غیر اسلامی دیار میں تبلیغ اسلام

غیر اسلامی دیار میں تبلیغ اسلام

سوال: کچھ عرصہ سے امریکہ میں آکر مقیم ہوں۔ یہاں کے لوگوں سے دینی و اجتماعی موضوعات پر تبادلہ خیالات کا موقع ملتا رہتا ہے۔ اللہ نے جتنی کچھ سمجھ بوجھ دی ہے اور آپ کی تصانیف اور دوسرے مذہبی لٹریچر سے دین کا جتنا کچھ فہم و شعور پیدا ہوا ہے، اس کے مطابق اسلام کی ترجمانی کی کوشش کرتا ہوں۔ مگر یہاں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ لوگ بظاہر مادی آسائشوں پر مطمئن ہیں اور انہی سے مزید اطمینان حاصل کرنے میں کوشاں ہیں۔ ان لوگوں کے مسائل اور دلچسپی کے موضوح ہمارے موضوعات سے مختلف نظر آتے ہیں۔ ان لوگوں کی گمراہیوں کی نوعیت و کیفیت بھی اپنے ہاں کی گمراہیوں سے الگ اور شدید تر ہے۔ جس طرز استدلال سے ہم مسلمان معاشرے کے بھٹکے ہوئے افراد کو راہِ راست کی طرف بلاسکتے ہیں اور انہیں اسلام کے اصولوں کا قائل بنا سکتے ہیں، وہ طرز استدلال یہاں شاید کار گر نہ ہو۔

کیا مسیحی مشنریوں کے لیے مسلم ممالک کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں؟

کیا مسیحی مشنریوں کے لیے مسلم ممالک کے دروازے کھلے رہنے چاہئیں؟

سوال: امریکہ سے میرے ایک دوست نے یہ خط لکھا ہے کہ وہاں کے عرب اور مسلمان طلبہ آپ سے ان دو سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔ سوالات یہ ہیں:

۱۔ کیا اسلامی ملکوں کو دوسرے مذاہب کے مبلغوں پر پابندی لگانی چاہیے۔ خاص طور پر عیسائی مشنریوں پر؟ اس بارے میں اسلام کا نقطۂ نظر کیا ہے؟

۲۔ اگر پابندی لگانا دینی طور پر لازم ہے تو عیسائی بھی اپنے ممالک میں مسلمان مبلغوں پر پابندی لگادیں گے۔ اس صورت میں اسلام کا پیغام عالم انسانیت تک کیسے پہنچایا جاسکتا ہے؟

کشمکش حق و باطل اور اس کی حقیقت

کشمکش حق و باطل اور اس کی حقیقت

سوال: ایک عرصے سے ایک الجھن میں مبتلا ہوں۔ براہِ کرم اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں۔ الجھن یہ ہے کہ عہد نبوی‌‍ﷺ و خلافت راشدہ کو چھوڑ کر آج کی تاریخ تک مسلمانوں کا وہ گروہ ہمیشہ ناکام کیوں ہوتا چلا آرہا ہے۔ جس نے دین و ایمان کے تقاضے ٹھیک ٹھیک پورے کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس ناکامی کی اہمیت اس لحاظ سے اور بھی بڑھ جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ کا سبب زیادہ تر اپنے ہی دینی بھائی بنتے رہے ہیں اور آج بھی بنے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ وہ ’’دین‘‘ جو دنیاوی زندگی کو درست کرنے کے لیے نازل ہوا ہے، جس کا سارے کا سارا ضابطہ دنیوی زندگی میں عمل کرنے کے لیے ہے، جسے غالب کرنے کے لیے کئی خدا کے بندے اپنی زندگیاں ختم اور کئی وقف کرچکے ہیں، غالب کیوں نہ آسکا؟ اور دنیا کی غالب آبادی ’’دین اسلام‘‘ کی برکتوں سے عام طور پر کیوں محروم رہی ہے؟ خلق خدا کی عظیم الشان اکثریت چند مٹھی بھر زبردستوں کے ظلم و سمت کیوں سہتی چلی آرہی ہے؟ معاشی بے انصافی، تنگ دستی اور اذیتوں کی دردناک صورتوں سے کیوں دوچار ہے؟ اور امن و سلامتی قائم کرنے والا دین حق اور اس کے نام لیوا کمزوروں، بے بسوں، مجبوروں اور معذوروں کا سہارا بننے میں کیوں کامیاب نہیں ہوتے؟

