یہود کی ذلت و مسکنت

سوال: میرے ذہن میں دو سوال بار بار اٹھتے ہیں۔ ایک یہ کہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمْ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃ ُ جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت و مسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار و تسلط کو دیکھ کر ذلت و مسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ کے پیدائش

سوال: لوگوں کا ایک طبقہ ایسا ہے جو یہ بات ماننے کے لیے تیار نہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ ان کا طریق استدلال یہ ہے کہ جب فرشتے نے حضرت مریم علیہ السلام کو خوشخبری سنائی کہ ایک پاکیزہ لڑکاتیرے بطن سے پیدا ہوگا، تو انہوں نے جواب دیا کہ میری تو ابھی شادی بھی نہیں ہوئی اور نہ میں بدکار ہوں۔ جب یہ فرشتہ نازل ہوا اگر اس وقت حضرت مریم علیہ السلام کو کنواری مان لیا جائے اوربعد میں یوسف نجار سے ان کی شادی ہوگئی ہو اور اس کے بعد حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش ہو تو کیا خدائی وعدہ سچا ثابت نہ ہوگا؟

تعدد ازواج پر پابندی

سوال: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعدد مردوں سے کم ہو تو کیا حکومت اس بنا پر تعدد ازواج پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟ اس سوال کی ضرورت میں نے اس لیے محسوس کی ہے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی ہے وہاں ہنگامی صورت حال پیش نظر تھی۔ اس زمانے میں سالہا سال کے مسلسل جہاد کے بعد بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں اور بچے بے آسرا اور یتیم رہ گئے تھے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اجازت دی گئی تھی تا کہ بیواؤں اور یتیم بچوں کو سوسائٹی میں جذب کیا جاسکے اور ان کی کفالت کی شائستہ صورت پیدا ہوسکے۔

احادیث دجال بعض اقوال رسول اللہ ﷺ کا مبنی بروحی نہ ہونا

سوال: آپ نے تفہیمات حصہ اول، صفحہ ۲۲۱ پر سورۃ نجم کی ابتدائی آیت (4)مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (2) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:

’’ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسکی بنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بنا پر وحی ہوگی‘‘۔

حدیث اور توہین صحابہ

سوال: بخاری (کتاب الانبیا) میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت کا ایک حصہ یہ ہے:

وان اُناسا من اصحابی یوخذ بھم ذات الشمال فاقول اصحابی اصحابی فیقول انھم لم یزالوا مرتدین علیٰ اعقابھم منذ فارقتھم فاقول ما قال العبد الصالح و کنت علیھم شھیدًا مادمت فیھم (الی قولہ) الحکیم۔

’’جناب نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن ’’میرے بعض اصحاب‘‘ کو بائیں طرف سے گرفتار کیا جائے گا تو میں کہوں گا (انہیں کچھ نہ کہو) یہ تو میرے اصحاب ہیں۔ جواب ملے گا کہ تیری وفات کے بعد یہ لوگ الٹی چال چلے۔ اس کے بعد میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرح کہوں گا کہ خدا وندا ! جب تک میں ان میں موجود رہا، ان کے اعمال کا نگران رہا لیکن جب تو نے مجھے وفات دی تو تو ہی ان کا رقیب تھا‘‘۔

اس روایت ے حضرات صحابہ کرامؓ کی توہین اور تحقیر مترشح ہوتی ہے۔ کیا یہ روایت صحیح ہے؟

حدیث ’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ…‘‘ کی علمی تحقیق

سوال: میرے ایک دوست نے جو دینی شغف رکھتے ہیں، حال ہی میں شیعیت اختیار کرلی ہے، انہوں نے اہل سنت کے مسلک پر چند اعتراضات کیے ہیں جو درج ذیل ہیں۔ امید ہے کہ آپ ان کے تشفی بخش جوابات دے کر ممنون فرمائیں گے۔

(۱) نبی اکرمﷺ کی حدیث ’’اَنَا مَدِیْنَۃُ الْعِلْمِ وَ عَلِیٌّ بَابُھَا، فَمَنْ اَرَادَ الْمَدِیْنَۃَ فَلْیَاْتِ کا مفہوم کیا ہے؟

چند احادیث کے اشکالات کی توضیح

سوال: ایک عرصہ سے دو تین چیزیں میرے دماغ پر بوجھ بن رہی ہیں۔ اس لیے مجھے آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے۔

