احادیث دجال بعض اقوال رسول اللہ ﷺ کا مبنی بروحی نہ ہونا

سوال: آپ نے تفہیمات حصہ اول، صفحہ ۲۲۱ پر سورۃ نجم کی ابتدائی آیت (4)مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى (2) وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى (3) إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَى کی تشریح کرتے ہوئے تحریر فرمایا ہے:

’’ان آیات میں کوئی چیز ایسی نہیں ہے جسکی بنا پر نطق رسول کو صرف قرآن کے ساتھ مخصوص کیا جاسکتا ہو۔ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے، آیات مذکورہ کی بنا پر وحی ہوگی‘‘۔

پھر رسائل و مسائل صفحہ ۵۵ پر دجال کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ہے:

’’دجال کے متعلق جتنی احادیث نبی ﷺ سے مروی ہیں، ان کے مضمون پر مجموعی نظر ڈالنے سے ہی بات صاف واضح ہوجاتی ہے کہ حضور ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس معاملہ میں جو علم ملا تھا، وہ صرف اس حد تک تھا کہ ایک بڑا دجال ظاہر ہونے والا ہے اور اس کی یہ اور یہ صفات ہوں گی اور وہ ان خصوصیات کا حامل ہوگا۔ لیکن یہ آپ کو نہیں بتایا گیا کہ وہ کب ظاہر ہوگا، کہاں ظاہر ہوگا، اور یہ کہ آیا وہ آپﷺ کے عہد میں پیدا ہوچکا ہے یا آپﷺ کے بعد کسی بعید زمانہ میں پیدا ہونے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ظہور دجال اور صفات و خصوصیات دجال کے متعلق حضور پاک ﷺ کے جو ارشادات ہیں، ان میں کوئی تعارض نہیں ہے۔ کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں۔ بخلاف اس کے ظہور دجال کے زمانہ و مقام کے بارے میں روایات باہم متعارض ہیں جن میں تطبیق کی کوئی صورت ممکن نہیں ہے کیوں کہ وہ علم وحی پر مبنی نہیں ہیں‘‘۔

اسی سلسلے میں آگے چل کر آپ فرماتے ہیں:

’’یہ تردّد اوّل تو خود ظاہر کرتا ہے کہ یہ باتیں آپ نے علم وحی کی بنا پر نہیں فرمائی تھیں بلکہ اپنے گمان کی بنا پر فرمائی تھیں‘‘۔

آپ کی مندرجہ بالا تحریروں سے صاف واضح ہے کہ یہ باہم متناقص ہیں۔ پہلی تحریر میں تو آپ نے فرمایا ہے کہ ہر وہ بات جس پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے علم وحی پر مبنی ہوگی۔ لیکن دوسری تحریروں میں آپ بتاتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ کے بعض ارشادات ایسے بھی ہیں جو علم وحی پر مبنی نہیں ہیں۔ مثلاً ظہور دجال کے زمانہ و مقام کے بارے میں آپ کے ارشادات۔ حالاں کہ ان ارشادات پر نطق رسول کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔

نیز مندرجہ ذیل سوالات بھی جواب طلب ہیں:

(۱) رسول اللہ ﷺ کے جن ارشادات کی تائید قرآن مجید میں موجود نہیں، ان کے بارے میں یہ فیصلہ کیسے کیا جاسکتا ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں یا نہیں۔ اگر آپ کا یہ جواب ہو، جیسا کہ آپ کی مندرجہ ذیل تحریر سے ظاہر ہے کہ جو ارشادات نبویؐ، باہم متعارض نہیں ہیں، وہ مبنی بر علم وحی ہیں اور جو باہم متعارض ہیں وہ مبنی بر علم وحی نہیں ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ کتب احادیث میں ایسی کئی متعارض احادیث ہیں جن کے بارے میں آئمہ امت کا عقیدہ ہے کہ وہ علم وحی پر مبنی ہیں اور جن سے انہوں نے مسائل کا استنباط بھی کیا ہے۔ ان کے بارے میں آپ کا کیا فیصلہ ہے؟

(۲) آپ کا یہ قول ’’آپ (رسول اللہ ﷺ) کا گمان وہ چیز نہیں جس کے صحیح نہ ثابت ہونے سے آپ ؐ کی نبوت پر حرف آتا ہو، میرے نزدیک قابل قبول نہیں کیوں کہ غلط گمانوں میں الجھنا ایک فلسفی کا کام تو ہوسکتا ہے لیکن نبی کا منصب اس سے بدرجہا اعلیٰ، بلند اور پاک ہے۔ اگر ہم یہ عقیدہ رکھیں کہ رسول اللہﷺ کا فلاں گمان غلط تھا تو گویا ہم نے مان لیا کہ آپؐ فلاں موقع پر ہدایت خداو ندی حاصل نہ کرکے گمراہ ہوگئے۔ اور لہٰذا آپؐ آیت مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَى کے صحیح مصداق نہ تھے۔

