سرکاری نرخ بندی کے سلسلہ میں مزید ایک سوال

سوال: آڑھت کے سلسلے میں ہم کو گندم خریدنی پڑتی ہے۔ گندم کی خریدو فروخت کے لیے اس وقت کنٹرول ریٹ مقرر ہے، لیکن اس مقررہ نرخ پر گندم ملنی ممکن نہیں ہے۔ منڈی کے تمام بیوپاری قدرے گراں نرخ سے خریدو فروخت کرتے ہیں مگر رجسٹروں میں اندراج کنٹرول ریٹ کے مطابق کرتے ہیں۔ دکاندار خریدو فروخت میں کنٹرول ریٹ سے زائد جو قیمت لیتا ہے اس کا حساب دکاندار کے کھاتوں سے نہیں بلکہ اسکی جیب سے متعلق ہوتا ہے۔ اب آپ فرمائیے کہ کیا اپنے استعمال کے لیے اور تجارت کے لیے اس ڈھنگ پر گندم خریدنا جائز ہے؟ نیز یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ اگر اس قسم کا کوئی معاملہ عدالت کی گرفت میں آجائے جس کا ہر وقت امکان ہے، تو کیا یہ جائز ہوگا کہ عدالت میں بھی کھاتے کے جھوٹے اندراجات کے مطابق بیان دیا جائے؟ واضح رہے کہ سچ بولنے سے ڈیفنس آف انڈیا رولز کے تحت عدالت مقررہ سزا نافذ کردے گی۔

بِکری ٹیکس

سوال: میں بزازی کا کاروبار کرتا ہوں۔ یکم اپریل 48ء سے ہم پر بکری ٹیکس لگایا گیا ہے اور ہمیں اختیار دیا گیا ہے کہ یہ ٹیکس اپنے گاہکوں سے وصول کر لیں۔ لیکن عام دکان دار نہ تو گاہکوں سے یہ ٹیکس وصول کرتے ہیں اور نہ خود ادا کرتے ہیں۔ اس سے بچنے کے لیے انہوں نے یہ طریقہ اختیار کیا ہے کہ اپنی روزمرہ کی اصل فروخت کا حساب وہ اپنے باقاعدہ رجسٹروں میں درج ہی نہیں کرتے۔ حکومت کے کارندوں کو وہ اپنی فرضی رجسٹر دکھاتے ہیں اور جب ان کے رجسٹروں پر کسی شک کا اظہار کیا جاتا ہے تو رشوت سے منہ بند کردیتے ہیں۔ دوسرے دکانداروں کے لیے تو یہ جعل اور رشوت آسان ہے مگر ایک ایمان دار تاجر کیا کرے؟ وہ خریداروں سے ٹیکس وصول کرتا ہے تو اس کا مال فروخت نہیں ہوتا کیوں کہ پاس ہی ایک ایسا دکان دار بیٹھا ہے جو ٹیکس لیے بغیر اس کے ہاتھ مال فروخت کرتا ہے۔ اور اگر وہ خریدار سے ٹیکس وصول نہیں کرتا تو اسے اپنے منافع میں سے یہ ٹیکس دینا پڑتا ہے۔ اس صورت میں بسا اوقات اسے کچھ نہیں بچتا بلکہ بعض چیزوں میں تو نفع اتنا کم ہوتا ہے کہ پورا نفع دے دینے کے بعد تاجر کو کچھ اپنی گرہ سے بھی دینا پڑجاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ہم تجارت چھوڑ دیں یا فرضی حسابات رکھنے شروع کردیں؟

مزید ستم ظریفی یہ ہے کہ ہم جو صحیح حسابات رکھتے ہیں انہیں بھی سرکاری کارندے فرضی سمجھتے ہیں۔ کیوں کہ جہاں99 فیصدی تاجروں کے حسابات فرضی ہوں وہاں ایک فیصدی کے متعلق انہیں یقین نہیں آتا کہ اس کا حساب صحیح ہوگا۔ اس لیے وہ اپنے قاعدے کے مطابق ہماری بکری کا اندازہ بھی زیادہ لگا کر ہم ے سے زیادہ ٹیکس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اب کیا ہم اس سے بچنے کے لیے انہیں رشوت دیں؟ یا ایمان داری کی پاداش میں زائد ٹیکس کا جرمانہ بھی ادا کردیں؟