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب کے متعلق ایک سوال

مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب کے متعلق ایک سوال

سوال: مفتی محمد یوسف صاحب کی کتاب جس میں آپ پر اعتراضات کا علی جائزہ لیا گیا ہے، ابھی ابھی شائع ہوئی ہے اور میں نے اس کا مطالعہ کیا ہے۔ ماشاء اللہ کتاب ہر لحاظ سے مدلّل ہے۔ جن لوگوں کو واقعۃً کچھ غلط فہمی ہوگی وہ تو دور ہوجائے گی، لیکن جو ضدی اور عنادی ہیں ان کا علاج مشکل ہے۔ میں نے کئی دوستوں کو مطالعہ کے لیے دی چنانچہ وہ مطمئن ہوگئے۔ لیکن ایک مولانا صاحب نے کتاب پڑھنے کے بعد یہ کہا کہ مجھے تسلی ہوگئی ہے لیکن ایک اشکال ہے۔ وہ یہ کہ مفتی صاحب نے جو توجیہات کی ہیں خود مولانا مودودی نے ان کا انکار کیا ہے اور اسی واسطے اس کتاب کی تقریظ اور تصدیق انہوں نے نہیں کی۔ میں نے کہا اگر ان کو اختلاف تھا تو ان کی کتابوں کے ناشر نے اسے کیوں شائع کیا اور اس پر کیوں دیباچہ لکھا؟ مزید برآں ترجمان القرآن، ایشیا، آئین میں اس کتاب کا اشتہار کیوں دیا گیا ہے؟ لیکن وہ صاحب مُصر ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ ان کے اختلاف کے باوجود ہے اور جماعت کے بعض آدمیوں کی مرضی سے ہوا ہے، خود مولانا صاحب ایسا نہیں چاہتے تھے۔ ان مولوی صاحب کا اصرار ہے کہ اگر آپ کی بات درست ہے تو خود خط کے ذریعہ معلوم کرکے دیکھ لو۔ چنانچہ اسی خاطر یہ منتشر سطور تحریر کرکے ارسالِ خدمت ہیں کہ آپ اپنے قلم سے اس قسم کے لوگوں کی تسلی کی خاطر چند سطور لکھ دیں۔

مختلف احوال میں تحریک اسلامی کا طریق کار

مختلف احوال میں تحریک اسلامی کا طریق کار

سوال: ہمارے اسلامی حلقوں میں آج کل یہ موضوع زیر بحث ہے کہ جس ملک میں غیر مسلموں کو مسلمانوں پر تسلط حاصل ہو، وہاں تحریک اسلامی کے کارکنوں کو مسلمانوں کے قومی معاملات میں کس حد تک دلچسپی لینی چاہیے۔ جو لوگ ان مسائل میں حصہ لینے کے حامی ہیں وہ فرعون کے مقابلہ میں حضرت موسیٰؑ کی ان مساعی کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں جو بنی اسرائیل کو مصر سے بچا کر لے جانے کے لیے انہوں نے اختیار فرمائیں۔ اس کے مقابلے میں دوسرے لوگ یہ اندیشہ رکھتے ہیں کہ ان معاملات میں الجھ جانے کے بعد تحریک اسلامی کا اصولی موقف مجروح ہوجائے گا اور اس کی بین الاقوامی اور بین الانسانی دعوت اپنا اپیل کھو بیٹھے گی۔ فریق اول کے استدلال کا اہم اور مرکزی نکتہ یہ ہے کہ جس طرح بنی اسرائیل کو اللہ نے بعثت محمدی سے قبل اقوام عالم میں منتخب اور افضل تر قرار دیا تھا، اسی طرح دنیا اور دنیا کے جس ملک میں بھی مسلمان نام کی ایک قوم آباد ہے، وہ بھی برگزیدہ اور مجتبیٰ ہے۔اس لیے اس قوم کے جان و مال اور عزت و آبرو کی حفاظت اس کے پرسنل لا اور تعلیمی و تہذیبی ادارات کا بقا اقامت دین کے لیے ناگزیر اور اولین توجہ کا مستحق ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے دو اجزاء

حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوت کے دو اجزاء

سوال:سوال نمبر ۱ کے بارے میں آپ کے مختصر جواب سے اندازہ ہوا کہ میرے سوال کا مرکزی نکتہ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مشن سے متعلق ہے جناب کی تائید سے محروم رہا اور آپ نے اپنے جواب میں اپنے اسی موقف کا اعادہ فرمایا جو اس سے قبل آپ تفہیم القرآن میں پیش کرچکے ہیں۔ آپ کے نقطۂ نظر کو قبول کرنے میں جو اشکال ہے وہ مختصراً یہ ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرعون اور آلِ فرعون کے ایمان سے مایوس ہونے کے بعد بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت نہیں فرمائی تھی بلکہ آغاز نبوت ہی میں فرعون کے سامنے ایمان کی دعوت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ’’ارسالِ بنی اسرائیل‘‘ کا مطالبہ بھی پیش فرما دیا تھا۔ اس کی آخر کیا مصلحت تھی؟ کیا صرف ایمان کی دعوت کافی نہیں تھی؟ اس اشکال کا ایک ہی حل میری سمجھ میں آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ ارسالِ بنی اسرائیل کا مطالبہ، دعوت ایمان کا بدل نہیں تھا۔ اس کا مطلب یہ نہ تھا کہ اگر فرعون ایمان نہ لائے تب بنی اسرائیل مصر سے ہجرت کرجائیں۔ بلکہ یہ ایک مستقل مطالبہ تھا جسے اگر فرعون ایمان لے آتا تب بھی پورا کرایا جاتا۔ قرآن کا انداز بیان بھی اسی کی تائید کرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

خواب کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر

خواب کے متعلق اسلامی نقطۂ نظر

سوال: خواب کے متعلق یہ امر تحقیق طلب ہے کہ خواب کیسے بنتا ہے؟ اور اس معاملہ میں اسلامی نقطۂ نظر کیا ہے۔ فرائڈ کے نزدیک لاشعور کی خواہشات، شعور میں آنا چاہتی ہیں مگر سوسائٹی کی بندشوں اور انا (EGO) کے دباؤ سے لاشعور میں دبی رہتی ہیں۔ رات کو سوتے وقت شعور سو جاتا ہے اور لاشعور چپکے سے ان خواہشات کو شعور میں لے آتا ہے۔ مگر ان خواہشوں کو لاشعور بھیس بدلوا دیتا ہے۔ (فرائڈ کے نزدیک سب خواب جنسی نوعیت کے (sexual) ہوتے ہیں)۔ چنانچہ جاگنے کے بعد خواب میں جو کچھ دیکھا تھا اس کے لیے فرائڈ (MANIFEST CONTENT) کی حد استعمال کرتا ہے اور یہ اپنے اندر علامتیں رکھتا ہے جن کا مطلب کچھ اور ہوتا ہے۔ خواب کا اصل مطلب ان علامتوں کی تعبیر کرکے پتا چلتا ہے اور اصل مطلب کیا ہے ان علامتوں کا؟ یہ لا شعوری خواہشات میں چھپا ہوتا ہے۔ ان شعوری خواہشات کے لیے فرائڈ (LATENT CONTENT)کی حد استعمال کرتا ہے۔ نفسیات کے نزدیک تعبیر خواب دراصل یہ ہے کہ (MANIFEST CONTENT) یعنی ظاہر خواب سے اور اس کی علامتوں سے ( LATENT THOUGHT) معلوم کیا جائے۔ اس کے لیے نفسیات دان (FREE ASSOCIATION) کی تکنیک استعمال کرتے ہیں اور خواب کی علامتوں (Symbols) کو جنسی معنی پہناتے ہیں۔

