درود میں ’’سیدنا و مولانا‘‘ کا استعمال اور بعض اہم اصولی بحثیں | نمبر1

سوال: آپ نے ماہ مارچ کے ’’ترجمان القرآن‘‘ میں کسی سائل کو جواب دیتے ہوئے نماز میں درود کے متعلق جو کچھ لکھا ہے، اس پر حسب ذیل اعتراضات وارد ہوتے ہیں:

۱۔ آپ نے ابوداؤد اور دارقطنی کے حوالہ سے حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کا یہ بیان نقل کیا ہے کہ انہوں نے حضورﷺ کے سکھائے ہوئے تشہد میں ’’رحمۃ اللہ‘‘ کے بعد ’’وبرکاتہٗ‘‘ کا، اور ’’اَشُھَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلّا اللہ‘‘ کے بعد ’’وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ‘‘ کا اضافہ کردیا۔ اس سے آپ ماثور الفاظ پر اضافے کا جواز ثابت کرتے ہیں، لیکن یہ آپ کے لیے مفید مطلب نہیں ہے، کیونکہ یہ الفاظ مرفوع حدیث میں بھی وارد ہوئے ہیں۔

۲۔ تشہد کے متعلق آپ نے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی یہ روایت نقل کی ہے کہ حضورﷺ نے ان کو عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ تک تعلیم دینے کے بعد فرمایا کہ ’’جب تم نے یہ پڑھ لیا (یا اس کو پورا کرلیا) تو تم اپنی نماز سے فارغ ہوگئے، اس کے بعد اٹھ جانا چاہو تو اٹھ جاؤ اور بیٹھنا چاہو تو بیٹھے رہو‘‘۔ اس سے آپ نے یہ استدلال کیا ہے کہ عبدہ ورسولہ پرنماز مکمل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد آدمی کچھ نہ پڑھے تب بھی اس کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا، اور درود و دعا تشہد میں داخل نہیں ہے بلکہ اس سے زائد ایک چیز ہے۔ مگر آپ کا یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ حفّاظ حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ عبدہٗ و رسولہٗ کے بعد کا مضمون دراصل حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا قول ہے جسے ایک راوی نے بے احتیاطی سے اس طرح حدیث میں درج کردیا ہے کہ وہ حضورﷺ کا ارشاد معلوم ہوتا ہے۔

۳۔ بالفرض اگر وہی روایت صحیح تسلیم کرلی جائے جس سے آپ استدلال کرتے ہیں، تو یہ امر واقعہ ہے کہ تشہد کی تعلیم حضورﷺ نے ابتدائی دور ہی میں دے دی تھی جب نماز فرض ہوئی تھی، لیکن قرآن مجید میں حضورﷺ پر درود و سلام بھیجنے کا حکم غزوۂ خندق اور غزوۂ بنی قریظہ کے زمانے یعنی ۵ھ ؁ میں نازل ہوا تھا، کیونکہ وہ سورۂ احزاب میں درج ہے، اور وہ انہی غزوات کے زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ اس لیے لامحالہ بعد کی چیز نے پہلے کی چیز کو منسوخ کردیا۔

۴۔ نماز تعبُّدی اعمال میں سے ہے، اور ان اعمال کے بارے میں یہ قاعدہ مسلّم ہے کہ شارع نے ان کی تعلیم جس طرح دے دی ہے اسی طرح ان کی تعمیل کی جانی چاہیے، ان کے اندر اپنی طرف سے کوئی تصرف نہیں کیا جاسکتا۔ علمائے اصول اس بات پر متفق ہیں کہ عبادات میں اصل، حکم کی پیروی اور شارع کے بتائے ہوئے طریقے کا اتباع ہے، اور اس سے تجاوز بدعت ہے۔ لیکن آپ درود کے ماثور الفاظ پر اکتفا نہیں کرتے، بلکہ ان میں اضافے ہی نہیں ردّو بدل اور کمی بیشی تک کے قائل ہیں۔ حالانکہ نماز کے تمام اوراد توقیفی ہیں، ان میں نہ کچھ گھٹانا جائز ہے نہ بڑھانا۔