مکانوں کے کرایوں میں بلیک مارکیٹنگ

سوال: جس مکان میں، میں رہتا ہوں وہ مجھ سے پہلے ایک کرایہ دار نے پینتالیس روپے ماہانہ کرائے پر مالک مکان سے اس شرط پر لیا تھا کہ دو ماہ کے نوٹس پر خالی کردیں گے۔ اس کرایہ دار سے یہ مکان انہی شرائط پر میرے بھائی نے لیا اور میں بھی ان کے ساتھ رہنے لگا۔ دو ماہ کے بعد میرے کہنے پر مالک مکان میرے نام سے رسید کاٹنے لگے۔ آٹھ ماہ تک برابر ہم پینتالیس روپے ماہانہ ادا کرتے رہے اور اس دوران میں کرایہ کی زیادتی ہمارے لیے سخت موجب تکلیف رہی اور کئی مرتبہ ارادہ کیا کہ رینٹ کنٹرولر کے یہاں درخواست دے کر کرایہ کم کرایا جائے مگر اس صورت پر دلی اطمینان نہیں ہوسکا۔ ستمبر میں مالک مکان کو سفیدی وغیرہ کرانے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ تو کرایہ دار کے فرائض میں سے ہے۔ آس پاس کے لوگوں نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی، لیکن انہوں نے اپنا سکوت توڑتے ہوئے یہ کہا کہ دو ماہ بعد جواب دوں گا (شاید مکان خالی کرانے کی دھمکی اس جواب میں مضمر تھی) اس پر کسی قدر تیز گفتگو ہوئی۔ جس کے نتیجے میں، میں نے رینٹ کنٹرولر کے یہاں کرایہ تشخیص کرنے کی درخواست دے دی۔ وہاں سے سولہ روپے گیارہ آنے ماہوار کے حساب سے کرایہ مقرر کردیا گیا۔ مگر میرا ضمیر اس پر اب بھی مطمئن نہیں ہے۔

اسلامی اصولوں پر بینکنگ کی ایک اسکیم

سوال: اسلامی اصولوں پر ایک غیر سودی بنک چلانے کے لیے اسکیم بھیجی جارہی ہے۔ اس کو ملاحظہ فرما کر ہماری رہنمائی کیجیے کہ کیا شرعاً یہ اسکیم مناسب ہے؟ یا اس میں ترمیم و اضافہ کی ضرورت ہے؟

اسکیم کا خلاصہ:

مسلمان زمیندار، تاجر اور اہل حرفہ مدتوں سے ساہوکاروں کے پنجے میں پھنستے جارہے ہیں اور ۲۵، ۲۵ فیصدی تک سود ادا کرتے کرتے تباہ ہو رہے ہیں۔ بڑے تاجر اور زمیندار تو خیر بری بھلی طرح پنپ بھی رہے ہیں لیکن کم استطاعت مسلمانوں کا حال سودی قرضوں نے بہت ہی پتلا کردیا ہے ہم چاہتے ہیں کہ ایک مسلم بنک مسلمانوں کو غیر سودی قرض دینے اور زکوٰۃ کی وصولی کا انتظام کرنے کے لیے قائم ہو۔ ابتداً ایک ضلع میں اس کا تجربہ کیا جائے اور پھر ملک بھر میں اسے پھیلا دیا جائے۔ مجوزہ بنک کے لیے ذیل میں چند اصول و مبادی درج کیے جاتے ہیں:

کاروبار میں اسلامی اصول اخلاق کا استعمال

سوال: ہم نے غلہ کی ایک دکان کھول رکھی ہے۔ موجودہ کنٹرول سسٹم کے تحت شہروں میں جمیعت ہائے تاجران غلہ Food Grain Association)) قائم ہیں۔ ان جمعیتوں کو حکومت کی طرف سے کہا جا رہا ہے کہ وہ اپنی ’’فوڈ گرین سنڈیکیٹس‘‘ بنائیں۔ گورنمنٹ ہر سنڈیکیٹ کو اشیائے خوردنی کے پرمٹ دے گی اور آئندہ غلہ کا سارا کاروبار صرف سنڈیکیٹ ہی کی معرفت ہوا کرے گا۔ نفع نقصان سب حصہ داروں پر تقسیم ہو جایا کرے گا۔ چنانچہ ہمارے شہر میں ایسی سنڈیکیٹ بن چکی ہے۔ پورے شہر کے غلے کا کاروبار کئی لاکھ کا سرمایہ چاہتا ہے اور پورا چونکہ سنڈیکیٹ کے شرکا فراہم نہیں کرسکتے۔ لہٰذا بینک سے سودی قرض لیں گے اور اس سودی قرض کی غلاظت سے جملہ شرکا کے ساتھ ہمارا دامن بھی آلودہ ہوگا۔ ہم نے اس سے بچنے کے لیے یہ صورت سوچی ہے ہم اپنے حصہ کا پورا سرمایہ نقد ادا کردیں اور بینک کے قرض میں حصہ دار نہ ہوں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اگر پورے کاروبار کو سنڈیکیٹ سنبھالنے کے قابل نہ ہوئی تو شاید سنڈیکیٹ ایسے سوداگر مقرر کردے جنہیں ایک چوتھائی سرمایہ سنڈیکیٹ دے گی اور بقیہ تین چوتھائی سوداگر اپنی گرہ سے لگائے گا اور اسے اختیار ہوگا کہ وہ ضروری سرمایہ بینک سے قرض لے، جس کا سود سنڈیکیٹ ادا کرے گی۔اگر یہ صورت ہوئی تو ہمارا ارادہ ہے کہ ہم پورے کا پورا سرمایہ اپنی گرہ سے لگائیں گے۔اور بینک کے قرض اور سود سے اپنا کاروبار گندہ نہ ہونے دیں گے۔ ہماری ان دونوں تجویزوں کو سنڈیکیٹ نے قبول کرلیا ہے کہ ان میں جو شکل بھی ہم چاہیں اختیار کرسکتے ہیں۔ اس معاملے میں جتنے لوگوں سے ہماری تفصیلی گفتگو ہوئی اور ہمیں اپنے نصب العین کو ان پر واضح کرنے کا موقع ملا، وہ سب ہمارے اصول کی بہت قدر کررہے ہیں۔ تمام بیوپاری ہندو ہیں اور بہت حیران ہیں کہ یہ کیسے مسلمان ہیں کہ اپنے اصول کی خاطر ہر فائدہ کو چھوڑنے پر آمادہ ہیں۔ ان پر ہمارے اس رویہ کا اخلاقی اثر اس درجہ گہرا ہوا ہے کہ اب وہ ہر کام میں ہم سے مشورہ طلب کرتے ہیں اور ہم پر پورا اعتماد کرتے ہیں۔ ایک تازہ مثال یہ ہے کہ حال میں ایک جگہ سے دس ہزار بورے گندم خریدنے کا فیصلہ ہوا۔ ایک ہندو بیوپاری کو خریداری کے لیے مقرر کیا گیا ۔ مگر ایسوسی ایشن کا اصرار تھا کہ اس کے ساتھ ہم میں سے بھی کوئی جائے ہم نے لاکھ کہا کہ ہمیں کاروبار کا کچھ زیادہ تجربہ نہیں ہے مگر ان کی ضد قائم رہی۔ آخر راقم الحروف کا جانا طے ہوگیا۔ بعد میں جب میں نے اس کی وجہ پوچھی تو ان میں سے ایک شخص نے صاف کہا کہ اور جو کوئی بھی جائے گا کسی نہ کسی قسم کی بے ایمانی کرے گا مگر آپ لوگوں میں سے جو گیا وہ نہ خود بے ایمانی کرے گا نہ دوسرے کو کرنے دے گا۔