جواب: میں نے آیت وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْهَوَى کا جو مفہوم تفہیمات حصہ اول میں بیان کیا ہے، اس کی پوری تفصیل آپ نے دیکھنے کی زحمت نہیں اٹھائی اور صرف ایک فقرے پر اکتفا فرما لیا۔ اسی وجہ سے آپ کو اس میں اور میری بعد کی ایک تحریر میں تناقص محسوس ہوا۔ براہ کرم اسی کتاب کے صفحات ۸۵ تا ۸۹، ۲۲۰ تا ۲۲۲، ۲۳۸ تا ۲۴۰ اور ۲۵۸ تا ۲۵۹ بغور ملاحظہ فرمالیجیے۔ آپ کے سامنے میرا پورا مدعا آجائے گا۔ آپ کو یہ بھی معلوم ہوجائے گا کہ میرے نزدیک نبیﷺ کے تمام اقوال و افعال میں وحی خفی کی کار فرمائی کس معنی میں تھی اور یہ بھی کہ حضور ﷺ کی بعض باتوں کے وحی پر مبنی ہونے اور بعض کے نہیں ہونے کا مطلب کیا ہے۔

اس کے بعد ضرورت تو نہیں رہتی کہ آپ کے ان سوالات کا جواب دیا جائے جو آپ نے آخر میں کیے ہیں، لیکن میں صرف اس لیے ان کا جواب حاضر کیے دیتا ہوں کہ پھر کوئی الجھن باقی نہ رہ جائے۔

(۱) میں نے اپنی تحریر میں کہیں یہ نہیں کہا کہ ارشادات نبوی ؐ کے مبنی بر وحی ہونے یا نہ ہونے کے لیے تعراض کا عدم اور وجود کوئی واحد یا حتمی قرینہ ہے اور نہ میری تحریر کا منشا یہ ہے کہ جن اقوال مبارکہ میں کسی قسم کا تعارض یا اختلاف نظر آئے، میں ان کے مبنی بر وحی ہونے کا انکار کرتا ہوں۔ بعض اوقات ایسے ارشادات میں بھی بظاہر اختلاف نظر آتا ہے جن کا دیگر قرآئن کی بنا پر مبنی بر وحی ہونا واضح ہے۔ مگر ایسی صورت میں اختلاف کو تاویل و تطبیق سے با آسانی رفع کیا جاسکتا ہے یا ان میں ایک کا ناسخ اور دوسرے کا منسوخ ہونا ثابت ہو جاتا ہے۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ بعض روایات میں تعارض کا وجود مطلقاً نہ ہو مگر دوسرے قرآئن ان کا علی سبیل الرائے ہونا بالکل واضح کریں۔ میں نے جو بات کہی ہے وہ صرف اتنی ہے کہ مبنی بر وحی ارشادات ناقابل توجیہ تعارض سے پاک ہوتے ہیں اور جو ارشادات وحی پر مبنی نہیں ہوتے، ان میں منجملہ دیگر قرائن کے بعض اوقات ایک قرینہ تعارض کا بھی پایا جاتا ہے۔

(۲) یہ امر کہ حضور پاک ﷺ کی کون سی بات ظن یا ذاتی رائے پر مبنی ہے اور کون سی اللہ تعالیٰ کے دیے ہوئے علم پر، اس کا اظہار بسا اوقات حضورﷺ کی اپنی تصریحات سے ہوجاتا ہے، اور بسا اوقات دوسرے قرآئن اس پر دلالت کرتے ہیں۔ مثلاً یہی احادیث جو دجال کے متعلق وارد ہوئی ہیں، ان میں یہ بات حضور ﷺ کی اپنی ہی تصریحات سے معلوم ہوتی ہے کہ آپ کو اس کے مقام، زمانے اور شخصیت کے متعلق اللہ تعالیٰ کی طرف سے علم نہیں دیا گیا تھا۔ ابن صیاد کے متعلق آپ کو اتنا قوی شبہ تھا کہ حضرت عمر ؓ نے آپ ﷺ کی موجودگی میں قسم کھا کر اسے دجال قرار دیا اور آپ ﷺ نے اس کی تردید نہ کی، مگر جب انہوں نے اس کے قتل کی اجازت مانگی تو آپﷺ نے فرمایا:

ان یکنہ فلن تسلط علیہ وان لم یکنہُ فلا خیر لک فی قتلہ۔

’’اگر یہ وہی ہے تو تم اس پر قابو نہ پاسکو گے اور اگر یہ وہ نہیں ہے تو اس کے قتل میں تمہارے لیے کوئی بھلائی نہیں‘‘ (مسلم۔ ذکر ابن صیاد)

ایک اور حدیث میں حضورﷺ نے دجال کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

ان یخرج وانا فیکم فانا حجیجہ دونکم ان یخرج ولست فیکم فامرؤٌ حجیج نفسہ واللہ خلیفتی علی کل مسلم۔