۵۔ درود کے الفاظ میں سیدنا و مولانا کا اضافہ متعدد وجوہ سے ناجائز ہے:

اولاً، احادیث سے جتنے درود ثابت ہیں ان میں کہیں یہ الفاظ مستعمل نہیں ہوئے ہیں بلکہ بقول حافظ ابن حجرؒ کسی صحابی و تابعی نے بھی یہ الفاظ درود میں استعمال نہیں کیے ہیں۔

ثانیاً، احادیث سے ثابت ہے کہ لفظ سید کا استعمال رسول اللہ ﷺ کی ذات گرامی کے لیے اس دنیا میں بالکل غیر مشروع ہے اور حضور نے اپنے لیے اس کے استعمال کو منع فرمایا ہے۔ رہا آپ کا ارشاد کہ ’’انا سید ولد آدم‘‘ تو یہ قیامت کی حکایت ہے، جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو یہ اعزاز دنیا میں عبدیت کا شیوہ اختیار کرنے کے صلے میں عطا کیا جائے گا، چنانچہ قاضی عیاض نے شفا میں روایت نقل کی ہے کہ اسرافیل نے حضورﷺ سے کہا ’’اللہ تعالیٰ نے اس تواضع (انکساری) کے صلے میں جو آپ نے اللہ تعالیٰ کے حضور اختیار کی ہے آپﷺ کو یہ مرتبہ عطا کیا ہے کہ آپﷺ قیامت کے روز اولادِ آدم ؑ کے (سید) سردار ہوں گے‘‘۔ نیز حدیث میں یہ بھی آیا ہے جبریل ؑ کی موجودگی میں ایک فرشتے نے حضورﷺ کے پاس آکر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پوچھا ’’آپﷺ کو بادشاہ رسول بناؤں یا عبد رسول؟‘‘ جبریل ؑ نے حضورﷺ کو اشارہ کیا کہ ’’آپ اپنے رب سے تواضع سے پیش آئیے‘‘۔ تب آپﷺ نے اس فرشتے کو جواب دیا ’’بلکہ عبد رسول‘‘۔ اسی لیے حضورﷺ نے اپنے لیے لفظ سید کا استعمال پسند نہیں فرمایا اور اپنی دعاؤں میں انتہائی عاجزی اختیار کی۔

ثالثاً، حضورﷺ نے غزوۂ بنی قریظہ کے موقع پر جب حضرت سعدؓ بن معاذ کے لیے لوگوں سے کہا قومواالیٰ سیدکم (اپنے سردار کے استقبال کے لیے کھڑے ہوجاؤ) تو حضرت عمرؓ کی زبان سے بے ساختہ نکل گیا کہ السید ھوا للہ (سید تو اللہ ہی ہے)۔ اس کے ساتھ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ حضرت سعدؓ بن معاذ والا واقعہ ۵ ھ؁ کا ہے، اور حضورﷺ نے اپنے لیے لفظ سید کے استعمال پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے السید اللہ ۹ ھ ؁ میں فرمایا تھا جب بنی عامر کا وفد آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا۔

رابعاً، درود اصل میں ایک دعا ہے، اور دعا میں مدعولہ کے لیے سید کا لفظ استعمال کرنا روح دعا کے خلاف ہے۔ درخواست اور دعا میں تو عاجزی اور انکساری اور عبدیت کا اظہار ہونا چاہیے۔ جس کے حق میں دعا کی جاتی ہے اس کے لیے تو یوں کہا جاتا ہے کہ ایک عبد مسکین حاضر خدمت ہے، نہ یہ کہ ہمارا آقا اور سردار حاضر ہو رہا ہے‘‘۔

جواب: آپ نے جو اعتراضات پیش فرمائے ہیں وہ بلاشبہ قابل توجہ ہیں اور میں ایسے اعتراضات پر بحث کرنے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔ ذیل میں ان کا سلسلہ وار جواب حاضر ہے۔

تشّہُد میں ابن عمرؓ کا تصرف:

میں نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کی روایت سے جس بات پر استدلال کیا ہے اس پر اعتراض کرنے سے پہلے اگر آپ نے دو منٹ بھی غور کرلیا ہوتا تو یہ نہ فرماتے کہ ’’یہ حدیث آپ کے لیے مفید مطلب نہیں ہے، کیونکہ یہ الفاظ مرفوع حدیث میں بھی وارد ہوئے ہیں‘‘۔ براہ کرم ایک مرتبہ پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے الفاظ کو پڑھیے۔ وہ فرما یہ رہے ہیں کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ کے بعد وَبَرَکَاتُہٗ اور اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ کے بعد وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ کا اضافہ میں نے خود کردیا۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ جس وقت انہوں نے یہ اضافہ کیا تھا اس وقت ان کے علم میں وہ حدیث مرفوع نہیں تھی جس کے متعلق آپ کہہ رہے ہیں کہ اس میں بھی یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے علم میں کبھی نہ آئی ہو، اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ ان کے علم میں اس وقت آئی ہو جبکہ وہ پہلے ہی بطور خود ان الفاظ کا اضافہ کرچکے ہوں۔ یہ بھی تحقیق فرمالیجیے کہ یہ حدیث صحیح ہے۔ وارقطنی نے اسے نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ ھٰذا اِسنادٌ صحیح (یہ سند صحیح ہے) اور حافظ ابن حجرؒ نے ابو داؤد کی روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ یہ صریح طور پر آپ کے مدعا کے خلاف پڑتی ہے، کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک جلیل القدر صحابی نے نماز کے ماثور الفاظ پر اپنی طرف سے کچھ الفاظ کا اضافہ کیا اور اس کا لوگوں کے سامنے اظہار بھی کردیا، مگر نہ دور صحابہ و تابعین میں اس پر کوئی گرفت کی گئی اور نہ بعد کے کسی دور میں (کم از کم میرے علم کی حد تک) کسی فقیہ یا محدث نے اسے صحابی رسول کی بدعت ضلالت قرار دیا۔

تشہد کے متعلق ابن مسعودؓ کی روایات

میں نے تشہد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی جو روایت نقل کی ہے، اس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کے بعد والے الفاظ کو حفاظ حدیث نے بالاتفاق الحاقی قرار دیا ہے اور یہ رائے ظاہر کی ہے کہ دراصل یہ حضرت ابن مسعودؓ کا اپنا قول ہے جو راوی کی غلطی سے حضورﷺ کی طرف منسوب ہوگیا ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ رائے کن حفاظ حدیث نے ظاہر کی ہے۔ مگر ان کے فضل و کمال کا انتہائی معترف و معتقد ہونے کے باوجود میں ان کا اندھا مقلد نہیں ہوں کہ بس یہ سن کر کہ وہ ان الفاظ کے الحاقی ہونے پر متفق ہیں، خود بھی انہیں الحاقی مان لوں اور یہ نہ دیکھوں کہ جس بنیاد پر انہوں نے یہ فیصلہ کرڈالا ہے وہ بجائے خود معقول بھی ہے یا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ حدیث چار مختلف صورتوں میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہوئی ہے:

ایک صورت میں عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کے بعد اِذَا قُلْتَ ھٰذَا کے الفاظ بالکل متصل ہیں اور کوئی علامت ایسی نہیں پائی جاتی جس سے یہ شبہ کیا جاسکے کہ یہ بعد کے الفاظ حضورﷺ کے نہیں بلکہ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کے ہیں۔ اس کے متعلق یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ حضورﷺ کا کام فلاں جگہ ختم ہوا اور فلاں جگہ سے حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کا کلام شروع ہوگیا۔

دوسری صورت اس حدیث کی یہ ہے کہ وہ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ پر ختم ہوگئی ہے اور بعد کی عبارت اس میں سرے سے مذکور ہی نہیں ہوئی ہے۔ یہ ترک ذکر قطعاً اس بات کی دلیل نہیں قرار پاسکتا کہ اوپر والی روایات میں جو زائد عبارت مذکور ہوئی ہے وہ الحاقی ہے۔

تیسری صورت اس حدیث کی یہ ہے کہ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کے بعد قَالَ یا ثُمَّ قَالَ فَاِذَا فَعَلْتَ ھٰذَا … کے الفاظ ہیں۔ اس لفظ قال یا ثُمَّ قَالَ سے قطعاً یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ قائل کون ہے۔ اس کے معنی یہ بھی ہوسکتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا، اور یہ بھی کہ عبد اللہ بن مسعودؓ نے فرمایا۔ دونوں احتمالوں میں سے ایک کو ترجیح دینے کے لیے خود اس روایت میں کوئی گنجائش نہیں۔

