مسئلہ سود کے متعلق چند اشکالات

سوال: میں معاشیات کا طالب علم ہوں۔ اس لیے اسلامی معاشیات کے سلسلے میں مجھے جس قدر کتابیں مل سکی ہیں، میں نے ان کا مطالعہ کیا ہے۔ ’’سود‘‘ کے بعض ابواب میں نے کئی کئی بار پڑھے ہیں۔ لیکن بعض چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔

۱۔ زیادہ سے زیادہ صَرف کرو کی پالیسی:

کچھ دن ہوئے ہیں میں نے آپ کو یہ سوال لکھا تھا کہ آپ خرچ پر جس قدر زور دیتے ہیں، اس کا نتیجہ صرف یہی ہوگا کہ اسلامی ریاست میں سرمایہ کی شدید کمی ہو جائے گی اور ملک کی صنعتی ترقی رک جائے گی۔ اس کا جواب آپ کی طرف سے یہ دیا گیا تھا کہ سود میں اس کا جواب موجود ہے۔ متعلق ابواب کو دوبارہ پڑھا جائے۔ میں نے کئی بار ان ابواب کو پڑھا ہے اور میرا اعتراض قائم ہے۔ لہٰذا میں آپ کے پیش کردہ دلائل کو اپنے الفاظ میں بیان کرتا ہوں اور پھر اپنا اعتراض پیش کرتا ہوں۔

ترجیحی حصص

سوال: بندہ ایک ٹیکسٹائل مل کا حصہ دار ہے۔ ہر سال منافع کی رقم وہی آتی رہی ہے جو پہلے سال آئی تھی۔ اس دفعہ میں نے مل مذکور کے دفتر سے معلوم کیا کہ کیا وجہ ہے کہ منافع ایک ہی رقم پر موقوف ہے۔ جواب ملا ’’آپ کے ترجیحی حصص ہیں، ترجیحی حصص پر خسارہ کا کوئی امکان نہیں۔ ان پر ہمیشہ ایک ہی مقررہ منافع ملتا رہے گا‘‘۔ میرے خیال میں یہ منافع سود ہے۔ براہ نوازش اپنی رائے سے مطلع فرمائیں تاکہ سود ہونے کی صورت میں حصص فروخت کر کے جان چھڑاؤں۔

غیر مسلم ممالک سے اقتصادی اور صنعتی قرضے

سوال: کیا اسلامی حکومت موجودہ دور میں جب کہ ایک ملک دوسرے ملک سے قطع تعلق کر کے ترقی نہیں کر سکتا، غیر ممالک سے متعلق اقتصادی، فوجی، ٹیکنیکل امداد یا بین الاقوامی بنک سے شرح سود پر قرض لینا بالکل حرام قرار دے گی؟ پھر مادی، صنعتی زراعتی و سائنسی ترقی وغیرہ کی جو عظیم خلیج مغربی ترقی یافتہ (Advanced) ممالک اور مشرق وسطیٰ بالخصوص اسلامی ممالک یا اس ایٹمی دور میں (Have) اور (Have not) کے درمیان حائل ہے کس طرح پر ہو سکے گی؟ نیز کیا اندرون ملک تمام بکنگ و انشورنس سسٹم ترک کرنے کا حکم دیا جائے گا؟ سود، پگڑی، منافع و ربح اور گڈول (Goodwill) اور خرید و فروخت میں دلالی و کمیشن کے لیے کون سی اجتہادی راہ نکالی جاسکتی ہے؟ کیا اسلامی ممالک آپس میں سود، منافع، ربح وغیرہ پر کسی صورت میں قرض لین دین کرسکتے ہیں۔