’’اگر وہ میری موجودگی میں نکلے تو تمہاری طرف سے میں اس کا مقابلہ کروں گا، اور اگر وہ ایسے زمانے میں نکلے جب میں تمہارے درمیان موجود نہ ہوں تو ہر آدمی اپنی طرف سے خود ہی اس کا مقابلہ کرے اور اللہ تعالیٰ میرے پیچھے ہر مسلم کا نگہبان ہے‘‘۔ (مسلم۔ ذکر الدجال)

تمیم دارمی نے اپنے ایک بحری سفر میں دجال سے ملاقات کا قصہ جب آپ ﷺ کو سنایا تو آپ ﷺ نے تصدیق یا تکذیب نہیں فرمائی بلکہ یہ فرمایا:

اعجبنی حدیث تمیم انہ وافق الذی کنت احدثکم عنہُ

’’مجھے تمیم کا بیان پسند آیا، وہ موافقت رکھتا ہے اس بات سے جو میں دجال کے متعلق تم سے بیان کرتا تھا‘‘۔

پھر آپﷺ نے اس پر مزید اضافہ کرتے ہوئے فرمایا:

الا انہ فی بحر الشام اوبحر الیمن، لابل من قبل المشرق۔

’’مگر وہ بحر شام یا بحر یمن میں ہے۔ نہیں بلکہ وہ مشرق کی جانب ہے‘‘ (مسلم۔ قصہ الجساسہ)

یہ سب روایات اپنا مفہوم خود واضح کر رہی ہیں۔

(۳) دوسرے سوال میں آپ نے ایک بڑی سخت بات کہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ ایسی بات کہنے سے پہلے کتاب و سنت سے اس کی تحقیق کر لیتے۔ قرآن مجید حضرت یونس علیہ السلام کے متعلق کہتا ہے:

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِالانبیاء87:21

’’اور مچھلی والا جب کہ وہ غصے میں آکر چلا گیا اور اس نے گمان کیا کہ ہم اسے تنگ نہ پکڑیں گے‘‘۔

یہاں ایک نبی کے لیے اللہ تعالیٰ خود ظن کا لفظ استعمال کر رہا ہے اور یہ بھی اللہ تعالیٰ ہی نے قرآن میں بتادیا ہے کہ ان کا یہ ظن صحیح نہ تھا۔

صحیح مسلم میں کتاب الفضائل کے تحت ایک مستقل باب ہے جس کا عنوان ہے: باب وجوب امتثال ماقالہ شرعاً دون ماذکرہ صلی اللہ علیہ وسلم من معایش الدنیا علی سبیل الرأی۔ ’’باب اس امر کے بیان میں کہ نبی ﷺ نے شرعی طریقہ پر جو کچھ فرمایا ہو، اس کا امتثال واجب ہے نہ کہ اس بات کا جسے آپ نے دنیوی معاملات میں اپنی رائے کے طور پر بیان کیا ہو۔‘‘

اس باب میں امام موصوف حضرت طلحہؓ، حضرت رافع ؓ بن خدیج، حضرت عائشہ ؓ، حضرت انسؓ کے حوالے سے یہ قصہ نقل کرتے ہیں کہ جب حضورﷺ مدینے تشریف لائے تو آپﷺ نے دیکھا کہ اہل مدینہ مادہ کھجور میں نر کھجور کا پیوند لگاتے ہیں۔

آپؐ نے فرمایا: ما اظنی یغنی ذالک شیئًا۔

’’میں نہیں سمجھتا اس میں کوئی فائدہ ہے‘‘۔

لعلکم لو لم تفعلوا کان خیرًا۔

’’اگر تم ایسا نہ کرو تو شاید اچھا ہو‘‘۔

لوگوں نے سنا تو ایسا کرنا چھوڑ دیا۔ مگر اس سال پھل اچھا نہ آیا۔ اس پر آپؐ نے فرمایا:

ان کان ینفعکم ذالک فلیصنعوہ فانی انما ظننت ظنا فلا تواخذونی بالظن ولٰکن اذا حدثتکم عن اللہ شیئًا فخذوا بہ۔ انی لم اکذب علی اللہ۔

’’اگر لوگوں کو یہ کام نفع دیتا ہے تو وہ ضرور اسے کریں۔ میں نے تو ظن کی بنا پر یہ بات کہی تھی۔ تم ظن پر مجھ سے مواخذہ نہ کرو۔ البتہ جب میں اللہ کی طرف سے کوئی بات تم سے کہوں تو اسے لے لو کیوں کہ میں اللہ تعالیٰ پر کبھی جھوٹ نہیں بولا ہوں‘‘۔

یہ اللہ کے رسول کی اپنی تصریح ہے، اور اوپر اللہ تعالیٰ کی تصریح بھی آپ دیکھ چکے ہیں۔ اب آپ خود فیصلہ فرمائیں کہ آپ کا نظریہ صحیح ہے یا اللہ اور اس کے رسول کا بیان؟

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۵ھ، جنوری ۱۹۵۶ء)