بدعت اور اس کے متعلقات

سوال: کیا ’’بدعت‘‘ کی دو قسمیں ہیں۔ (۱) حسنہ اور (۲) سئیہ؟ بعض صاحبان حضرت عمر فاروقؓ کے قول ’’نعمتہ البدعتہ‘‘ سے بدعت کے ’’حسنہ‘‘ ہونے پر دلیل لاتے ہیں۔ حدیث شریف میں کس قسم کی ’’بدعت‘‘ کو ضلالت کہا گیا ہے؟

جواب:

بدعت کی تعریف و اقسام:

شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں، اس کی کوئی قسم حسنہ نہیں ہے، بلکہ ہر بدعت سئیہ اور ضلالہ ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ارشاد ہوا ہے کُلُّ بِدْعَۃٌ ضَلَاَلَۃٌ۔ البتہ لغوی اعتبار سے محض نئی بات کے معنی میں بدعت حسنہ بھی ہوسکتی ہے اور سئیہ بھی۔ سیّدنا عمر فاروقؓ نے نماز تراویح با جماعت کے بارے میں نِعْمَتِ الْبِدْعَۃُ ھٰذِہٖ کے الفاظ جو فرمائے تھے، ان میں بدعت سے مراد اصطلاحی نہیں بلکہ لغوی بدعت ہی ہوسکتی ہے۔ اس لیے اسے بدعت کی ایک قسم ’’حسنہ‘‘ قرار دینے کے لیے دلیل نہیں بنایا جاسکتا۔

اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے بدعت کا شرعی مفہوم سمجھ لینا چاہیے۔ پھر یہ دیکھنا چاہیے کہ آیا نماز تراویح با جماعت کا طریقہ رائج کرنا اس مفہوم کے اعتبار سے بدعت کی تعریف میں آتا بھی ہے؟

عربی زبان میں بدعت کا لفظ قریب قریب اس معنی میں استعمال ہوتا ہے جس میں لفظ ’’جدت‘‘ ہم اردو میں استعمال کرتے ہیں۔ یعنی ایک نئی بات جو پہلے نہ ہوئی ہو یا جس کی کوئی مثال موجود نہ ہو۔ لیکن شریعت میں یہ لفظ اس وسیع مفہوم میں استعمال نہیں ہوتا۔ نہ اس مفہوم میں ہر نئی چیز یا ہر نئے کام اور طریقے کو گمراہی قرار دیا گیا ہے۔ شرعی اصطلاح میں بدعت سے مراد یہ ہے کہ جن مسائل و معاملات کو دین اسلام نے اپنے دائرے میں لیا ہے، ان میں کوئی ایسا طرز فکر یا طرز عمل اختیار کرنا جس کے لیے دین کے اصلی مآخذ میں کوئی دلیل حجت موجود نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ مسائل و معاملات یا مسائل و معاملات کے وہ پہلو جن سے دین نفیاً یا اثباتاً کوئی تعرض نہیں کرتا، جن کے متعلق صاحب شریعت نے خود فرمایا کہ اَنْتُمْ اَعْلَمُ بِاُمُوْرِ دُنْیَا کُمْ، بدعت و سنت کی بحث سے خود بخود خارج ہوجاتے ہیں۔ کسی چیز کے بدعت ہونے یا نہ ہونے کا سوال صرف انہی امور میں پیدا ہوتا ہے جن میں انسان کی رہنمائی کرنا دین نے اپنے ذمہ لیا ہے اور جن میں اللہ اور اس کے رسول نے احکام دیے ہیں یا اصولی ہدایات عطا فرمائی ہیں۔ خواہ عقائد اور خیالات و تصورات کے باب سے تعلق رکھتے ہوں یا اخلاق سے، یا عبادات اور مذہبی رسوم سے، یا معاشرت، تمدن، سیاست، معیشت اور دوسری ان چیزوں سے جنہیں عام طور پر دینوی معاملات سے موسوم کیا جاتا ہے۔ ان امور میں جب کوئی ایسی بات کی جائے گی جس کے مآخذ کا حوالہ خدا کی کتاب اور اس کے رسولﷺ کی تعلیم و ہدایت میں نہ دیا جاسکتا ہو، یا جس کے حق میں دین کے ان مآخذ اصلیہ سے کوئی معقول دلیل نہ پیش کی جاسکتی ہو تو وہ بدعت ہوگی، اور اگر وہ کتاب و سنت کی تعلیمات کے خلاف پڑتی ہو تو اس پر محض بدعت کا نہیں بلکہ فسق اور معصیت کا اطلاق ہوگا۔

بدعت کے شرعی مفہوم کی اس تشریح کے بعد یہ بات محتاج کلام نہیں رہتی کہ اس کے معنی میں جو چیز بدعت ہو اس کے حسنہ ہونے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا۔ وہ تو لازماً سئیہ ہوگی اور اس کو سئیہ ہی ہونا چاہیے۔ کیونکہ دین نام ہے اس نظام کا جو خدا اور رسولﷺ کی تعلیم و ہدایت پر مبنی ہو اور اس نظام میں بہرحال ایسی کوئی چیز داخل نہیں ہوسکتی جو اس تعلیم و ہدایت پر مبنی نہ ہو۔ ایسی کوئی چیز جب بھی اس میں داخل ہوگی، اس نظام کے مزاج اور اس کی ترکیب کو بگاڑ دے گی۔ پھر کیسے یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ کوئی بگاڑ نے والی چیز حسنہ بھی ہو۔

