مشن پر کیسا سخت حرف آتا ہے۔ کون معقول آدمی یہ تصور کرسکتا ہے کہ نبی ﷺ نے ۲۳ سال تک اپنے جن رفقا پر پورا اعتماد کیا اور جنہیں ساتھ لے کر عرب کی اصلاح کا اتنا بڑا کارنامہ سر انجام دیا وہ سب منافق تھے؟ پھر کیا حضور ﷺ ان کے نفاق سے آخر وقت تک بے خبر رہے؟ اگر یہ سچ ہے تو حضور ﷺ کی مردم شناسی و فراست مشتبہ ہوجاتی ہے اور اگر یہ غلط ہے، اور یقیناً غلط ہے تو آخر کیوں دین کا علم حاصل کرنے میں ان سب کی معلومات معتبر نہ ہوں؟

آپ کی الجھن کا دوسرا بڑا سبب یہ ہے کہ آپ کو کسی نے بالکل غلط باور کرادیا ہے کہ آئمہ اہل سنت نے مسائل دین کی تحقیق میں نہ اہل بیت سے رجوع کیا، نہ ان سے کوئی مسئلہ پوچھا اور نہ ان سے کوئی حدیث کی روایت لی۔ یہ غلطی حضرات اہل تشیع نے ضرور کی ہے کہ معلومات کے ایک ہی ذریعے (یعنی اہل بیت … جنہیں انہوں نے بیت مانا) پر حصر کرلیا اور دوسرے تمام ذرائع کو چھوڑ دیا۔ مگر آئمہ اہل سنت نے یہ غلطی نہیں کی۔ انہوں نے تو وہ علم بھی لیا ہے جو اہل بیت کے پاس تھا اور وہ بھی لیا جو دوسرے صحابہ کرامؓ کے پاس تھا اور پھر پوری چھان بین کے بعد اپنے طرز تحقیق کے مطابق فیصلہ کیا ہے کہ کس مسئلہ میں کون سا طریقہ زیادہ صحیح اور معتبر ہے۔

مثال کے طور پر امام ابو حنیفہؒ ہی کو لیجیے۔ وہ جہاں دوسرے صحابہ کرام و تابعین سے علم حاصل کرتے ہیں وہاں امام محمد باقرؓ، امام جعفر صادق ؓ، حضرت زید بن علی بن حسینؓ اور محمد بن حنیفہ کے علم سے بھی استفادہ کرتے ہیں۔ یہی حال دوسرے فقہا اور محدثین کا بھی ہے۔ حدیث کی کونسی کتاب ہے جس میں بزرگان اہل بیت کی روایات نہ پائی جاتی ہوں۔

لیکن یہ کہنا کہ نماز یا کوئی دوسری چیز صرف وہی لی جاتی جو امام جعفر صادق ؓ کے پاس تھی، کیوں کہ انہوں نے امام محمد باقر ؓ سے اور انہوں نے امام زید العابدین ؓ سے اور انہوں نے امام حسین ؓ سے اور انہوں نے حضرت علی ؓ اور انہوں نے رسول اکرم ﷺ سے اسے لیا تھا، صحیح نہیں ہے۔ سوال یہ ہے کہ آخر اسی ذریعے پر حصر کیوں کیا جائے؟ دوسرے ہزاروں لوگ بھی تو موجود تھے جنہوں نے نمازیں پڑھتے ہوئے اور دوسرے دینی کام کرتے ہوئے سینکڑوں تابعین کو اور انہوں نے صحابہ کرام کو دیکھا تھا اور ان سب نے نبیﷺ کو اپنی آنکھوں سے یہی کام کرتے دیکھا تھا۔ آخر ان کو چھوڑنے اور صرف اہل بیت سے تمسک کرنے کی کیا وجہ ہے؟ صاحب البیت ادریٰ بما فیہ کوئی آیت قرآنی یا حدیث تو نہیں ہے کہ اس کی پیروی اختیار کرکے اسی نبی کی زندگی کے بارے میں صرف اس کے گھر والوں کے علم پر انحصار کر لیا جائے جس کی زندگی کا ننانوے فیصدی حصہ گھر سے باہر ہزاروں لاکھوں آدمیوں کے سامنے گزرا ہے اور جس سے ہزار ہا آدمیوں کو مختلف احوال و معاملات میں کسی نہ کسی طور پر سابقہ پیش آیا ہو۔

