تفہیم القرآن میں لفظ ’’تسویل‘‘ کے مختلف معانی

سوال:تفہیم القرآن کے دو مقامات پیش نظر ہیں:

۱۔ سورہ یوسف کی دو آیتیں یعنی ۱۸ اور ۸۳: قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ۔

آنجناب نے دونوں مقامات پر یہ ترجمہ کیا ہے:

’’یہ سن کر ان کے باپ نے کہا: بلکہ تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنا دیا ہے۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا‘‘۔

باپ نے یہ داستان سن کر کہا: ’’دراصل تمہارے نفس نے تمہارے لیے ایک بڑے کام کو آسان بنادیا۔ اچھا صبر کروں گا اور بخوبی کروں گا‘‘۔

۲۔ سورہ طٰحٰہ کی آیت ۹۶: وَکَذٰالِکَ سَوَّلَتْ لِیْ نَفْسِیْ۔

اس کا ترجمہ یوں کیا ہے:

’’میرے نفس نے مجھے کچھ ایسا ہی سجھایا ہے‘‘

یہاں بھی وہی ’’سَوَّلَتْ‘‘ہے لیکن ترجمہ مختلف ہے۔ حالانکہ دونوں جگہ اس فعل کا فاعل ’’انفس‘‘ یا اس کا واحد ’’نفس‘‘ ہے۔ تسویل تسہیل کے معنوں میں تو نہیں آتا۔ آنجناب کی تصریح کا خواستگار اور منتظر ہوں۔

جواب: سورہ یوسف کی آیات ۱۸ اور ۸۳ میں سَوَّلَتْ کا جو مفہوم میں نے بیان کیا ہے وہی علامہ زمخشری نے اپنی تفسیر کشاف میں بیان کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’سَوَّلَتْ (سھّلت من السَوَلِ وھوالاسترخاء) لَکُمْ اَنْفُسُکُمْ اَمْراً (عظیماً ارتکبتموہ من یوسف وَھَوَّنْتُہ فی اعینکم)

(سَوَّلَتْ کے معنی سہلّت کے ہیں یعنی آسان کردیا (اس کا مادہ سَوَل ہے، یعنی نرم ہوجانا، جھک جانا) تمہارے نفس نے تمہارے لیے اس بھاری کام کو جس کا ارتکاب تم نے یوسف کے معاملے میں کیا اور تمہاری نگاہوں میں اسے معمولی چیز بنادیا)۔

بخلاف اس کے سورہ طٰحٰہ کی آیت ۹۶ میں سَوَّلَتْ کا وہ مفہوم موقع و محل سے مناسبت نہیں رکھتا، جو سورہ یوسف کے ترجمے میں اختیار کیا گیا ہے، کیونکہ یہاں سامری اپنی صفائی پیش کر رہا ہے۔ اس لیے یہاں میں نے تَسْوِیْل کو تحسین کے معنی میں لیا ہے اور اس کی گنجائش بھی لغت میں موجود ہے۔

’’التسویل، تحسین الشئی وتزیینہ الی الانسان لیفعلہ او یقولہ‘‘۔

(تسویل کے معنی یہ ہیں کہ کسی شے کو انسان کے لیے خوشنما اور مزّین بنا دیا جائے تاکہ وہ اسے کرے یا کہے)۔

گویا سامری یہ کہہ رہا ہے کہ ’’میرے نفس نے یہی کچھ میرے سامنے ایک اچھے کام کی حیثیت سے پیش کیا۔‘‘

اسی مفہوم کو میں نے ’’سُجھانے‘‘ کے لفظ سے ادا کیا ہے۔ اردو زبان میں ایسے مواقع پر سجھانا قریب قریب اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس میں تسویل کا لفظ عربی زبان میں استعمال کیا جاتا ہے۔ شاہ عبد القادر صاحبؒ نے اس کا ترجمہ کیا ہے:

’’یہی مصلحت دی مجھ کو میرے جی نے‘‘۔

امام راغبؒ نے بھی اپنی مفرودات القرآن میں تسویل کے معنی تزیین و تحسین بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:

’’التسویل: تزیین النفس لما تحرض علیہ وتصویر القبیح منہ بصورۃ الحسن‘‘۔

(تسویل سے مراد یہ ہے کہ انسان کا نفس اپنی انگیخت کو اس کے لیے مزّین کردے اور برائی کو اس کے لیے خوبصورت بنا کر پیش کرے)۔

قاموس میں ہے:

’’سوّلت لہ نفسہ کذا: زیّنت والاسول من فی اسفلہ استرخاء‘‘۔

لین (LANE) نے اپنی لغت مدّالقاموس میں سوّل کے معنی درج کئے ہیں:

(MADE IT APPEAR EASY TO HIM)

(اس بات کو اس کے لیے آسان بنادیا)۔

(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۹ء)