امر بالمعروف کا فریضہ کیسے انجام دیا جائے؟

سوال: امربالمعروف ونہی عن المنکر کے سلسلے میں ایک عرصے سے پریشان ہوں۔ نہی عن المنکر کے متعلق جب میں احکام کی شدت کو دیکھتی ہوں اور دوسری طرف دنیا میں منکر کا جو حال ہے اور جتنی کثرت ہے اس کا خیال کرتی ہوں تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان احکام پر کیسے عمل کیا جائے۔ اگر برائی کو دیکھ کر خاموش رہنے کے بجائے زبان سے منع کرنا مطلوب ہو (کیونکہ ہاتھ سے نہ سہی مگر زبان سے کہنے کی قدرت سوائے شاذ صورتوں کے ہوتی ہی ہے) تو پھر تو انسان ہر وقت اسی کام میں رہے کیونکہ منکر سے تو کوئی جگہ خالی ہی نہیں ہوتی۔ لیکن بڑی رکاوٹ اس کام میں یہ ہوتی ہے کہ جس کو منع کیا جائے وہ کبھی اپنی خیر خواہی پر محمول نہیں کرتا بلکہ الٹا اسے ناگوار ہوتا ہے۔ میرا تجربہ تو یہی ہے کہ چاہے کسی کو کتنے ہی نرم الفاظ میں اور خیر خواہانہ انداز میں منع کیا جائے مگر وہ اس کو کبھی پسند کرتا بلکہ کوئی تو بہت بے توجہی برتے گا، کوئی کچھ الٹا ہی جواب دے گا، اور اگر کسی نے بہت لحاظ کیا تو سن کر چپ ہورہا۔ مگر ناگوار اسے بھی گزرتا ہے اور اثر کچھ نہیں ہوتا۔

اقامتِ دین کے بارے میں چند ذہنی اشکالات

سوال: رسول اللہﷺ کے بعد خلافت کی ذمہ داریاں جن جلیل القدر صحابہ کے کاندھوں پر ڈالی گئیں ان کے بارے میں بِلاخوف تردید کہا جا سکتا ہے کہ وہ نوع انسانیت کے گل سرسبد تھے۔ لیکن اس کے باوجود اس تاریخی حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خلافتِ راشدہ کا نظام جلد درہم برہم ہو گیا اور جنگ جمل اور جنگ صفین جیسے حادثات رونما ہوئے جن کا اسلامی تحریک کے ارتقاء پر ناخوشگوار اثر پڑا۔ ان حالات سے پیدا شدہ چند سوالات ذہن میں پیدا ہوتے ہیں جن کے جوابات مطلوب ہیں۔ سوالات حسبِ ذیل ہیں:

کیا اقامت دین فرض عین ہے؟

سوال: خاکسار کچھ سوالات کرکے جناب کو جواب دینے کی زحمت دینا چاہتا ہے اگرچہ جناب کی مصروفیتوں کے پیش نظر یہ مناسب نہیں معلوم ہوتا، تاہم میں جناب ہی سے ان سوالات کے جوابات معلوم کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتاہوں کیونکہ ان میں سے بعض اہم سوالات اس نصب العین اور اس تنظیم سے متعلق ہیں جن کا شہود اور جس کا وجود اس دور میں آپ کی مساعی جمیلہ کا نتیجہ ہے۔میں ۹ سال سے اس جماعت سے تعلق رکھتا ہوں۔ اس عرصہ میں میں نے اس کی تقریباً تمام کتابیں پورے غوروخوص کے ساتھ پڑھیں اور ایک قلبی احساس فرض کے تحت بلکہ ایک اندرونی دباؤ کے تحت اس میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی۔میں نے قرآن و سنت کے دلائل سے مطمئن ہوکر اس جماعت کے نظم سے منسلک ہونا اپنے ایمان واصلاح کا تقاضا سمجھا۔ میں جذباتی طور پر نہیں بلکہ پورے عقل و ہوش کے ساتھ یہ خیالات رکھتا ہوں کہ جس شخص پر اس جماعت کا حق ہونا واضح نہ ہوا ہواس کا معاملہ تو اللہ تعالیٰ کے یہاں لائق عفوودرگزر ہے لیکن جس شخص کے دل ودماغ نے پکار کر یہ کہہ دیا ہو کہ اس برصغیر میں یہی ایک جماعت ایسی ہے جو اس دور میں حق کا کام صحیح طریق پر کررہی ہے اور اس جماعت کے علاوہ اس سرزمین میں اور کوئی جماعت ایسی نہیں جس کا دامن فکر کردار من حیث الجماعت اس طرح ہر آمیزش سے پاک ہو، تو اس پر عند اللہ یہ فرض عین ہوجاتا ہے کہ وہ اس جماعت سے منسلک ہو اور اگر وہ اس وقت کسی دنیوی مصلحت کے پیش نظر یا کسی نفسانیت کی بنا پر اس جماعت سے اپنا تعلق منقطع کرے تو اللہ تعالیٰ کے یہاں اس سے مواخذہ ہوگا۔اللہ جانتا ہے کہ میں نے ان سطور میں کسی گروہی عصبیت یا مبالغہ سے کام نہیں لیا ہے بلکہ اس ناچیز نے جو کچھ سمجھا ہے وہ ظاہر کردیا ہے۔ اگر اس میں غلط فہمی کام کررہی ہے تو اسے رفع فرمایئے۔

  • 1
  • 2