چوتھی قسم کی روایات وہ ہیں جن میں عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ کے بعد قَالَ عَبْدُ اللہِ یا قال ابن مسعود کے الفاظ ہیں اور پھر فاذا فَعَلْتَ ھٰذا سے آخر تک کی عبارت نقل گئی ہے۔ جن حفاظ حدیث نے صرف ان آخری قسم کی روایات کو اس بات کی دلیل بنایا ہے کہ پہلی قسم کی روایات میں جو عبارت حضورﷺ کے ارشاد سے متصل پائی جاتی ہے۔ وہ دراصل الحاقی ہے، ان کی جلالت شان کا پورا اعتراف کرتے ہوئے میں عرض کرتا ہوں کہ حدیث کی روایات میں اس طرح کے فیصلے صادر کردینا فن حدیث کی قدرو منزلت کے لیے سخت نقصان دہ ہے۔ آخر یہ رائے قائم کرنے میں کیا مشکل حائل تھی کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓ خود بھی اسی بات کا فتویٰ دیتے تھے جو انہوں نے حضورﷺ سے سنی تھی؟ پہلی قسم کی احادیث میں انہوں نے قولِ رسولﷺ نقل کیا ہے، اور آخری قسم کی احادیث میں خود اپنا فتویٰ بیان کیا ہے جو عین قولِ رسولﷺ کے مطابق ہے۔ اگر ان کا فتویٰ ان کی روایت کردہ حدیث کے خلاف ہوتا تو ضرور حدیث مشکوک ہوجاتی۔ لیکن وہ تو حدیث کے ٹھیک مطابق فتویٰ دے رہے ہیں۔

کیا ابن مسعودؓ سورۂ احزاب سے ناواقف تھے؟

تیسرے اعتراض میں آپ نے جو کچھ فرمایا ہے، اس میں ذرا اس بات کی وضاحت اور فرما دیجیے کہ جس وقت کوفے میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ حضرت علقمہ اور اپنے دوسرے شاگردوں سے تشہد کے متعلق یہ حدیث بیان کر رہے تھے، اس وقت سورۂ احزاب نازل ہوچکی تھی یا نہیں؟ اور اگر نازل ہوچکی تھی (جس کا شاید آپ انکار نہیں کرسکتے) تو ابن مسعودؓ اس سے واقف تھے یا ناواقف؟ اس کی آپ وضاحت کردیں گے تو اعتراض کا جواب آپ کو خود ہی مل جائے گا۔

درود دعا اور ماثور الفاظ کی پابندی کیوں لازم نہیں ہے؟

تعبدی اعمال (یعنی عبادت کی نوعیت رکھنے والے اعمال) کے بارے میں جس متفق علیہ شرعی قاعدے کا آپ نے ذکر کیا ہے، اس کا میں بھی شدت سے قائل ہوں اور بیس سال پہلے خود ان کو بیان کرچکا ہوں۔ لیکن آپ کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ تشہد کے بعد پڑھنے کے لیے درود و دعا کے جو الفاظ ماثور ہیں ان کی نوعیت بھی ایسی ہے کہ ان کو جوں کا توں پڑھنا ہی ضروری ہو، کیونکہ بخاری، مسلم، نسائی، ابوداؤد اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایات یہ بتاتی ہیں کہ عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ تک تشہد پڑھنے کے بعد آدمی کو اختیار ہے کہ اللہ سے مانگنے کے لیے جو دعا چاہے منتخب کرلے۔

تعبُّدی امور میں ردّوبدل اور کمی بیشی کی گنجائش:

علاوہ بریں احادیث میں متعدد نظیریں ایسی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ استثناء کی گنجائش سے خالی نہیں ہے۔ ان میں صرف بیشی (یعنی اضافے) ہی کے نہیں بلکہ ردوّبدل اور کمی کے نظائر بھی پائے جاتے ہیں جن کو میں مختصراً یہاں نقل کرتا ہوں۔

