نماز میں درود

سوال: آپ نے ’’خطبات‘‘ میں نماز کی تشریح کرتے ہوئے جو درود درج کیا ہے اس میں سَیِّدِنَا وَمَوْلَانَا کے الفاظ مسنون و ماثور درود سے زائد ہیں۔ احادیث میں رسول اللہﷺ سے جو درود منقول ہوا ہے اس میں یہ الفاظ نہیں پائے جاتے۔ ایک علمِ دین نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مسنون درودسے زائد ان الفاظ کو نماز میں پڑھنا مکروہ ہے۔ آپ کے پاس اس کے لیے کیا سند جواز ہے؟

جواب: اس اضافے کو جو بزرگ مکروہ قرار دیتے ہیں وہ غالباً مسئلے کی نوعیت سے اچھی طرح واقف نہیں ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ تشہد کے پورے مسئلے کی تحقیق کی جائے۔

تشہد کے متعلق صحیح ترین روایت وہ ہے جوحضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے منقول ہوتی ہے۔ اس کو بیس سے زیادہ سندوں کے ساتھ محدثین نے نقل کیا ہے، اور تمام راویوں نے اَلتَّحِیَّاتُ سے لے کر عَبْدُہُ وَرَسُوْلُہ تک پوی عبارت یکساں نقل کی ہے، کسی روایت کے الفاظ دوسری روایت کے الفاظ سے مختلف نہیں ہیں۔ اس کے باوجود یہ فیصلہ نہیں کردیا گیا کہ نماز میں صرف یہی تشہد پڑھا جائے۔ امام شافعی ابن عباسؓ کے تشہد کو، امام مالک حضرت عمرؓ کے تشہد کو افضل قرار دیتے ہیں، حالانکہ ان کے الفاظ باہم بھی مختلف ہیں اور ابن مسعودؓ کی روایت سے بھی مختلف۔ ان کے علاوہ تشہد کی بہت سی مختلف عبارتیں حضرت جابرؓ بن عبداللہ، حضرت عبداللہ بن عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابو موسیٰ اشعریؓ، حضرت عائشہؓ، حضرت سمرہؓ بن جندب، حضرت عبداللہ بن زبیرؓ، حضرت ابو حمیدؓ، حضرت ابو بکرؓ، حضرت حسینؓ بن علیؓ، حضرت طلحہؓ بن عبید اللہ، حضرت انسؓ بن مالک، حضرت ابو ہریرہؓ حضرت ابو سعیدؓ خدری، اور دوسرے صحابہ کرام سے احادیث میں روایت ہوئی ہیں۔ ان میں سے جس تشہد کو بھی آدمی پڑھے اس کی نماز صحیح ہوجاتی ہے۔ ابن عبدالبرؒ اور ابن تیمیہؒ کہتے ہیں کہ یہ مُباح میں اختلاف ہے ،یعنی ان مختلف تشہدات میں سے کوئی بھی غیر مباح نہیں ہے۔ ابن حجرؒ کہتے ہیں کہ علماء کی ایک بڑی جماعت ہر اس تشہد کے پڑھنے کو جائز قرار دیتی ہے جو احادیث سے ثابت ہو۔

لیکن بات صرف یہیں تک نہیں رہتی کہ جو تشہدات حدیث سے ثابت ہیں ان میں سے کسی ایک کو پڑھ لینا جائز ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر ایک جلیل القدر صحابی حضورﷺ سے تشہد کی ایک عبارت خود نقل کرتے ہیں اور پھر فرماتے ہیں کہ میں نے اس میں دو جگہ اضافہ کیا ہے۔ یہ حضرت عبد اللہؓ بن عمر ہیں۔ ابوداؤد اور دارقطنی میں ان کا یہ ارشاد موجود ہے کہ اَلسَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللہِ کے بعد میں نے وَبَرَکَاتُہ کا، اور اَشْھَدُ اَنْ لَّآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کے بعد وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ کا اضافہ کردیا ہے۔ مگر یہ بات میرے علم میں نہیں ہے کہ کسی نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے اس فعل کو قابل اعتراض ٹھہرایا ہو۔

اب رہا تشہد کے بعد کا مضمون، تو اس کے متعلق سب سے پہلے یہ جان لینا چاہیے کہ اس کا پڑھنا سرے سے لازم ہی نہیں ہے۔ ابو داؤد، مسند احمد، ترمذی اور دارقطنی میں حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ حضورﷺ نے عبدہ ورسولہ تک تشہد کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا اذا قلت ھذا (اوقضیت ھذا) فقد قضیت صلوٰتک، اِنْ شئتَ ان تقوم فقم وان شئت ان تقعد فاقعد۔ ’’جب تم نے یہ پڑھ لیا (یا اس کو پورا کرلیا) تو تم اپنی نماز سے فارغ ہوگئے۔ اس کے بعد اٹھ جانا چاہو تو اٹھ جاؤ اور بیٹھنا چاہو تو بیٹھے رہو‘‘۔ یہ ارشاد اس باب میں بالکل صریح ہے کہ عبدہ ورسولہ پر نماز مکمل ہوجاتی ہے، اس کے بعد آدمی کچھ نہ پڑھے تب بھی اس کی نماز میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا، اور درود و دعا تشہد میں داخل نہیں ہے بلکہ اس سے زائد ایک چیز ہے۔

