خدائی وعدوں کا مفہوم

سوال: احادیث میں قرآن مجید کی بعض آیات کے بارے میں بڑے بڑے وعدے پائے جاتے ہیں۔ مثلاً آیت الکرسی ہی کہ لیجیے۔ اس کے متعلق بخاری، مسلم وغیرہ میں معمولی اختلاف سے یہ بیان موجود ہے کہ جو کوئی اس کو پڑھ لے اس کے لیے ایک فرشتہ بحیثیت محافظ و نگران مقرر کردیا جاتا ہے۔ اسی طرح چوری سے حفاظت اور مال کے محفوظ رہنے کا مضمون بھی مشہور ہے۔ مگر اس کے باوجود بعض اوقات چوری بھی ہوجاتی ہے اور آدمی کو نقصان بھی پہنچ جاتا ہے۔

اسی طرح احادیث میں مذکور ہے کہ جو شخص یہ کلمات پڑھے گا اسے کوئی چیز گزند نہیں پہنچا سکتی: ’’بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْءٌ فِيْ الأَرْضِ وَلَا فِيْ السَّمَاءِ‘‘۔

مقصد صرف اس قدر ہے کہ باوجود ان شہادتوں کے معملات کا وقوع مطابق وعدہ نہیں ہوتا۔ ازراہ مہربانی اس الجھن کو حل فرمادیں۔

یہی حال رزق وغیرہ کے وعدوں میں نظر آتا ہے۔ متقی کو رزق کی فراہمی کا بہت جگہ ذکر آیا ہے مگر کئی ایسے آدمی نظر آتے ہیں جو باوجود نہایت متقی ہونے کے نہایت تنگدستی میں مبتلا ہوتے ہیں۔ آخر کیا وجہ ہے کہ ایمانداری سے رزق کمانے والوں کی حالت تو بہت کمزور ہے مگر بد دیانت لوگوں کی آمدنی وافر ہے۔ اس کیفیت کو دیکھ کر قلبی اطمینان کو بہت ضعف پہنچتا ہے اور ایمانداری کی طرف لوگوں کی توجہ بہت کم رہ جاتی ہے۔ عموماً لوگ غلط طریقے استعمال کرکے کامیاب ہوجاتے ہیں اور شریعت کی پابندی کرنے والے لوگ جو ایسے غلط طریقوں سے بچتے ہیں، وہ کامیاب نہیں ہونے پاتے۔

امید ہے آپ ان الجھنوں کو دور فرمائیں گے۔

جواب: آیت الکرسی کے جو اثرات احادیث میں بیان کیے گئے ہیں، نیز بِسْمِ اللهِ الّذِيْ لَا يَضُرُّ مَعَ اسْمِهِ شَيْ کی جو تاثیر بیان کی گئی ہے، یہ محض الفاظ کو زبان سے گزار دینے کے نتائج نہیں ہیں، بلکہ ان چیزوں کو سوچ سمجھ کر جو شخص پڑھے اور ان کے معانی کو اپنے طرز فکر اور کردار میں جذب کرلے، اس کے حق میں فی الواقع ان چیزوں کے وہی اثرات مرتب ہوتے ہیں جو بیان کیے گئے ہیں۔ اس کا یہ مطلب نہ سمجھ لیجیے کہ جو شخص ان چیزوں کو پڑھے گا وہ آفات سے اور ان کے طبعی نتائج سے لازماً محفوظ ہوجائے گا، بلکہ اس کا صحیح مطلب یہ ہے کہ اس شخص کے اندر اتنی زبردست قوت پیدا ہوجائے گی کہ کسی صورت حال میں بھی اس کا نفس شکست خوردہ نہ ہوسکے گا۔ حوادث طبیعی تو ہر انسان کو پیش آتے ہیں مگر کمزور طبیعت کا انسان ان سے مات کھاجاتا ہے اور مضبوط عزم و ارادہ کا انسان ان سے مغلوب نہیں ہوتا۔

متقی کو رزق کی فراہمی کے وعدے جہاں آئے ہیں، وہاں رزق سے مراد رزق حلال ہے نہ کہ رزق حرام متقی کے معنی ہی یہ ہیں کہ آدمی حرام راستے سے روزی حاصل کرنے کا سرے سے خواہشمند ہی نہ ہو اور اس بات کا عزم کر لے کہ میں جو کچھ بھی حاصل کروں گا حلال راستے ہی سے حاصل کروں گا۔ ایسے شخص کے لیے اللہ رزق کے دروازے بند نہیں کردیتا۔ اور ایسا شخص خود بھی اس تھوڑے یا بہت رزق پر قانع و مطمئن رہتا ہے جو حلال کے راستے سے خدا اس کو دے۔ آپ رزق کی جن فراوانیوں کا ذکر کر رہے ہیں وہ رزق نہیں بلکہ غلاظت ہے جسے کھانے کا ایک متقی خیال بھی نہیں کرسکتا۔

(ترجمان القرآن، اگست ۱۹۶۵ء)