مولانا حسین احمدصاحب کا فتویٰ

سوال: جناب مولانا حسین احمد مدنی نے ایک پمفلٹ ’’مسلمان اگرچہ بے عمل ہو مگر اسلام سے خارج نہیں ہے‘‘ شائع کرایا ہے جس میں یہ ثابت کیا ہے کہ آپ کا مسلک اہلِ سنت والجماعت کے بالکل خلاف ہے اور احادیث صحیحہ اور آیتِ صریحہ کے بالکل منافی ہے اور لکھا ہے کہ آپ اعمال کے جزوایمان ہونے کے قائل ہیں جیسا کہ خوارج اور معتزلہ کا عقیدہ ہے اور آپ اس عقیدے کوشافعیہ اور محدثین کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ حالانکہ شافعیہ و محدثین اعمال کو ایمان کا جزو مقوم نہیں بلکہ جزو متمم و مکمل کہتے ہیں۔ ازراہِ کرم اس مسئلے کے متعلق اپنا عقیدہ بالوضاحت تحریر فرمادیں اور ترجمان القرآن میں شائع فرمادیں، انہوں نے آپ کی مندرجہ ذیل عبارات کو بطور دلیل پیش کیا ہے:

(۱) ’’رہے وہ لوگ جن کو عمر بھر کبھی یہ خیال نہیں آتا کہ حج بھی کوئی فرض ان کے ذمہ ہے، دنیا بھر کے سفر کرتے پھرتے ہیں، یورپ کو آتے جاتے حجاز کے ساحل سے بھی گزرجاتے ہیں جہاں سے مکہ صرف چند گھنٹوں کی مسافت پر ہے اور پھر بھی حج کا ارادہ تک ان کے دل میں نہیں گزرتا تو وہ قطعاً مسلمان نہیں ہیں۔ جھوٹ کہتے ہیں اگر وہ اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں اور قرآن سے جاہل ہے جو انہیں مسلمان سمجھتا ہے۔ (خطبات صفحہ ۱۸۰)

(۲) اس سے معلوم ہوا کہ زکوٰۃ کے بغیر نماز، روزہ اور ایمان کی شہادت سب بیکار ہیں۔ کسی چیز کا بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔ (خطبات، صفحہ ۱۲۶)

(۳) ان دو ارکان اسلام یعنی (نماز و زکوٰۃ) سے جو لوگ روگردانی کریں، ان کا دعویٰ ایمان ہی جھوٹا ہے۔‘‘ (خطبات صفحہ ۱۲۹)

(۴) ’’قرآن کی رو سے کلمہ طیبہ کا اقرار ہی بے معنی ہے اگر آدمی اس کے ثبوت میں نماز اور زکوٰۃ کا پابند نہ ہو۔ ‘‘ (خطبات، صفحہ ۱۳۲)

یہ سب حوالہ جات بار ہفتم کے مطابق ہیں۔

جواب: ایک ظلم تو مولانا حسن مدنی صاحب نے کیا کہ اصل کتاب کی عبارات کو پوری طرح پڑھے بغیر اور خود کتاب کے موضوع و مضمون سے واقفیت حاصل کیے بغیر محض چند لوگوں کے فراہم کردہ اقتباسات کی بنا پرکتاب کے مصنف کا ایک مسلک مشخص فرمالیا اور اپنی اس تشخیص کا اعلان بھی فرمادیا۔ اس پر دوسرا ظلم آپ کررہے ہیں کہ مولانا کے اس پمفلٹ کو پڑھنے کے بعد آپ نے خود نہ ’’خطبات‘‘ کو پڑھا، نہ میری کسی اور کتاب سے میرا مسلک معلوم کیا، بلکہ فوراً مجھے جواب دہی کے لیے طلب فرمالیا۔ میری کتاب ’’خطبات‘‘ آپ کی دسترس سے دور نہ تھی، آپ صرف اسی کو اٹھا کر دیکھ لیتے تو آپ کو انہی عبارات کے آس پاس مولانا کے الزامات کا جواب مل جاتا۔ میری کتاب ’’تفہیمات حصہ دوم‘‘ بھی آپ کو اپنے شہر کے دارالمطالعہ جماعت اسلامی میں آسانی سے مل سکتی تھی۔ اس کو پڑھ کر آپ کو معلوم ہوجاتا کہ آیا میں خوارج و معتزلہ کا ہم مسلک ہوں یا اہل سنت کا۔

میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح کے اعتراضات کی تحقیق کے لیے مجھ سے سوال نہ کیا جائے۔ میں صرف یہ عرض کرتا ہوں کہ جن الزامات کی تحقیق آپ خود تھوڑی سی تکلیف اٹھا کر کرسکتے ہوں، ان کے لیے خواہ مخواہ مراسلت میں وقت کیوں صرف کیا جائے۔