اس زائد چیز کا پڑھنا یقیناً مستحب ہے، لیکن اس کے لیے شارع علیہ الصلوٰۃ و السلام نے کوئی عبارت مخصوص نہیں کی ہے جس کے الفاظ مقرر ہوں اور ان میں کوئی کمی بیشی جائز نہ ہو۔ بخاری و مسلم اور مسند احمد میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی جو روایت منقول ہوئی ہے اس میں تشہد کی عبارت بیان کرنے کے بعد وہ حضورﷺ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں کہ ثُمَّ یتخیر من المسألۃ ماشاء۔ ’’پھر آدمی جو دعا چاہے مانگے‘‘۔ مسند احمد اور نسائی کی ایک روایت میں حضورﷺ کے الفاظ یہ ہیں کہ ثم لیتخیر احدکم من الدعاء اعجبہ الیہ فلیدع بہ ربہ عزوجل۔ ’’پھر تم میں سے ایک شخص کوئی دعا انتخاب کرلے جو اسے سب سے زیادہ پسند ہو، اور وہی اپنے ربِّ عزیزو جلیل سے مانگ لے‘‘۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ بخاری اور ابوداؤد کی روایات میں آئے ہیں۔ ان ارشادات سے یہ بات صاف ظاہر ہو رہی ہے کہ حضورﷺ یہ تو پسند فرماتے ہیں کہ تشہد کے بعد آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگے (جس میں درود شامل ہے کیونکہ وہ بھی ایک دعا ہی ہے)، لیکن اس کے الفاظ کا انتخاب خود دعا مانگنے والے پر چھوڑ دیتے ہیں۔

اب درود شریف کے مسئلے کو لیجیے۔ معترض کا کہنا یہ ہے کہ حضورﷺ سے اس کے جو الفاظ ماثور ہیں ان میں کوئی کمی بیشی کرنا مکروہ ہے۔ لیکن کیا واقعی فقہا کے درمیان یہ مسئلہ متفق علیہ ہے؟

امام ابو بکر بن مسعود کاشانی جن کی کتاب بدائع الصنائع فقہ حنفی کی معتبر ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے، اس مسئلے پر کلام کرتے ہوئے لکھتے ہیں ولا یکرہ ان یقول فیھا و ارحم محمداً عندعامۃ المشائخ، وبعضہم کرھوا ذلک … والصحیح انہ لا یکرہ’’اور درودمیں وارحم محمداً کہنا اکثر اکابر علماء کے نزدیک مکروہ نہیں ہے اور بعض اسے مکروہ کہتے ہیں… مگر صحیح یہ ہے کہ وہ مکروہ نہیں‘‘۔

درود میں سیدنا کا لفظ بڑھانے کے متعلق مشہور شافعی فقیہ شمس الدین الرَّملی، جو چھوٹے شافعی کہلاتے تھے، اپنی کتاب نہایۃ المحتاج الیٰ شرح المنہاج میں لکھتے ہیں والا فضل الایتان بلفظ السیادۃ … لان فیہ الایتان بما امرنا بہ و زیادۃ الاخبار بالواقع الذی ھو ادب، فھو افضل من ترکہ۔ ’’اور افضل یہ ہے کہ (درود میں) لفظ سیادت لایا جائے …کیونکہ یہ ایسی چیز کا لانا ہے جس کے لیے ہم مامور ہیں اور اس میں اس امر واقعی کا مزید بیان ہے جو ادب ہے، لہٰذا اس کو چھوڑنے سے اس کا اد اکرنا افضل ہے‘‘۔ صرف درود ہی نہیں، تشہد تک میں شوافع نے لفظ سیدنا کے اضافے کو نہ صرف جائز رکھا ہے بلکہ اسی پر ان کا عمل بھی ہے۔ چنانچہ الفقہ علی المذاہب الاربعہ میں شافعی مذہب کا جو تشہد درج کیا گیا ہے وہ ان الفاظ پر ختم ہوتا ہے واشھدان سیدنا محمداً رسول اللہ، حالانکہ ابن عباسؓ کے جس تشہد کو امام شافعیؒ نے اختیار کیا ہے اس میں لفظ سیدنا نہیں پایا جاتا۔

علامہ ابن عابدین شامی کی کتاب ردّالمُحتار فقہ حنفی کی مستند کتابوں میں سے ہے۔ اس میں وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے رحمت کی دعا کے بارے میں لکھتے ہیں کہ بعض علماء نے اللّٰھم ارحم محمداًکہنے کو ناجائز کہا ہے اور بعض نے اسے جائز قرار دیا ہے، اور اسی دوسرے قول کو امام سرخسی نے ترجیح دی ہے۔ پھر درود میں لفظ سیدنا کے استعمال پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس پر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ ہمارے (یعنی حنفیہ کے) مسلک کے خلاف ہے اور اس کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ امام ابو حنیفہؒ نے تشہد میں کمی بیشی کو مکروہ قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اعتراض کمزور ہے، کیونکہ درود تشہد پر زائد ایک چیز ہے، اس میں شامل نہیں ہے۔ اگر کوئی شخص تشہد میں اشھد ان سیدنا محمداً عبدہٗ ورسولہٗ کہے تو یہ ضرور مکروہ ہے، لیکن تشہد کے بعد جو درود پڑھا جاتا ہے اس میں یہ لفظ بڑھایا جاسکتا ہے۔

اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نماز میں جو درود پڑھا جاتا ہے اس کا درود کے ماثور الفاظ ہی میں پڑھا جانا لازم نہیں ہے، اور ان ماثور الفاظ میں کمی بیشی کی جاسکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر درود میں اللّٰھم ارحم محمداً، اور اللّٰھم صلی علیٰ سیدنا محمد کہنا مکروہ نہیں ہے تو سیدنا کے ساتھ مولانا کہہ دینے میں کراہت کی کیا معقول وجہ ہوسکتی ہے؟

(ترجمان القرآن، مارچ ۱۹۷۵ء)