آپ کی الجھن کی تیسری وجہ یہ ہے کہ آپ مسائل دینی میں اختلافات کو دیکھ کر گھبرا اٹھے ہیں اور یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ یہ اختلافات نہ ہوتے اگر صرف اہل بیت کے علم پر اکتفا کر لیا جاتا۔ حالاں کہ یہ دونوں ہی باتیں غلط ہیں۔ نہ اختلافات کوئی گھبرانے کی چیز ہیں اور نہ اہل بیت کے متبعین ہی اختلاف سے بچ سکے ہیں۔ آپ اگر حضرات شیعہ کے مختلف فرقوں کے عقائد اور ان کے فقہی مذاہب کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہو کہ ان کے ہاں اس سے زیادہ اختلافات ہیں، جتنے اہل سنت میں پائے جاتے ہیں اور ان میں سے ہر ایک اپنے مسلک کا ماخذ اہل بیت ہی کے علم کو قرار دیتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ جس دین کو کروڑوں انسان اختیار کریں اور جس کے مآخذ کا ہزاروں لاکھوں انسان مطالعہ کرکے غور و فکر کریں، اس کی نصوص کی تعبیر اور احکام کی تفصیل اور جزئیات کی تحقیق میں کامل اتفاق کسی طرح ممکن ہی نہیں ہے۔ اختلاف تو ایسی صورت میں فطرتاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے رونما ہونے کو روکا نہیں جاسکتا۔ لیکن ان بے شمار اختلافات کے اندر ایک جوہری وحدت ہوتی ہے اور وہ ان اساسی عقائد و اصول اور ان بڑے بڑے احکام کی بنیاد پر ہوتی ہے جس میں سب متفق پائے جاتے ہیں۔ اگر لوگ اصل اہمیت اس بنائے وحدت کو دیں اور جزوی اختلافات کو اپنی جگہ پر رکھیں تو کوئی قباحت واقع نہیں ہوتی۔ مگر جب لوگوں کے لیے اصل اہمیت ان جزوی امور کی ہوجاتی ہے جن میں وہ آپس میں مختلف ہیں اور بنائے وحدت کو وہ خفیف سمجھنے لگتے ہیں تو پھر تفرقہ رونما ہوتا ہے۔

مثلاً نماز ہی کو لیجیے جس کے بارے میں آپ دریافت کر رہے ہیں۔ اس میں بنائے وحدت یہ ہے کہ سب مسلمان اللہ واحد ہی کی عبادت کرتے ہیں، اس کے طریق ادا کا ماخذ اسی نماز کو مانتے ہیں جو نبیﷺ نے سکھائی، پانچ وقت کی نماز فرض مانتے ہیں، ایک ہی قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، وضو کو اس کے لیے شرط تسلیم کرتے ہیں، رکوع، سجدہ، قیام، قعدہ کو اس کی ہیئت کے اجزا مانتے ہیں اور اس میں تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے ہیں۔ اس بنائے وحدت کے بعد ان میں اختلافات کن چیزوں میں ہیں؟ ہاتھ کہاں باندھے جائیں یا کھولے جائیں۔ آمین زور سے کہی جائے یا آہستہ … امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا نہ پڑھیں وغیرہ۔ ان جزوی امور میں جتنے بھی مختلف مذاہب ہیں، ان میں سے ہر ایک اپنے پاس یہ دلیل رکھتا ہے کہ اس کا طریقہ کسی نہ کسی سند کے ساتھ نبی ﷺ سے مروی ہے اور وہ اپنی سند پیش کرتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ کس کی سند ضعیف ہے اور کس کی قوی، دیکھنا یہ ہے کہ ہر ایک کے پاس آخر نبی کریم ﷺ ہی کی سند تو ہے کسی نے یہ تو نہیں کہا کہ میں حضور ﷺ کے سوا کسی اور کی سند پر یہ کام کرتا ہوں۔ پھر آخر کیا مضائقہ ہے، اگر ہم ایک طریقے پر (جس پر بھی ہمارا اطمینان ہو)عمل کرتے ہوئے دوسرے کے طریقے کو بھی مبنی برحق سمجھیں اور بنائے وحدت پر متفق رہیں؟

(ترجمان القرآن۔ رمضان، شوال ۱۳۷۱ھ ، جون، جولائی ۱۹۵۲ء)