اب دیکھیے کہ حضرت عمرؓ نے جس چیز کو ’’ اچھی بدعت‘‘ کہا تھا کیا وہ واقعی اس معنی میں بدعت تھی جس میں کوئی شے اصطلاح شرع میں بدعت قرار پا سکتی ہے؟

جہاں تک نفس تراویح کا تعلق ہے، یعنی رمضان میں نماز عشاء کے قیام لیل، وہ تو صرف جائز ہی نہیں، مندوب اور مسنون بھی ہے۔ کیونکہ نبیﷺ نے اس کی ترغیب دی ہے اس کو دوسرے دنوں کے قیام لیل سے زیادہ اہمیت دی ہے اور اس پر عمل فرمایا ہے۔ جہاں تک اس کے جماعت کے ساتھ پڑھنے کا تعلق ہے، اس پر بھی حضور ﷺ کے زمانے میں اور حضورﷺ کے علم میں عمل ہوا ہے اور آپؐ نے اسے جائز رکھا ہے۔ چنانچہ مسند احمد میں حضرت عائشہؓ کی روایت ہے کہ مسجد نبوی ﷺ میں مختلف مقامات پر مختلف لوگ رمضان میں رات کے وقت نماز پڑھتے تھے۔ جس کو جتنا قرآن یاد ہوتا ،وہ اتنا ہی پڑھتا، اور کسی کے ساتھ ایک، کسی کے ساتھ پانچ، کسی کے ساتھ سات یا کم و بیش مقتدی کھڑے ہوجاتے تھے۔ پھر جہاں تک ایک جماعت میں سب کو جمع کرکے ایک امام کے پیچھے تراویح پڑھنے کا تعلق ہے، اس پر بھی نبیﷺ نے خود کئی مرتبہ عمل فرمایا ہے۔ ترمذی، ابوداؤد اور دوسری کتب سنن میں حضرت ابو ذر ؓ ایک رمضان کا قصہ بیان کرتے ہیں کہ مہینہ ختم ہونے میں سات دن باقی تھے کہ رات کے وقت حضورﷺ نے ہم کو نماز پڑھائی یہاں تک کہ ایک تہائی شب گزر گئی، پھر ایک دن چھوڑ کر ایک روز سحری کے وقت تک پڑھاتے رہے۔

بخاری اور مسلم میں حضرت عائشہؓ ایک اور رمضان کا حال بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبیﷺ نے دو یا تین دن مسلسل نماز تزاویح پڑھائی۔ پھر تیسرے یا چوتھے روز جب لوگ جمع ہوئے تو آپؐ نماز پڑھانے کے لیے نہ نکلے، اور بعد میں اس کی وجہ یہ بیان کی کہ کہیں یہ فرض نہ قرار دے دی جائے۔

اس سے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ تو مسنون تھا۔ اب جس چیز کو نئی بات کہا جاسکتا ہے، وہ صرف یہ ہے کہ حضرت عمرؓ نے اس طریقہ کو ہمیشہ کے لیے جاری کردیا۔ اس چیز کو بدعت اس لیے نہیں کہا جاسکتا کہ حضورﷺ نے ہمیشہ جماعت کے ساتھ تراویح نہ پڑھانے کی وجہ صرف یہ بیان فرمائی تھی کہ کہیں یہ لوگوں پر فرض نہ قرار دے دی جائے۔ یہ وجہ خود اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ آپؐ کے نزدیک یہ طریقہ رائج ہونا اور تمام حیثیتوں سے تو پسندیدہ تھا۔ البتہ فرض قرار پا جانے کااندیشہ اس میں مانع تھا کہ آپؐ اسے رائج فرمائیں۔ حضورﷺ کی وفات کے بعد اس اندیشہ کے لیے کوئی گنجائش باقی نہ رہی کیوں کہ کسی دوسرے شخص کا عمل کسی چیز کے شریعت میں فرض ہونے کی دلیل نہیں بن سکتا اس لیے حضرت عمرؓ نے حضورﷺ کے اس منشا کو پورا کردیا جو آپؐ کی اس توجیہ میں مضمر تھا۔ یعنی یہ کہ یہ طریقہ رائج تو ہو مگر مشروع اور مسنون طریقہ کی حیثیت سے، نہ کہ فرض کی حیثیت سے۔ اس پر بعض لوگوں کو جب بدعت ہونے کا شبہ ہوا تو حضرت عمرؓ فاروق نے یہ کہہ کر اسے رد کردیا کہ ’’اچھی بدعت‘‘ ہے۔ یعنی یہ نئی بات تو ہے مگر اس نوعیت کی نئی بات نہیں ہے جسے شریعت میں مذموم قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام صحابہ کرامؓ نے بالاتفاق اس طریقہ کے رواج کو قبول کیا اور ان کے بعد ساری امت اس پر عمل کرتی رہی۔ ورنہ کون یہ تصور کرسکتا ہے کہ شرعی اصطلاح میں جس چیز کو بدعت کہتے ہیں، اسے رائج کرنے کا ارادہ حضرت عمرؓ فاروق کے دل میں پیدا ہوتا اور صحابہ کرامؓ کی پوری جماعت بھی آنکھیں بند کرکے اسے قبول کرلیتی۔