’’ردّوبدل‘‘ کی ایک صریح مثال:

ردّوبدل کی نمایاں ترین مثال حضرت ابوبکر صدیقؓ کے زمانے میں جمع قرآن ہے۔ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے کہ رسول اللہﷺ نے اپنے عہد مبارک میں قرآن کو لکھوا تو ضرور دیا تھا، مگر وہ متفرق پارچوں، کھجوروں کی چھالوں، شانے کی ہدیوں اور ایسی ہی دوسری چیزوں پر لکھا گیا تھا جو ایک تھیلے میں رکھی ہوئی تھیں۔ حضورﷺ نے اسے سورتوں کی ترتیب کے ساتھ کہیں یکجا نہیں لکھوایا تھا۔ اس کے بعد جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دور خلافت آیا اور فتنہ ارتداد کی آگ بھڑک اٹھی تو مرتدین سے لڑائیوں میں، خصوصاً جنگ یمامہ میں بہت سے حفاظ شہید ہوگئے۔ بخاری، ترمذی، مسند احمد، مسند ابو داؤد،طیالسی اور دوسری کتب حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت حال میں حضرت عمرؓ کو یہ خطرہ محسوس ہوا کہ اگر اسی طرح حفاظ شہید ہوتے رہے تو قرآن کا بہت سا حصہ ضائع ہوجائے گا۔ اس خطرے کو انہوں نے سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے سامنے پیش کرکے یہ رائے دی کہ آپ قرآن کو جمع کرنے کا حکم دیں۔ حضرت صدیقؓ نے جواب دیا کہ میں وہ کام کیسے کرسکتا ہوں جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا؟ مگر حضرت عمرؓ نے کہا ھو واللہ خیر۔ ’’بخدا یہ اچھا کام ہے‘‘۔ اور وہ برابر اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ حضرت صدیقؓ کو اس معاملہ میں اللہ تعالیٰ نے پورا شرح صدر عطا کردیا اور وہ حضرت عمرؓ کی رائے سے متفق ہوگئے۔ پھر حضرت عمرؓ کی موجودگی میں حضرت ابوبکرؓ نے حضرت زیدؓ بن ثابت کو بلا کر قرآن جمع کرنے کا حکم دیا۔ حضرت زیدؓ نے بھی اس پر وہی بات کہی جو ابتداء میں حضرت ابوبکرؓ حضرت عمرؓ سے کہہ چکے تھے۔ انہوں نے عرض کیا کہ آپ لوگ کیسے وہ کام کر رہے ہیں جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا؟ دونوں صاحبوں نے ان کو جواب دیا ھوواللہ خیر۔ اور دونوں صاحب اصرار کرتے رہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت زیدؓ کو بھی اس معاملہ میں شرح صدر عطا فرمادیا۔ اس طرح جمعِ قرآن کا وہ عظیم کام شروع کیا گیا جسے انجام دینے میں بکثرت صحابہؓ نے حصہ لیا، اور تمام ہی صحابہ کے علم میں رفتہ رفتہ یہ بات آگئی کہ خلیفہ وقت کی نگرانی میں یہ کام کیا جارہا ہے۔ اب ملاحظہ فرمائے یہ کام ظاہر ہے کہ دنیوی تدابیر میں سے نہیں بلکہ تعبدی اعمال میں سے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت نے اسی وجہ سے حضرت عمرؓ کی تجویز سنتے ہی اس کے جواب میں یہ فرمایا تھا کہ وہ کام کیسے کیا جائے جو رسول اللہﷺ نے نہیں کیا؟ مگر جس دلیل کی بنا پر حضرت عمرؓ نے یہ تجویز پیش کی تھی، اور جس کی بنا پر حضرت ابوبکرؓ اور حضرت زیدؓ بن ثابت کو ان کے جواز، بلکہ وجوب پر شرح صدر حاصل ہوا وہ ھُوَوَاللہِ خَیْرٌ کے سوا اور کچھ نہ تھی۔ اس کے بعد جو کام کیا گیا وہ صریحاً ردّوبدل کی نوعیت رکھتا تھا، کیونکہ اس کے ذریعہ سے قرآن کی اس متفرق حالت کو، جو حضورﷺ کے زمانے میں تھی، ردّ کرکے یکجائی حالت میں تبدیل کردیا گیا۔ مگر نہ کسی نے اس وقت اسے بدعت اور احداث فی الدین قرار دیا اور نہ آج تک کوئی اس پر اعتراض کرسکا ہے، بلکہ اسے جناب صدیق اکبرؓ کی اہم ترین دینی خدمات میں شمار کیا جاتا ہے۔

