دین و شریعت کی تشریح کے متعلق ایک سوال

سوال:(۱) تفہیم القرآن جلد چہارم سورۂ الشوریٰ کے حاشیہ ۲۰ صفحہ ۴۸۸۔۴۸۹ پر آپ نے تحریر فرمایا ہے:

’’بعض لوگوں نے … یہ رائے قائم کرلی ہے کہ لا محالہ اس دین سے مراد شرعی احکام و ضوابط نہیں ہیں، بلکہ صرف توحید و آخرت اور کتاب و نبوت کو مانتا اور اللہ تعالیٰ کی عبادت بجا لانا ہے، یا حد سے حد اس میں وہ موٹے موٹے اخلاقی اصول شامل ہیں جو سب شریعتوں میں مشترک رہے ہیں۔ لیکن یہ ایک بڑی سطحی رائے ہے جو محض سرسری نگاہ سے دین کی وحدت اور شرائع کے اختلافات کو دیکھ کر قائم کرلی گئی ہے اور یہ ایسی خطرناک رائے ہے کہ اگر اس کی اصلاح نہ کردی جائے تو آگے بڑھ کر بات دین و شریعت کی اس تفریق تک جا پہنچے گی جس میں مبتلا ہو کر سینٹ پال نے دین بلا شریعت کا نظریہ پیش کیا اور سیدنا مسیح علیہ السلام کی امت کو خراب کردیا‘‘۔

بعد ازاں قرآن کی آیات کے حوالے سے آپ نے ثابت فرمایا ہے کہ دین سے مراد صرف ایمانیات ہی نہیں ہیں بلکہ شرعی احکام بھی اس میں شامل ہیں اور امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اس کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے۔ اس سلسلے میں گزارش ہے کہ ’’رسالہ دینیات‘‘ کے باب ششم میں دین اور شریعت کا فرق جو آپ نے بیان فرمایا ہے میری ناقص رائے میں اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔

جواب: سورۂ شوریٰ کا حاشیہ نمبر ۲۰ اگر پورا پڑھا جائے تو رسالہ دینیات میں دین اور شریعت کے فرق پر جو مختصر کلام کیا گیا ہے اس پر نظر ثانی کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ خصوصیت کے ساتھ آپ صفحہ ۴۹۰ کی یہ عبارت دیکھیں: ’’جس نبی کی امت کو جو شریعت بھی اللہ تعالیٰ نے دی تھی وہ اس امت کے لیے دین تھی اور اس کے دور نبوت میں اسی کی اقامت مطلوب تھی۔ اور اب چونکہ سیدنا محمدﷺ کا دور نبوت ہے، اس لیے امت محمدیہ کو جو شریعت دی گئی ہے وہ اس دور کے لیے دین ہے اور اسی کا قائم کرنا ہی دین کا قائم کرنا ہے‘‘۔

رسالہ دینیات میں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ دین کا حصہ ایمانیات ہمیشہ سے مشترک رہا ہے، اور اس کا حصہ شریعت مختلف زمانوں میں مختلف انبیا کے ذریعے سے بلحاظ احوال مختلف رہا ہے۔ یہ رسالہ چونکہ مبتدیوں کے لیے لکھا گیا تھا اس لیے اس میں وہ مفصل بحث نہیں کی جاسکتی تھی جو سورہ شوریٰ کی تفسیر میں کی گئی ہے۔

(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۷۷ء)