مسلم اور مومن کے معنی

سوال: بعض حضرات اسلام اور ایمان کے الفاظ کو اصطلاحی معنوں میں ایک دوسرے کے بالمقابل استعمال کرتے ہیں۔ وہ اسلام سے مراد محض ظاہری اطاعت لیتے ہیں جس کی پشت پر ایمان موجود نہ ہو اور ایمان سے مراد حقیقی اور قلبی ایمان لیتے ہیں۔ ان کا استدلال سورہ حجرات کی اس آیت (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا…) سے ہے، جس میں عرب بدوؤں کو مومن کی بجائے مسلم قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوا ہے۔ بعض فرقے اس استدلال کی آڑ میں اپنے آپ کو مومن اور عامۃ المسلمین کو محض مسلم قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ خلفائے راشدین میں سے اصحاب ثلاثہ کو بھی مومن کی بجائے مسلم کہہ کر در پردہ ان کے ایمان پر چوٹ کی جاتی ہے۔ براہ کرم مذکورہ بالا آیت کی صحیح تاویل اور مومن و مسلم کی تشریح بیان فرمائیں۔

مسئلہ حیات النبیﷺ

سوال: آج کل دینی حلقوں کی فضا میں حیات النبیﷺ کا مسئلہ ہر وقت گونجاتا رہتا ہے اور علمائے کرام کے نزدیک موضوع سخن بنا ہوا ہے۔ شروع میں تو فریقین اپنی اپنی تائید میں علمی دلائل دے رہے تھے مگر اب تکفیر بازی، طعن و تشنیع اور پگڑی اچھالنے تک نوبت پہنچ گئی ہے۔ الاما شاء اللہ۔

بعض مساجد میں بآواز بلند کہا جارہا ہے کہ انبیاء اسی طرح زندہ ہیں جس طرح کہ دنیا میں زندہ تھے اور حیات النبیﷺ کا منکر کافر ہے۔ بعض دوسرے حضرات حیات جسمانی کے عقیدے کو مشرکانہ بلکہ منبع شرک قرار دے رہے ہیں۔ جہاں تک فضائل کا تعلق ہوتا ہے وہاں ادنیٰ سے ادنیٰ بات جو قرآن کریم اور خبر متواتر کے خلاف نہ ہو، مانی جاسکتی ہے۔ لیکن جب بات عقیدہ کی حد تک پہنچ جائے، تو وہاں قطعی الثبوت دلائل کی ضرورت ہوتی ہے۔ براہ کرم میرے دل کی تسلی اور تشفی کے لیے حیات النبیﷺ پر روشنی ڈالیں۔

تصوف سے متعلق چند تصریحات

سوال: میں دعوت الی اللہ اور اقامت دین اللہ کے کام میں آپ کا ایک خیر خواہ ہوں، اور مل کر کام کرنے کی ضرورت کا احساس رکھتا ہوں۔ میں آپ کی طرف سے لوگوں کے اس اعتراض کی مدافعت کرتا رہتا ہوں کہ آپ تصوف کو نہیں مانتے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ آپ نے میرے ایک سوال کا جواب دیا تھا کہ میرے کام میں اہل تصوف اور غیر اہل تصوف سب کی شرکت کی ضرورت اور گنجائش ہے۔ باقی میں جب صوفی نہیں ہو تو مکار نہیں بن سکتا کہ خواہ مخواہ تصوف کا دعویٰ کروں۔ آپ کا یہ جواب سیدھا ساہ اور اچھا تھا مگر قلم کی لغزش انسان سے ہوسکتی ہے۔ آپ اپنے رسالے ہدایات (صفحہ ۳۱) میں لکھتے ہیں:

”ذکر الٰہی جو زندی کے تمام احوال میں جاری رہنا چاہیے۔ اس کے وہ طریقے صحیح نہیں ہیں، جو بعد کے ادوار میں صوفیاء کے مختلف گروہوں نے خود ایجاد کیے یا دوسروں سے لیے۔“

علم غیب، حاضر و ناظر اور سجود لغیر اللہ:

سوال: تفہیم القرآن زیر مطالعہ ہے۔ شرک کے مسئلہ پر ذہن الجھ گیا ہے۔ براہ کرم رہنمائی فرمائیں۔ تفہیم القرآن کے بغور مطالعہ سے یہ امر ذہن نشین ہوجاتا ہے کہ خدا وند تعالیٰ کی مخصوص صفات میں عالم الغیب ہونا اور سمیع و بصیر ہونا (جس کے تحت ہمارے مروجہ الفاظ حاضر و ناظر بھی آجاتے ہیں) بھی شامل ہیں۔ خدا کے سوا کسی کو بھی ان صفات سے متصف سمجھنا شرک ہے اور حقوق میں سجدہ و رکوع وغیرہ بھی ذات باری تعالیٰ سے مختص ہیں۔ شرک کو خداوند تعالیٰ نے جرم عظیم اور ناقابل تلافی گناہ قرار دیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے جرم کا وہ کسی کو حکم نہیں دے سکتا۔ مگر فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیا۔ اسی طرح کوئی نبی نہ تو شرک کرتا ہے، نہ کرواتا ہے۔ مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے سامنے ان کے بھائیوں اور والدین نے سجدہ کیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سجدہ غیر اللہ کے لیے شرک ہے تو مندرجہ بالا واقعات کی کیا توجیہ ہوگی؟

لفظ ’’مشرک‘‘ کا اصطلاحی استعمال

سوال: آپ کے رسالہ ’’ترجمان القرآن‘‘ بابت ماہ مارچ ۱۹۶۲ء کا باب ’’رسائل و مسائل‘‘ کا مطالعہ کیا۔ مضمون کی آخری سطور سے مجھے اختلاف ہے۔ لہٰذا رفع اختلاف اور جستجوئے حق کے جذبہ کے تحت سطور ذیل رقم کر رہا ہوں۔

کتاب و سنت کی واضح تصریحات سے مترشح ہوتا ہے کہ عالم ما کان وما یکون اور ’’حاضر و ناظر ہونا‘‘ اللہ جل شانہ کی مختص صفات ہیں۔ بنا بریں جو مسلمان ان صفات مخصوصہ کا وجود حضرت محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ یا کسی اور نبی یا ولی میں تسلیم کرلے تو کتاب و سنت کے قطعی فیصلے کی رو سے وہ شرک کا مرتکب متصور ہوگا اور اس پر لفظ ’’مشرک‘‘ کا عدم اطلاق کتاب و سنت کے احکام سے رو گردانی کے مترادف ہوگا۔ ایسے شخص کو مشرکین عرب سے تشبیہ دی جائے، تو یہ تشدد نہیں بلکہ عین مقتضائے انصاف ہے۔

تعداد رکعات تراویح:

سوال: آپ کا ایک جواب دربارۂ تراویح ہفت روزہ ’’ایشیا‘‘ لاہور مورخہ ۶۲۔۳۔ ۷ میں شائع ہوا ہے جسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے مسئلے کی کوئی عالمانہ تحقیق نہیں کی، بلکہ ایک چلتی سی بات سمجھوتہ کرانے والوں کی سی کردی ہے جس سے مسئلہ بجائے سلجھنے کے الجھ گیا ہے۔ ایک طرف تو آپ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کی تراویح آٹھ رکعت ہی تھیں۔ دوسری طرف آپ فرماتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے بیس جاری کیں اور تمام صحابہ کرامؓ نے اس پر اتفاق کیا اور بعد کے خلفاء نے اسی کو دستور بنایا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب سنت نبوی آٹھ ہی ہے تو پھر حضرت عمرؓ نے بیس کہاں سے لے لیں اور کیونکر ان کو مقرر کردیا۔ تمام صحابہ کرامؓ و خلفا نے سنت نبویﷺ کو نظرانداز کرکے بیس پر کیسے اجماع کرلیا۔ کیا یہ ممکن ہے کہ صحابہ ایسی جسارت کریں۔ (مولانا یا تو آٹھ سنت نبوی نہیں یا پھر بیس پر اجماع نہیں)۔