کمی کی ایک نمایاں مثال

اب ذرا ’’کمی“ کی بھی ایک نمایاں ترین مثال ملاحظہ فرمائے۔ بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، ابوداؤد وغیرہ کتب حدیث میں صحیح ترین سندوں سے یہ بات منقول ہوئی ہے کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا تھا۔ اکابر اہل علم نے اس کی تشریح یہ کی ہے کہ قرآن مجید ابتداء میں تو صرف قریش کی زبان میں نازل ہوا تھا، مگر بعد میں جب اسلام عرب کے مختلف علاقوں میں پھیلنے لگا تو رسول اللہﷺ کی درخواست پر عرب کی چھ فصیح ترین بولیوں (Dialects) میں بھی اس کے پڑھنے کی اجازت دے دی گئی جن میں تلفظ، اعراب، یا محاورے کا صرف ایسا فرق ہوتا تھا جس سے معنی میں کوئی فرق واقع نہ ہوتا تھا۔ لیکن یہ اجازت ایسی کھلی اجازت نہ تھی کہ مختلف علاقوں کے لوگ اپنی اپنی بولیوں میں قرآن کو خود بدل لیں، بلکہ جبریل امین اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضورﷺ کو بتاتے تھے کہ کس لفظ کو قریش کی بولی کے سوا عرب کی دوسری بولیوں میں کس طرح پڑھا جائے، اور اسی کے مطابق حضورﷺ لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھاتے تھے۔ اس بنا پر ساتوں حرفوں پر قرآن کی سب قرأتیں اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ تھیں اور توقیفی تھیں۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن عباسؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا ’’جبریل ؑ نے مجھے پہلے صرف ایک حرف پر قرآن پڑھایا تھا، پھر میں برابر ان سے رجوع کرکے زیادہ حرفوں پر پڑھنے کی اجازت مانگتا رہا، یہاں تک کہ سات حرفوں تک پڑھنے کی اجازت دے دی گئی۔ مسلم کی روایت میں امام زہری کے حوالے سے اس پر اتنا اضافہ اور ہے کہ یہ اجازت صرف ان امور تک تھی جن سے حلال و حرام کا فرق نہ واقع ہوتا تھا۔ مسلم، نسائی، ابوداؤد،ترمذی اور طبری نے حضرت ابی بن کعبؓ کی روایت نقل کی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ قرأت قرآن میں یہ توسع ہجرت کے بعد ہوا ہے۔ اس روایت میں یہ ذکر ہے کہ مدینے کے ایک مقام اَضاۃِ بنی غِفار میں جبریل ؑ حضورﷺ کے پاس آئے اور انہوں نے کہا کہ اللہ آپ کو حکم دیتا ہے کہ آپ اپنی امت کو قرآن ایک حرف پر پڑھائیں۔ حضورﷺ نے عرض کیا کہ میں اس حکم میں نرمی کی درخواست کرتا ہوں، میری امت اس کی طاقت نہیں رکھتی (یعنی جو لوگ عربی زبان کی ایک خاص بولی کے عادی ہیں ان کے بچوں، بوڑھوں، جوانوں، مردوں اور عورتوں کے لیے یہ مشکل ہے کہ کسی دوسری بولی میں قرآن پڑھیں)۔ پھر وہ دو اور اس کے بعد تین بولیوں کا حکم لائے اور حضورﷺ مزید کی درخواست فرماتے رہے۔ آخر کار انہوں نے آکر کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کو سات حرفوں پر قرآن پڑھانے کا حکم دیتا ہے، ان میں سے جس حرف پر بھی لوگ پڑھیں گے وہ صحیح ہوگا۔

