سورۃ عنکبوت کی دو آیتوں کی تفسیر

سوال: سورۃ عنکبوت میں دو آیتیں ایسی ملیں کہ جن کے معنی میری سمجھ میں نہیں آئے۔ میرے پاس جو قرآن پاک کی تفسیر ہے، اس میں بھی اس کی وضاحت نہیں ملی، لہٰذا آپ کی دینی بصیرت سے امید قوی ہے کہ آپ ان کی تفصیل سے آگاہ فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے۔

(۱) سورہ عنکبوت آیت ۵۰ میں اس طرح ارشاد ہوتا ہے:

وَقَالُوا لَوْلَا أُنزِلَ عَلَيْهِ آيَاتٌ مِّن رَّبِّهِ قُلْ إِنَّمَا الْآيَاتُ عِندَ اللَّهِ وَإِنَّمَا أَنَا نَذِيرٌ مُّبِينٌ

’’ اور کہتے ہیں (منکر) کہ کیوں نہ اتریں اس پر کوئی نشانیاں اس کے رب سے۔ (آپ) کہہ دیجیے کہ نشانیاں تو ہیں اختیار میں اللہ کے اور میں تو یہی سنا دینے والا ہوں کھول کر‘‘۔

مندرجہ بالا آیت قرآنی سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور ﷺ کو معجزات اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں فرمائے۔ معجزات حضورؐ کو عطا نہ کرنے کی جو وجوہات قرآن پاک میں درج ہیں وہ اپنی جگہ بالکل درست ہیں، مگر کیا اس سے حضور رسالت مآب ﷺ کی شان مبارک میں کوئی فرق نہیں آتا کہ موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو نشانیاں اور معجزات اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائے کہ جن کی شہادت قرآن پاک خود دے رہا ہے اور حضور ﷺ کو اس سے بالکل جواب دے دیا۔

سیرت نبویہؐ میں حضورؐ کے بہت سے معجزات درج ہیں۔ مثلاً معجزہ شق القمر، تھوڑے سے تھوڑے کھانے سے جماعت کثیر کا سیر ہوجانا، کنکریوں کا کلمہ شہادت پڑھنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب بظاہر قرآنی شہادت کی بنا پرغلط معلوم ہو رہے ہیں۔

(۲) سورہ عنکبوت آیت ۲۷ میں یوں ارشاد ہوتا ہے:

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَجَعَلْنَا فِي ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتَابَ …الخ۔

’’اور دیا ہم نے ابراہیمؑ کو، اسحاق ؑ و یعقوبؑ اور رکھی اس کی اولاد میں پیغمبری اور کتاب‘‘۔

یہاں حضرت اسماعیلؑ کو بالکل چھوڑ دیا۔ حالاں کہ وہ حضرت ابراہیمؑ کے سب سے بڑے صاحب زادے تھے ،اس لیے سب سے پہلے ان کا نام نامی آنا چاہیے تھا جن کی نسل مبارک میں آگے چل کر حضور ﷺ نبوت سے سرفراز ہوئے۔

جواب

(۱) معجزہ بطور دلیل نبوت:

قرآن مجید میں یہ بات متعدد مقامات پر بیان ہوئی ہے کہ کفار نبیﷺ سے معجزے کا مطالبہ کرتے تھے اور اس مطالبے کا جواب بھی قرآن مجید میں کئی جگہ دے دیا گیا ہے۔ ان سب مقامات پر نگاہ ڈالنے سے معلوم ہوجاتا ہے کہ نبی ﷺ کو قرآن کے سوا کوئی معجزہ دلیل نبوت کے طور نہیں دیا گیا۔ یہ مطلق معجزے کی نفی نہیں ہے بلکہ ایسے معجزے کی نفی ہے جس کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ؐ نے نبوت کی علامت اور حیثیت سے پیش کیا ہو اور جسے دیکھ لینے کے بعد انکار کرنے سے عذاب لازم آتا ہو۔

(۲) حضرت اسحاق ؑ اور حضرت اسماعیل ؑ:

حضرت ابراہیمؑ کو حضرت اسحاق ؑ اور حضرت یعقوبؑ کے عطا کیے جانے کا ذکر بھی قرآن میں کئی جگہ آیا ہے۔ مثلاً سورہ انعام آیت ۸۵۔ سورۃ مریم آیت ۵۰ اور سورہ انبیاء آیت ۷۲۔ ان سب مقامات پر حضرت اسماعیلؑ کا ذکر نہ ہونے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ یہ مواقع غیر معمولی انعام کی شان بیان کرنے کے ہیں اور یہ شان اولاد ابراہیمی کی اس شاخ میں پائی جاتی تھی جو حضرت اسحاقؑ سے چلی ۔ حضرت اسماعیلؑ سے جو شاخ چلی اس نے ڈھائی ہزار سال بدویت کی زندگی میں گزار دیئے۔ اس کے اندر کوئی قابل ذکر شخصیت ہمارے نبی ﷺ کی بعثت تک پیدا نہ ہوئی۔ بخلاف اس کے حضرت اسحاقؑ سے جو شاخ چلی اس میں بکثرت انبیاء پیدا ہوئے اور اس کے بڑے کارنامے تاریخ میں موجود تھے۔

(ترجمان القرآن، رجب ۱۳۷۵ھ۔ مطابق مارچ ۱۹۵۶ء)