سرکاری نرخ پر خرید کر چور بازار میں بیچنا۔

سوال: ایک تاجر اپنے کاروبار میں پوری طرح راست باز اور دیانتدار ہے اور احکام شریعت کی پابندی کرتا ہے۔ سامان تجارت اسے کنٹرول ریٹ پر حاصل ہوتا ہے، لیکن بازار میں چور بازاری کی وجہ سے بعض اشیاء کی قیمتیں بہت چڑھی ہوئی ہیں، اس صورت میں کیا وہ مروجہ نرخ پر اپنا مال فروخت کرنے کا حق رکھتا ہے؟

نقد کی قیمت اور ادھار کی اور

سوال:اگر کوئی دکاندار اس اصول پر عمل پیرا ہو کہ وہ نقد خریدنے والے گاہک سے اشیاء کی کم قیمت لے اور ادھار لینے والے سے زیادہ تو کیا وہ سود خوری کا مرتکب ہوگا؟ ایک دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ فروخت پر کچھ معمولی سا کمیشن رکھا جاتا ہے، مثلاً ایک پیسہ فی روپیہ اور یہ صرف نقد خریداری کی صورت میں گاہک کو ادا کیا جاتا ہے۔ اس کی حیثیت کیا ہے؟

محصول سے بچنے کی کوشش

سوال:ہمارے شہر میں اور عام طور پر ملک بھر میں ارباب تجارت کا طریق کار یہ ہے کہ باہر سے آنے والے مال کو چنگی سے بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اول تو چوری چھپے مال دکان پر پہنچانے کی کوشش کی جاتی ہے، یہ نہ ہو سکے تو محرر چونگی کو کچھ دے دلا کر کام چلاتے ہیں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم مال ظاہر کرنے والے نقلی بیچک بنا کر اس کے مطابق کم چونگی ادا کرتے ہیں اور دکان کے رجسٹروں میں اسی نقلی بیچک کے مطابق اندراجات کرتے ہیں۔ وہ مال رجسٹروں میں دکھایا ہی نہیں جاتا جس پر چونگی ادا نہ کی گئی ہو۔ اس طرح مال کی آمد، بکری اور منافع سبھی واقعی سے کم دکھائے جاتے ہیں۔ کیا یہ طریقے جائز ہیں؟

رشوت دینے کی مجبوری

سوال: ریلوے اسٹیشنوں سے جب مال کی بلٹیاں چھڑوانے جاتے ہیں تو ریلوے کے کلرک رشوت کا مطالبہ کرتے ہیں جسے اگر رد کیا جائے تو طرح طرح سے نقصان اور تکلیف پہنچاتے ہیں۔ ایسے حالات میں ایک مومن تاجر کیا کرے؟

آڑھت کے بعض ناجائز طریقے

سوال: آڑھت کی شرعی پوزیشن کیا ہے؟ آڑھتی کے پاس دو قسم کے بیوپاری آتے ہیں۔ پہلی قسم کے بیوپاری اپنے سرمایہ سے کوئی جنس خرید کر لاتے ہیں اور آڑھتی کی وساطت سے فروخت کرتے ہیں۔دوسری قسم کے بیوپاری وہ ہوتے ہیں جو کچھ معمولی سا سرمایہ اپنا لگاتے ہیں اور بقیہ آڑھتی سے اس شرط پر قرض لیتے ہیں کہ اپنا خریدا ہوا مال اسی آڑھتی کے ہاتھ فروخت کریں گے اور بوقت فروخت مال آڑھتی کا روپیہ بھی ادا کردیں گے۔ آڑھتی پہلی قسم کے بیوپاریوں سے اگر ایک پیسہ فی روپیہ کمیشن لیتا ہے تو اس دوسری قسم کے بیوپاریوں سے دو پیسہ فی روپیہ لے گا۔ یہ صورت حرام ہے یا جائز؟