مسلم، نسائی اور طبری میں حضرت ابی بن کعبؓ کا ایک اور بیان روایت ہوا ہے کہ ان کی موجودگی میں یکے بعد دیگرے دو آدمی مسجد نبوی میں آئے اور ہر ایک نے قرآن اس طریقے کے خلاف پڑھا جس طریقے پر رسول اللہﷺ نے حضرت ابی کو پڑھنا سکھایا تھا، اور ان کی قرأتیں آپس میں بھی ایک دوسرے سے مختلف تھیں۔ حضرت ابی دونوں کو ساتھ لے کر حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس اختلاف قرأت کا ذکر کیا۔ حضورﷺ نے ان دونوں کی قرأت سنی اور ہر ایک کی قرأت کو صحیح قرار دیا۔ حضرت ابی کہتے ہیں کہ ’’یہ بات سن کر میرے دل میں ایسی تکذیب پیدا ہوئی جو جاہلیت کے زمانے میں نہ تھی‘‘۔ طبری کی روایت میں ان کے الفاظ ہیں کہ ’’ میں نے اپنے اندر ایسا شیطانی وسوسہ پایا جس سے میرا چہرہ سرخ ہوگیا‘‘۔ یہ حالت دیکھ کر حضورﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں پسینے پسینے ہوگیا۔ پھر حضورﷺ نے مجھے بتایا کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے، جو سب کے سب شافی و کافی ہیں۔ اسی سلسلے میں ایک اور روایت بخاری و مسلم اور ترمذی و نسائی میں حضرت عمرؓ سے منقول ہوئی ہے کہ میں نے ایک روز ہشام بن حکیم بن حزام کو سورۂ فرقان پڑھتے سنا اور ان کی قرأت کو اس قرأت سے مختلف پایا جو رسول اللہﷺ نے مجھے سکھائی تھی۔ ایک روایت میں حضرت عمرؓ کا قول ہے کہ میں نے ان سے پوچھا یہ قرأت تمہیں کس نے سکھائی ہے؟ انہوں نے کہا رسول اللہﷺ نے۔ ایک اور روایت میں وہ فرماتے ہیں کہ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر انہیں حضورﷺ کے پاس لے گیا۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ میرا جی چاہتا تھا کہ انہیں اسی وقت پکڑ لوں، مگر میں نے ان کی نماز ختم ہونے تک صبر کیا، پھر ان کا گریبان پکڑ کر حضورﷺ کے پاس لے گیا۔ ایک روایت میں یہ بھی ہے کو قریب تھا کہ میں ان پر جھپٹ پڑتا، مگر میں نے ان کے سلام پھیرنے تک صبر کیا، پھر ان کا گریبان پکڑ کر حضورﷺ کے پاس لے گیا۔ اس کے آگے سب روایتیں متفق ہیں کہ حضورﷺ نے پہلے حضر ہشام کی قرأت سنی اور فرمایا ٹھیک ہے، اسی طرح یہ سورۃ نازل ہوئی ہے۔ پھر آپﷺ نے حضرت عمرؓ کی قرأت سنی اور فرمایا ٹھیک ہے، اسی طرح نازل ہوئی ہے۔ اس کے بعد آپ نے وضاحت فرمائی کہ قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے لہٰذا جس طرح آسانی ہو، پڑھو۔

ان روایات سے دو باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک یہ کہ ساتوں حرفوں پر قرأت توفیقی یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقررتھی، ہر ایک حرف پر قرآن نازل ہوا تھا، اور لوگ بطور خود اپنی بولی میں قرآن کے الفاظ کو منتقل نہیں کرلیتے تھے، بلکہ حضورﷺ نے ہر حرف پر لوگوں کو قرآن پڑھنا سکھایا تھا۔ دوسری بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ قرأتوں کے اس اختلاف پر جھگڑے خودحضورﷺ کے سامنے شروع ہوگئے تھے، مگر آپ نے ان مختلف قرأتوں کو توثیق فرمائی اور جھگڑوں کی بنا پر قریش کی بولی کے سوا باقی سب بولیوں کی قرأت منسوخ کرنے کا اعلان نہیں فرمایا۔

