تقلید وعدم تقلید

سوال:تقلید آئمہ اربعہ کے متعلق آپ کا نظریہ کیا ہے؟ یعنی تقلید کو آپ کسی حد تک جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟ اور اگر جائز سمجھتے ہیں تو کس حد تک؟ جہاں تک میری معلومات کام کرتی ہیں، آپ ایک وسیع المشرب مقلد ہیں؟

جواب: میرا مسلک یہ ہے کہ ایک صاحب علم آدمی کو براہ راست کتاب و سنت سے حکم صحیح معلوم کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور اس تحقیق و تجسس میں علمائے سلف کی ماہرانہ آراء سے بھی مدد لینی چاہئے۔ نیز اخلاقی مسائل میں اسے ہر تعصب سے پاک ہو کرکھلے دل سے تحقیق کرنا چاہئے کہ آئمہ مجتہدین میں سے کس کا اجتہاد کتاب و سنت سے زیادہ مطابقت رکھتا ہے۔ پھر جو چیز حق معلوم ہو اسی کی پیروی کرنی چاہئے۔

میں نہ مسلک اہلحدیث کو اس کی تمام تفصیلات کے ساتھ صحیح سمجھتا ہوں اور نہ حنفیت یا شافعیت ہی کا پابند ہوں۔ لیکن کوئی وجہ نہیں کہ جماعت اسلامی میں جو لوگ شریک ہوں ان کا فقہی مسلک لازماً میرے فقہی مسلک کے مطابق یا اس کے تابع ہو۔وہ اگر فرقہ بندی کے تعصبات سے پاک رہیں اور حق کو اپنے ہی گروہ میں محدود نہ سمجھیں تو وہ اس جماعت میں رہتے ہوئے اپنے اطمینان کی حد تک حنفی، شافعی، اہل حدیث، یا دوسرے مسلک پر عمل کرنے میں آزاد ہیں۔

سوال: تقلید آئمہ اربعہ کو گروہ ’’اہل حدیث‘‘ حرام و شرک بتاتا ہے۔ کیا یہ صحیح ہے؟ کیا مقلدین اہل حدیث نہیں ہیں؟ تقلید اصل میں کیا ہے؟ کیا یہ ضروری ہے؟

جواب: اسلام میں دراصل تقلید سوائے رسول اللہﷺ کے اور کسی کی نہیں ہے اور رسول اللہﷺ کی تقلید بھی اس بنا پر ہے کہ آپ جو کچھ فرماتے اور عمل کرتے ہیں وہ اللہ کے اذن اور فرمان کی بنا پر ہے۔ ورنہ اصل میں تو مطاع اور آمر اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں۔

آئمہ کی پیروی کی حقیقت صرف یہ ہے کہ ان آئمہ نے اللہ اور رسولﷺ کے احکام کی چھان بین کی، آیات قرآنی اور سنت رسول سے معلوم کیا کہ مسلمان کو عبادات اور معاملات میں کس طریقہ پر چلنا چاہئے۔ اور اصول شریعت سے جزئی احکام کا استنباط کیا۔ لہٰذا وہ بجائے خود آمرونا ہی نہیں ہیں نہ بذات خود مطاع اور متبوع ہیں، بلکہ علم نہ رکھنے والے کے لیے علم کا ایک معتبر ذریعہ ہیں۔ جو شخص خود احکام الہٰی اور سنت نبوی میں نظر بالغ نہ رکھتا ہو اور خود اصول سے فروغ کا استنباط کرنے کا اہل نہ ہو اس کے لیے اس کے سوا چارہ نہیں ہے کہ علماء اور آئمہ میں سے جس پر بھی اسے اعتماد ہو اس کے بتائے ہوئے طریقہ کی پیروی کرے۔ اگر کوئی شخص اس حقیقت سے ان کی پیروی کرتا ہے تو اس پر کسی اعتراض کی گنجائش نہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ان کو بطور خود آمرونا ہی سمجھے یا ان کی اطاعت اس انداز سے کرے جو اصل آمروناہی کی اطاعت ہی میں اختیار کیا جاسکتا ہے یعنی آئمہ میں سے کسی کے مقرر کردہ طریقہ سے ہٹنے کو اصل دین سے ہٹ جانے کا ہم معنی سمجھے اور اگر کسی ثابت شدہ حدیث یا صریح آیت قرآنی کے خلاف ان کا کوئی مسئلہ پایا جائے تب بھی وہ اپنے امام ہی کی پیروی پر اصرار کرے، تو یہ بلاشبہ شرک ہوگا۔

(ترجمان القرآن۔ رجب، شوال63 ھ ۔ جولائی، اکتوبر 44ء)