خطبات کی جن عبارات پر مولانا نے مجھے خارجی و معتزلی بنایا ہے، ان پر گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ یہ کتاب فقہ اور علم کلام کی کتاب نہیں ہے، نہ فتویٰ کی زبان میں لکھی گئی ہے، بلکہ یہ ایک وعظ و نصیحت کی کتاب ہے جس سے مقصود بندگانِ خدا کو فرمانبرداری پر اکسانا اور نافرمانی سے روکنا ہے۔ اس میں بحث یہ نہیں ہے کہ اسلام کی آخری حدود کیا ہیں جن سے تجاوز کیے بغیر آدمی خارج از ملت قرار نہ پاسکتا ہو، بلکہ اس میں عام مسلمانوں کو دین کا اصل مقصد سمجھانے اور اخلاص فی الطاعت پر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیا اس نوعیت کی کتاب میں مجھے عوام سے یہ کہنا چاہیے تھا کہ خواہ تم نماز، روزہ، حج زکوٰۃ کچھ بھی ادا نہ کرو، پھر بھی تم مسلمان ہی رہو گے؟ مولانا حسین احمد صاحب کو فتویٰ دینے کا شوق تھا تو وہ ضرور اپنا یہ شوق پورا فرماتے مگر فتویٰ دینے سے پہلے انہیں اس چیز کو سمجھ تو لینا چاہیے تھا جس پر وہ فتویٰ لگارہے تھے۔

پھر اگر مولانا نے محض پیش کردہ اقتباسات پر اکتفا نہ کیا ہوتا بلکہ اصل کتاب نکال کران عبارتوں کے سابق و لاحق کو بھی دیکھ لیتے تو مجھے امید نہیں کہ ان پر اعتراضات کرنے کی جرأت فرماتے۔ مثال کے طور پر حج کے متعلق میری اس عبارت کو لیجیے جسے آپ نے سب سے پہلے نقل کیا ہے۔ ’’خطبات‘‘ میں اس سے پہلے یہ آیت نقل کی گئی ہے کہ

وَلِلّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلاً وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ الله غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ

’’لوگوں پر اللہ کا حق ہے کہ جو بیت اللہ تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہو وہ اس کا حج کرے، اور جس نے کفر کیا، تو اللہ تمام دنیا والوں سے بے نیاز ہے۔‘‘

پھر نبیﷺ کا یہ ارشاد نقل کیا گیا ہے کہ:

’’جو زاد راہ اور سواری رکھتا ہو جس سے وہ بیت اللہ تک پہنچ سکے اور پھر وہ حج نہ کرے، تو اس کا اس حالت پر مرنا اور یہودی و نصرانی ہو کر مرنا یکساں ہے۔‘‘

پھر اسی مضمون کی ایک اور حدیث نقل کرنے کے بعد حضرت عمرؓ کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے، میرا دل چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں۔ وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔‘‘ ان ساری چیزوں کو نقل کرنے کے بعد میں نے وہ فقرے لکھے ہیں جو آپ نے مولانا کے پمفلٹ سے نقل فرمائے ہیں۔ اب آپ فرمائیے کہ اس عبارت پر خارجیت اور اعتزال کا جو فتویٰ مولانا صاحب نے جڑدیا ہے اس کی زد کہاں کہاں جاکر پڑتی ہے؟ کیا میں مولانا کو خدا سے اتنا بے خوف فرض کروں کہ یہ سب کچھ پڑھ لینے کے بعد بھی وہ اس مفتیانہ تیراندازی کا جسارت کرگزرتے؟

اسی طرح نماز اور زکوٰۃ سے متعلق میری جو عبارتیں آپ نے مولانا کے پمفلٹ سے نقل فرمائی ہیں۔ ان سے آگے اور پیچھے میں نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کے اس مشہور کارنامے کو بھی نقل کیا ہے کہ انہوں نے مانعین زکوٰۃ کے خلاف جہاد کیا اور اس کے ساتھ بکثرت آیات بھی نقل کی ہیں جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ

فَإِن تَابُواْ وَأَقَامُواْ الصَّلاَةَ وَآتَوُاْ الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ

’’پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز قائم کرنے اور زکوٰۃ دینے لگیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔‘‘

کیا اس سیاق و سباق پرنظر ڈالنے کے بعد بھی خارجیت اور اعتزال کے اس فتوے کو آپ ممکن سمجھ سکتے ہیں جو مولانا کے قلم سے میری ان عبارتوں پر نکلا ہے؟

(ترجمان القرآن۔ جمادی الاخریٰ ۱۳۷۱ھ، مارچ ۱۹۵۲ء)