طریق انتخاب

سوال: مجھے آپ کی خدمت میں ایک وضاحت پیش کرنا ہے۔ میں نے کچھ عرصہ قبل اپنی ذاتی حیثیت میں تجربۃً دس سالوں کے لیے مخلوط انتخاب کی حمایت کی تھی۔ اپنے حق میں دلائل دینے کے ساتھ ہی میں نے یہ بھی کہا تھا کہ مخلوط انتخاب کی مخالفت میں سب سے اونچی آواز جماعت اسلامی کی طرف سے اٹھائی جارہی ہے۔ پھر میں نے کم و بیش مندرجہ ذیل الفاظ کہے تھے۔ ’’جماعت اسلامی میں ایسے لوگ ہیں جن کے لیے میرے قلب و جگر میں انتہائی احترام و عقیدت کا سرمایہ ہے لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ جماعت نے پاکستان کے لیے جدوجہد نہیں کی تھی اور اگر ہندوستان تقسیم نہ ہوتا تو کیا اس صورت میں متحدہ ہندوستان میں جماعت اسلامی جداگانہ انتخابات کے حق میں آواز بلند کرتی؟‘‘ اس کے بعد جماعت کے بعض دوستوں نے مجھ سے گلہ کیا میں نے ان سے عرض کیا کہ میں ایک دلیل تعمیر کر رہا تھا جس سے مقصود جماعت اسلامی پر حملہ کرنا نہیں تھا، بلکہ اپنے نقطہ نگاہ کے جواز میں وزن پیدا کرنا تھا۔ میں نے آپ کی خدمت میں بھی اس صراحت کو پیش کرنا ضروری سمجھا تاکہ غلط فہمی رفع ہو جائے‘‘۔

جماعت کا موقف اور طریقِ کار

سوال: اگرچہ میں جماعت کا رکن نہیں ہوں، تاہم اس ملک میں مغربیت کے الحادی مضرات کا جماعت جس قدر مقابلہ کر رہی ہے اس نے مجھے بہت کچھ جماعت سے وابستہ کر رکھا ہے اور اسی وابستگی کے جذبہ کے تحت اپنی ناقص آراء پیش کر رہا ہوں۔

پاکستان میں دستور و انتخاب کا مسئلہ ازسرنو قابل غور ہے اور نہایت احتیاط و تدبر سے کسی نتیجہ و فیصلہ پر پہنچنے کی ضرورت ہے، اس لیے کہ موجودہ دستور اپنی پوری ہیئت ترکیبی کے لحاظ سے قطعی طور پر اسلام کی حقیقی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتا۔ کتاب و سنت سے ثابت شدہ متفق علیہ احکام کا اجراء و نفاذ بھی موجودہ دستور کی رو سے لیجسلیچر اور صدر مملکت کی منظوری کا محتاج ہے۔ قطع نظر اس بات کے کہ ایسی صورت میں قوانین الٰہیہ بھی انسانی آراء کی منظوری کے محتاج بن جاتے ہیں، سخت اندیشہ ہے کہ تعبیرات کی تبدیلی سے بہت سے وہ کام جواسلام کی نظر میں اب تک ناجائز نہیں رہے ہیں، اس ملک کی تعزیرات میں جرائم کی فہرست میں شامل ہو جائیں اور بہت سے وہ کام جنہیں اسلام قطعاً پسند نہیں کرتا مباحات کی فہرست میں داخل کر دیے جائیں۔ موجودہ دستور نے قرآن و سنت کو ایک طرف اسمبلی کی کثرت آراء کی منظوری و تعبیر فرمائی کا تابع بنا دیا ہے، دوسری طرف صدر مملکت کی رضامندی اور دستخطوں کا پابند بنا دیا ہے اور تیسری طرف عدالتوں کی تشریح و توضیح کا محتاج بنا دیا ہے۔ حالانکہ دستور میں صدر مملکت، ارکان وزارات، ارکان اسمبلی اور ارکان عدالت کی اسلامی اہلیت کے لیے ایک دفعہ بھی بطور شرط لازم نہیں رکھی گئی ہے اور ان کے لیے اسلامی علم و تقویٰ کے معیار کو سرے سے ضروری سمجھا ہی نہیں گیا ہے، ایسی صورت میں اس دستور کو اسلامی دستور کہنا اور سمجھنا ہی قابل اعتراض ہے کجا کہ اسے قبول کرنا اور قابل عمل بنانا۔

تبلیغی جماعت کے ساتھ تعاون

سوال: ایک بات عرصہ سے میرے ذہن میں گشت کر رہی ہے جو بسا اوقات میرے لیے ایک فکر کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ میں اللہ سے خصوصی طور پر اس امر کے لیے دعا کرتا ہوں کہ وہ ان ذی علم اور باصلاحیت حضرات کو اس طرف متوجہ کر دے جن کی کوششوں میں بہت سی تاثیر پوشیدہ ہے، جن کے قلب و دماغ کی طاقت سے بہت کچھ بن سکتا ہے اور بگڑ سکتا ہے۔ امت کی اصلاح بھی ہو سکتی ہے، تفرقے بھی مٹ سکتے ہیں، تعمیری انقلاب بھی برپا ہو سکتا ہے اور وہ سب کچھ ہو سکتا ہے جو ناممکن نظر آتا ہے۔ ایسے ہی لوگوں کی قوت فکر کی یکجائی اور ہم آہنگی کے لیے ہم اللہ تعالیٰ سے دعاگو ہیں۔

امارتِ شرعیہ بِہار کا سوالنامہ اور اس کاجواب

سوال: دارالافتا امارتِ شرعیہ بہار وارڈیسہ (ہند) کے پاس جماعت اسلامی سے متعلق سوالات آتے رہتے ہیں جن میں اس طرف زیادتی ہے۔ سوالات میں زیادہ جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت کے متعلق دریافت کیاجاتا ہے۔ ہم نے مناسب سمجھا کہ جماعت اسلامی کے ذمہ داروں سے براہ راست ذیل کے دفعات (جن کے متعلق سوالات آتے ہیں) سے متعلق استفسار کرایا جائے اور آپ حضرات سے ان کے جوابات طلب کر لیے جائیں تاکہ ان جوابات کی روشنی میں ہمیں جماعت اسلامی اور اس کے ممبروں اور ہمدردوں کی دینی حیثیت کے متعلق رائے قائم کرنے میں اور شرعی حکم بتلانے میں سہولت ہو۔ ہمارے خیال میں اس طرح اطمینان حاصل کیے بغیر کوئی شرعی حکم لگانا احتیاط کے خلاف ہوگا۔ آپ سے عرض ہے کہ مندرجہ ذیل سوالات کے جواب پورے اختصار کے ساتھ حتی الامکان محض نفی و اثبات میں اس طرح تحریر فرمائیں کہ ہمیں واضح طور پر معلوم ہو جائے کہ اس مسئلہ میں جماعت اور اس کے ذمہ داروں کا مسلک اور رائے یہ ہے۔ یہ خیال رہے کہ بعض دفعہ تطویل سے بات واضح ہو جانے کے بجائے اور مشتبہ ہو جاتی ہے۔ ہمارا مقصد آپ پر کوئی اعتراض کرنا نہیں ہے بلکہ جماعت کے متعلق مندرجہ ذیل مسائل میں تشفی کرنا ہے، اور جماعت اور اس کے ممبروں کی دینی حیثیت بتلانے میں اپنے لیے سہولت مہیا کرنا ہے۔ مجھے امید ہے کہ آپ ہمدرد کے سوالات سمجھ کر جواب تحریر فرمائیں گے۔

  • 1
  • 2