اب ذرا حضرت عثمانؓ کے زمانے کی طرف آئیے۔ ان کے جمعِ قرآن کے بارے میں صحیح ترین حدیث وہ ہے جو بخاری میں ابراہیم بن سعد، عن الزّہری، عن انسؓ بن مالک کی سند سے روایت ہوئی ہے۔ اس میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت حذیفہؓ بن الیمانؓ ارمینیہ و آذربیجان کی مہم سے واپس آکر امیر المومنین کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ انہوں نے قرآن کی قرأت میں لوگوں کا جو اختلاف دیکھا تھا اس سے وہ سخت پریشان تھے۔ آتے ہی انہوں نے عرض کیا کہ اے امیر المومنین، اس امت کو سنبھال لیجیے قبل اس کے کہ کتاب اللہ میں ان کے اندر یہودو نصاریٰ جیسا اختلاف رونما ہوجائے۔ اس پر حضرت عثمانؓ نے ام المومنین حضرت حفصہؓ کو کہلا بھیجا کہ وہ صحیفے ہمیں بھیج دیجیے جو آپ کے پاس ہیں، ہم ان کی نقلیں کرا کے آپ کو واپس بھیج دیں گے۔ چنانچہ وہ انہوں نے بھیج دیے۔ پھر حضرت عثمانؓ نے حضرت زیدؓ بن ثابت، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت سعیدؓ بن العاص، اور حضرت عبدالرحمٰنؓ بن الحارث بن ہشام کو حکم دیا کہ ان کو مصحفوں میں نقل کریں، اور ہدایت فرمائی کہ جہاں تینوں قریشی حضرات اور حضرت زیدؓ بن ثابت کے درمیان اختلاف واقع ہو وہاں قریش کی زبان میں کتابت کی جائے کیونکہ قرآن دراصل اسی زبان میں نازل ہوا تھا۔ پھر یہ مصحف جو تیار کرائے گئے تھے ان کا ایک ایک نسخہ مختلف علاقوں کے مرکزی مقامات پر بھجوا دیا گیا اور امیر المومنین کی طرف سے حکم دے دیا گیا کہ وہ صحیفہ یا مصحف جو اس مستند نسخے کے خلاف ہو جلا ڈالا جائے۔

اس معاملے میں آپ یہ صاف دیکھ سکتے ہیں کہ قریش کی زبان کے سوا باقی چھ زبانوں کی قرأتیں، جو سب کی سب توفیقی تھیں، اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ اور رسول اللہﷺ کی سکھائی ہوئی تھیں۔ اس مصلحت کی بنا پر منسوخ کردی گئی کہ امت کو قرآن کے الفاظ اور اس کی عبارتوں میں اختلاف کے فتنے اور خطرے سے بچا لیا جائے۔ حضرت عثمانؓ کے اس فعل سے پوری امت نے اتفاق کیا ہے اور اسے ان کی عظیم ترین حسنات میں شمار کیا گیا ہے۔ لیکن بہرحال یہ اس امر کی صریح نظیر تو ہے کہ تعبدی امور میں بیشی ہی نہیں، کمی بھی کی گئی ہے اور اسے کسی صاحب علم نے بدعت نہیں سمجھا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے ابن ابی داؤد کے حوالہ سے سوید بن غفلہ کی روایت نقل کی ہے کہ حضرت عثمانؓ نے یہ کام صحابہ کے مشورے سے کیا تھا۔ مگر اس سے بات اور بھی زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے، کیونکہ صحابہ شریعت کے خلاف مشورہ دینے کے ہر گز مجاز نہ تھے، لہٰذا جب انہوں نے سات توفیقی قرأتوں میں سے چھ کم کرنے اور صرف ایک باقی رکھنے کی رائے دی، در آنحالیکہ اللہ اور اس کے رسول کا کوئی حکم اس کے حق میں موجود نہ تھا، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ مصلحت اسلام و مسلمین کے لیے ان کے نزدیک ایسا کرنا شرعاً جائز ہی نہیں، دین کے اندر فتنے کے امکانات کا سدّباب کرنے کے لیے واجب بھی تھا، اگرچہ اپنی ظاہری شکل کے لحاظ سے یہ ایک احداث فی الدین تھا۔

(ترجمان القرآن، ستمبر ۱۹۷۵ء)