یہود کی ذلت و مسکنت

سوال: میرے ذہن میں دو سوال بار بار اٹھتے ہیں۔ ایک یہ کہ ضُرِبَتْ عَلَیْھِمْ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃ ُ جو یہود کے بارے میں نازل ہوا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اگر اس کا مطلب وہی ہے جو معروف ہے تو فلسطین میں یہود کی سلطنت کے کیا معنی؟ میری سمجھ میں اس کی تفسیر انشراحی کیفیت کے ساتھ نہ آسکی۔ اگر اس کے معنی یہ لیے جائیں کہ نزول قرآن پاک کے زمانے میں یہود ایسے ہی تھے تو پھر مفسرین نے دائمی ذلت و مسکنت میں کیوں بحثیں فرمائی ہیں۔ بہرحال یہود کے موجودہ اقتدار و تسلط کو دیکھ کر ذلت و مسکنت کا واضح مفہوم سمجھ میں نہیں آیا۔

جواب: ضُرِبَتْ عَلَیْھِمْ الذِّلَّۃُ وَالْمَسْکَنَۃُ کے بارے میں میرا بھی یہ عقیدہ ہے کہ یہ تا قیامت ہے۔ اس میں فلسطین کی موجودہ اسرائیلی حکومت بن جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اول تو آیت تمام یہودی ملت کے بارے میں بحیثیت مجموعی ایک حکم لگاتی ہے، اس کے ایک ایک فرد پر یا افراد کے چھوٹے چھوٹے مجموعوں پر اس کا اطلاق نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ اس کیفیت کا بیان ہے جو اللہ تعالیٰ کا فیصلہ صادر ہونے کے بعد سے قیامت تک ان پر من حیث المجموع دنیا بھر میں طاری رہے گی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس طویل مدت کے دوران میں کبھی کسی مختصر عرصے کے لیے بھی زمین کے کسی گوشے میں انہیں قوت و اقتدار نصیب نہ ہو۔ دراصل اس آیت کو سمجھنے کے لیے یہودی قوم کی اس تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد سے آج تک گزری ہے۔ اس تاریخ کو ، اور ان کی موجودہ حالت کو جو بحیثیت مجموعی دنیا میں آج بھی پائی جاتی ہے، بغور دیکھا جائے تو قرآن مجید کے ان ارشادات کی پوری تصدیق ہوجاتی ہے۔

وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ(الاعراف۷۔ ۱۶۷)

’’اور جب اعلان کردیا تیرے رب نے کہ قیامت تک ان پر کسی نہ کسی ایسے شخص کو مسلط کرتا رہے گا جو ان کو سخت عذاب دے گا‘‘۔

ضُرِبَتْ عَلَيْهِمُ الذِّلَّةُ أَيْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّهِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ (سورہ آل عمران3۔ ۱۱۶)

’’ان پر ذلت تھوپ دی گئی جہاں بھی وہ پائے جائیں بجز اس کے کہ کہیں ان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور انسانوں کی طرف سے تحفظ کی ضمانت مل جائے‘‘۔

پوری تاریخ یہی بتاتی ہے کہ وقتاً فوقتاً دنیا کے کسی گوشے میں کوئی نہ کوئی طاقت ایسی اٹھتی رہی ہے جو یہودیوں کو خوب مارتی کھدیڑتی رہی اور جہاں کہیں بھی وہ بخیریت رہے ہیں، اپنے بل بوتے پر نہیں بلکہ اللہ کے دیے ہوئے مواقع کی بنا پر کسی دوسرے ہی انسانی گروہ کی حمایت میں آجانے کی وجہ سے رہے ہیں۔ موجودہ یہودی ریاست بھی برطانیہ اور امریکہ کی حمایت ہی میں قائم ہوئی ہے اور باقی ہے۔ یہ حمایت جس وقت بھی ہٹے گی، اس ریاست کا حشر دنیا دیکھ لے گی۔ میرا خیال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس قوم کو فنا نہیں کرنا چاہتا بلکہ نمونہ عبرت بنا کر باقی رکھنا چاہتا ہے۔ اگر اس پر مسلسل عذاب کا کوڑا ہی برستا رہتا تو یہ کبھی کی فنا ہوچکی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے اس کے باقی رہنے کا یہ انتظام کردیا ہے کہ کہیں وہ پیٹی جاتی ہے تو کہیں اسے پناہ بھی مل جاتی ہے۔ اس طرح ڈھائی ہزار برس سے لَا یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْییٰ کے مصداق اس دنیا میں جیے جا رہی ہے۔

(ترجمان القرآن۔ اپریل ۱۹۶۲)