خوابوں کی پیروی

خوابوں کی پیروی

سوال: ”میں گزشتہ نماز جمعہ کے بعد سوگیا۔ خواب میں دیکھتا ہوں کہ دو معمر سفید ریش بزرگ موجود ہیں۔ میں قریب آیا تو ان میں سے ایک حضرت مولانا … ہیں اور دوسرے ان سے زیادہ عمر رسیدہ ہیں۔ مولانا … مجھے علیٰحدہ تنہائی میں لے گئے اور فرمانے لگے کہ تم مولانا مودودی صاحب امیر جماعت اسلامی کی حمایت چھوڑ دو۔ یہ اچھی بات نہیں۔ اتنے میں آنکھ کھل گئی۔ اس دن سے عجیب تردّد ہے۔ کیونکہ میں تو صرف متاثرین میں سے ہوں اور میری طرف سے جماعت کی حمایت للہیت پر مبنی ہے اگر آنجناب کچھ تحریر فرما سکیں تو نوازش ہوگی۔“

ذکرِ الٰہی اور اس کے طریقے

ذکرِ الٰہی اور اس کے طریقے

سوال: ذکرِ الٰہی کے مسنون یا غیر مسنون ہونے کے معاملے میں مجھے بعض ذہنی اشکالات پیش آ رہے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کا ایک اثر بیان کیا گیا ہے کہ آپ نے اپنے بعض شاگردوں کو دیکھا کہ وہ ذکر کے لیے ایک مقررہ جگہ پر جمع ہوا کرتے تھے تو غصے میں فرمایا کہ کیا تم اصحاب رسولؐ اللہ سے بھی زیادہ ہدایت یافتہ ہو؟ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت ابن مسعودؓ نے فرمایا کہ رسولؐ اللہ کے زمانے میں تو میں نے اس طرح کا ذکر نہیں دیکھا، پھر تم لوگ کیوں یہ نیا طریقہ نکال رہے ہو؟

پردے پر ایک خاتون کے اعتراضات اور ان کا جواب

پردے پر ایک خاتون کے اعتراضات اور ان کا جواب

سوال:میں آپ کی کتاب رسالہ دینیات کا انگریزی ترجمہ پڑھ رہی تھی۔ صفحہ ۱۸۲ تک مجھے آپ کی تمام باتوں سے اتفاق تھا۔ اس صفحے پر پہنچ کر میں نے آپ کی یہ عبارت دیکھی کہ ’’اگر عورتیں ضرورتاً گھر سے باہر نکلیں تو سادہ کپڑے پہن کر اور جسم کو اچھی طرح ڈھانک کر نکلیں، چہرہ اور ہاتھ اگر کھولنے کی شدید ضرورت نہ ہوتو ان کو بھی چھپائیں‘‘۔ اور اس کے بعد دوسرے ہی صفحے پر یہ عبارت میری نظر سے گزری کہ ’’کوئی عورت چہرے اور ہاتھ کے سوا اپنے جسم کا کوئی حصہ (باستثنائے شوہر) کسی کے سامنے نہ کھولے خواہ وہ اس کا قریبی عزیز ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ مجھے اول تو آپ کی ان دونوں عبارتوں میں تضاد نظر آتا ہے۔ دوسرے آپ کا پہلا بیان میرے نزدیک قرآن کی سورہ نور کی آیت ۲۴ کے خلاف ہے اور اس حدیث سے بھی مطابقت نہیں رکھتا جس میں نبیﷺ نے حضرت اسماءؓ سے فرمایا تھا کہ لڑکی جب بالغ ہوجائے تو اس کے جسم کا کوئی حصہ ہاتھ اور منہ کے سوا نظر نہ آنا چاہیے۔