(۱) بخاری شریف کی تیسری حدیث میں نزول وحی اور حضور ﷺ کی کیفیات کا ذکر ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ نزول وحی کی ابتدا میں آنحضرتﷺ پر اضطراب طاری ہوگیا تھا۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ حضورﷺ گھبرائے کیوں تھے؟ یہ بات کہ یہ رسالت کی ذمہ داریوں کے احساس کا نتیجہ تھا، دل کو مطمئن نہیں کرتی ورنہ ورقہ کے پاس لے جانے کے کوئی معنی نہیں بنتے۔ بعض لوگوں کا یہ اشتباہ کہ حضورﷺ پر اس وقت اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا، کچھ با معنی بات نہیں معلوم ہوتی۔ اگر یہ صحیح ہے تو جن کے پاس آپ یہ معاملہ لے کر گئے تھے کیا وہ ان کیفیات کے پس منظر کو حضورﷺ سے زیادہ جانتے تھے۔ ورقہ کے یہ الفاظ ’’ھٰذا النَّامُوسُ الَّذِیْ اَنْزَلَ اللہ عَلٰی مُوْسٰی‘‘ اس امر کے مؤید ہیں کہ واقعی حضورﷺ پر اپنی رسالت کا کماحقہ وضوح نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد صورت حال مزید مخدوش ہوجاتی ہے۔ صحیح صورت حال کیا ہے؟

قرآن و حدیث کا باہمی تعلق:

سوال: رسائل و مسائل حصہ دوم، صفحہ ۶۲۔ ۶۳ پیرا گراف میں آپ نے لکھا ہے:

’’قرآن میں اگر کوئی حکم عموم کے انداز میں بیان ہوا ہو اور حدیث یہ بتائے کہ اس حکم عام کا اطلاق کن خاص صورتوں پر ہوگا تو یہ قرآن کے حکم کی نفی نہیں ہے بلکہ اس کی تشریح ہے۔ اس تشریح کو اگر آپ قرآن کے خلاف ٹھہرا کر رد کردیں تو اس سے بے شمار قباحتیں پیدا ہوں گی جن کی مثالیں آپ کے سامنے پیش کروں تو آپ خود مان جائیں گے کہ فی الواقع یہ اصرار غلطی ہے‘‘۔

اگر آپ اس عبارت کے آخر میں چند مثالیں اس امر کی پیش فرماتے تو مستفسر کو مزید تشفی ہوجاتی۔ مجھے چند ایسی امثلہ کی ضرورت ہے جس سے ایک منکر حدیث مان جائے کہ ایسا کرنے سے (تشریح کو قرآن کے خلاف ٹھہرانے سے) فی الواقع قباحتیں پیدا ہوتی ہیں۔ بہتر ہوگا اگر آپ چار امثلہ مہیا فرمادیں۔

احادیث کی تاویل کا صحیح طریقہ

سوال: ایک مضمون میں ذیل کی حدیث نقل ہوئی ہے:

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضئہ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگوں نے گناہ نہ کیا تو تم لوگوں کو اللہ تعالیٰ اٹھالے گا اور ایک دوسری قوم لے آئے گا جو گناہ کرے گی اور مغفرت چاہے گی۔ پس اللہ اس کو بخش دے گا۔‘‘

ناچیز کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ حدیث شاید موضوع ہوگی جو بد اعمالیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے بنا لی گئی ہوگی۔ بظاہر اس میں جتنی اہمیت استغفار کی ہے، اس سے کہیں زیادہ گناہ کی تحریص معلوم ہوتی ہے۔ کیا یہ حدیث صحیح ہے اور اس کی کوئی معقول توجیہ ممکن ہے؟

زکوٰۃ اور مسئلہ تملیک:

سوال: علمائے حنفیہ بالعموم ادائیگی زکوٰۃ کے لیے تملیک شخصی کو لازم قرار دیتے ہیں۔ اس لیے ان کا فتویٰ یہ ہے کہ حیلۂ تملیک کے بغیر رفاہِ عامہ کے اداروں مثلاً مدارس اور شفا خانوں وغیرہ کے اجتماعی مصارف میں زکوٰۃ دینا صحیح نہیں۔ اس پر ایک مستفسر نے بعض اشکالات و سوالات علما کرام کی خدمت میں پیش کیے تھے جو ترجمان القرآن محرم ۱۳۷۴ھ میں بھی شائع ہوئے تھے۔ سائل کا بنیادی اعتراض یہ تھا کہ فقہ حنفی میں تملیک کی جو شرط لگائی جاتی ہے اور اس بنا پر جو فروعی احکام بیان کیے جاتے ہیں، وہ صرف اسی صورت میں قابل عمل ہیں جب کہ لوگ انفرادی طور پر زکوٰۃ نکال کر انفرادی طور پر ہی اسے خرچ کریں۔ لیکن اجتماعی طورپر مثلاً اسلامی حکومت کے ذریعے سے اگر زکوٰۃ کی وصولی و صرف کا انتظام کیا جائے تو شرط تملیک اپنے جزئی احکام کے ساتھ ایک دن بھی نہیں چل سکتی۔ کیوں کہ زکوٰۃ کے نظام کو وسیع اور مستحکم کرتے ہوئے زکوٰۃ کی تقسیم و تنظیم، حمل و نقل اور متعلقہ سازو سامان کی فراہمی میں بے شمار شکلیں ایسی پیدا ہوں گی جن میں شرط تملیک کی پابندی لا محالہ ہوگی۔ ان سوالات کا جو جواب دیا گیا تھا وہ درج ذیل ہے۔