اصحاب قبور سے درخواست دعا

سوال: کسی بزرگ کی قبر پر جا کر اس طرح کہنا کہ’’ اے ولی اللہ! آپ ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں‘‘ کیا درست ہے؟

جواب: کسی بزرگ سے اپنے حق میں دعائے خیر کی درخواست کرنا بجائے خود کوئی قابل اعتراض چیز نہیں ہے۔ آدمی خود بھی اللہ تعالیٰ سے دعا مانگ سکتا ہے، اور دوسروں سے بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے دعا کرو۔ لیکن وفات یافتہ بزرگوں کی قبروں پر جا کر یہ درخواست پیش کرنا معاملہ کی نوعیت کو بالکل ہی بدل دیتا ہے۔ قبر پر یہ بات کہنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ آپ اپنے دل میں، یا چپکے چپکے ایسا کہیں، اس کے معنی یہ ہوں گے کہ آپ ان بزرگوں کی سماعت کی شان وہی کچھ سمجھ رہے ہیں، جو اللہ تعالیٰ کی ہے کہ :

وَأَسِرُّوا قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُوا بِهِ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ
’’تم اپنی بات آہستہ سے کہو یا زور سے، وہ تو دلوں کا حال بھی جانتا ہے ‘‘۔

دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ آپ زور زور سے ان ولی اللہ کو پکار کر یہ بات کہیں۔ اس صورت میں اعتقاد کی خرابی تو لازم نہ آئے گی مگر یہ اندھیرے میں تیر چلانا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ پکار رہے ہوں اور وہ نہ سن رہے ہوں۔ کیوں کہ سماع موتیٰ کا مسئلہ مختلف فیہ ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کا سماع تو ممکن ہو، مگر ان کی روح اس وقت وہاں تشریف نہ رکھتی ہو، اور آپ خواہ مخواہ خالی مکان پر آوازیں دے رہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی روح تشریف فرما تو ہو مگر وہ اپنے رب کی طرف مشغول ہوں، اور آپ اپنی غرض کے لیے چیخ چیخ کر ان کو الٹی اذیت دیں۔ دنیا میں کسی نیک آدمی سے دعا کرانے کے لیے آپ جاتے ہیں تو مہذب طریقہ سے پہلے ملاقات ہوتی ہے پھر آپ عرض مدعا کرتے ہیں۔ یہ تو نہیں کہ مکان کے باہر کھڑے ہو کر بس چیخنا شروع کردیا۔ کچھ پتہ نہیں کہ اندر ہیں یا نہیں ہیں۔ ہیں تو آرام میں ہیں یا کسی کام میں مشغول ہیں، یا آپ کی بات سننے کے لیے خالی بیٹھے ہیں۔

اب غور کیجیے کہ وفات یافتہ بزرگوں کے معاملہ میں جب ہمارے لیے ان کے احوال معلوم کرنے اور ان سے بالمشافہ ملاقات کرنے کا کوئی موقع نہیں ہے تو ان کے مکانوں پر جا کر اندھا دھند چیخ و پکار شروع کردینا آخر کس معقول آدمی کا کام ہوسکتا ہے۔ دعا کروانے کا یہ طریقہ اگر قرآن و حدیث میں سکھایا گیا ہوتا، یا اس کا کوئی ثبوت موجود ہوتا کہ صحابہؓ کے عہد میں یہ رائج تھا، تب تو بات صاف تھی۔ بڑے اطمینان کے ساتھ یہ کام کیا جاسکتا تھا۔ لیکن جب وہاں اس کا کوئی پتہ نشان نہیں ملتا تو آخر ایسا طریقہ کیوں اختیار کیا جائے جس کی ایک صورت تو صریحاً صفات الٰہی سے ٹکراتی ہے، اور دوسری صورت علانیہ غیر معقول نظر آتی ہے۔