بشریت رسولﷺ پر اعتراضات

سوال: ماہ اپریل کے ترجمان القرآن میں آپ کا جو مقالہ بعنوان ’’اسلام کس چیز کا علمبردار ہے؟‘‘ چھپا ہے۔ اس کے مندرجات میں سے کچھ پر یہ اعتراضات وارد کیے جاتے ہیں۔

۱۔ ’’پیغمبرؐ مافوق البشر نہیں ہوتا‘‘۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ کیا اس سے مراد خدائی اختیارات کا حامل ہونا ہے؟ یا بشریت سے ماوراء ہونا؟ معترضین نے یہ نکتہ برآمد کیا ہے کہ مافوق البشر کا مطلب عام بشر سے فائق ہونا ہے اور پیغمبر اس معاملے میں فائق ہی ہوتے ہیں۔

۲۔ دوسرا اعتراض اس پر ہے کہ مقالہ نویس نے پیغمبر ؐ کو بشری کمزوریوں سے مبرا تسلیم نہیں کیا۔ حالانکہ وہ ہر لحاظ سے معصوم ہوتے ہیں۔ بشری کمزوریوں سے مراد بشریت کے لوازمات ہیں یا اور کچھ مراد ہے؟

۳۔ بعض پیغمبروں کا مشن ناکام ہوگیا۔ یہ اندازِ بیان انبیاء کے شایانِ شان نہیں ہے۔ معترضین کا زیادہ تر زور اس پر تھا کہ نیت بخیر ہو مگر اندازِ بیان گستاخانہ ہے۔

جواب: ان اعتراضات کا جواب دینے سے پہلے یہ بتادینا ضروری ہے کہ یہ مقالہ دراصل غیر مسلموں کے سامنے اسلام پیش کرنے کے لیے لکھا گیا تھا۔ اس میں ان کے غلط عقائد کا ذکر کیے بغیر ان کی تردید اس طرح کی گئی ہے کہ اسلام کی صحیح تصویر ان کے سامنے رکھ دی گئی جسے دیکھ کر وہ خود سمجھ سکتے کہ ان کے مذہب میں کیا کیا غلط باتیں شامل ہوگئی ہیں۔

اب ایک ایک اعتراض کو لیجیے:

۱۔ ’’پیغمبر فوق البشر نہیں ہوتا‘‘۔ اس فقرے سے کوئی معنی اخذ کرنے سے پہلے معترض کو دیکھنا چاہیے کہ میں نے کس سلسلئہ کلام میں یہ بات کہی ہے۔ اوپر سے عبارت یوں چلی آرہی ہے کہ ’’رسول ایک انسان ہے اور خدائی میں اس کا ذرہ برابر بھی کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔ اس کے معاً بعد یہ کہنا کہ ’’وہ فوق البشر نہیں ہے‘‘ صاف طور پر یہ معنی رکھتا ہے کہ وہ بشریت سے ماوراء اور خدائی صفات سے متصف نہیں ہے جیسا کہ دوسرے مذہب والوں نے اپنے پیشواؤں کو بنا رکھا ہے۔

۲۔ اسی سلسلئہ کلام میں فوراً بعد دوسری بات یہ کہی گئی ہے کہ ’’رسول بشری کمزوریوں سے بالاتر نہیں ہے‘‘۔ اس میں بشری کمزوریوں سے مراد بھوک، پیاس، نیند، مرض، رنج و غم وغیرہ امور ہیں جو بشر ہی کو لاحق ہوتے ہیں۔ اور اس مضمون میں یہ بات اس غرض کے لیے کہی گئی ہے کہ عیسائیوں نے جس ہستی کو خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے ڈالا اس کو بھی یہ بشری کمزوریاں لاحق ہوتی تھیں۔ مگر یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی وہ بشر کو خدائی میں شریک قرار دے بیٹھے۔ یہ استدلال ٹھیک ٹھیک قرآن سے ماخوذ ہے:
مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلاَّ رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ كَانَا يَأْكُلاَنِ الطَّعَامَ
(المائدۃ ۵: ۷۵) ’’ مریم کا بیٹا مسیحؑ رسول کے سوا کچھ نہ تھا۔ اس سے پہلے بھی رسول گزر چکے تھے، اور اس کی ماں راست باز تھی، دونوں کھانا کھایا کرتے تھے‘‘۔ اس آیت میں ایک عورت کے پیٹ سے پیدا ہونے اور ماں بیٹے دونوں کے کھانا کھانے کو اس بات کی صریح دلیل ٹھہرایا گیا ہے کہ حضرت مسیحؑ بشر تھے نہ کہ فوق البشر اور الوہیت میں ان کا قطعاً کوئی حصہ نہ تھا، جیسا کہ مسیحیوں نے سمجھ رکھا ہے۔

۳۔ تیسرا اعتراض بھی سلسلئہ کلام کو نظر انداز کرکے صرف ایک لفظ کے استعمال پر کیا گیا ہے۔ سلسلئہ کلام یہ ہے کہ نبی کا کام ایمان لانے والوں کو انفرادی اور اجتماعی تربیت دے کر ایک صحیح اسلامی تہذیب و تمدن کے لیے عملاً تیار کرنا اور ان کو منظم کرکے ایک ایسی جماعت بنادینا ہے جو دنیا میں خدا کے دین کے بالفعل قائم کرنے کی جدوجہد کرے یہاں تک کہ خدا کا کلمہ بلند ہوجائے اور دوسرے کلمے پست ہو کر روہ جائیں۔ اس کے بعد یہ عبارت لکھی گئی ہے: ’’ضروری نہیں ہے کہ سب نبی اپنے اس مشن کو کامیابی کے آخری مراحل تک پہنچانے میں کامیاب ہی ہوگئے ہوں۔ بہت سے انبیاء ایسے ہیں جو اپنے کسی قصور کی بنا پر نہیں بلکہ متعصّب لوگوں کی مزاحمت اور حالات کی نامساعدت کے باعث اس میں ناکام ہوگئے‘‘۔

اس عبارت میں لفظ ناکام کے استعمال کو گستاخی کہنا آخر ادب و احترام کی کونسی قسم ہے؟ یہ مبالغہ آمیزیاں اگر اسی شان سے بڑھتی رہیں تو بعید نہیں کہ کل ہر وہ شخص گستاخ ہو جو کہے کہ رسول اللہﷺ اُحد میں زخمی ہوگئے تھے، یا آپ کسی وقت بیمار ہوگئے تھے۔ کسی واقعہ کے واقعہ ہونے سے اگر انکار نہیں ہے تو اس کو انہی الفاظ میں بیان کیا جائے گا جو زبان میں معروف ہیں۔ جو حضرات اسے گستاخی سمجھتے ہیں وہ اپنی رائے کے مختار ہیں، مگر دوسروں پر وہ اس رائے کو کیوں مسلّط کرتے ہیں؟

(ترجمان القرآن، جون ۱۹۷۶ء)