تفہیم القرآن کے چند مقامات پر اعتراضات

ہمارے پاس تفہیم القرآن کے بعض مقامات پر کچھ اعتراضات آئے ہیں جنہیں ہم نے اسی غائر سے دیکھا جس کے وہ مستحق تھے۔ ذیل میں ہم ایک ایک اعتراض کو نقل کرکے اس پر بحث کریں گے:

اعتراض ۱۔ سورہ یوسف، آیت ۳

’’نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ أَحْسَنَ الْقَصَصِ‘‘۔

’’القَصَصِ‘‘ یہاں مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا ہے، مصدر عربی کے معروف قاعدے کے مطابق نکرہ آنا چاہیے۔ ’’احسن القصص‘‘ ’’احسن الحدیث‘‘ کی نوعیت کی ترکیب ہے اور ’’قصص‘‘ یہاں بمعنی ’’مقصوص‘‘ استعمال ہوا ہے۔ لفظ کا یہ استعمال عربیت کے مطابق ہے۔ قَصَّ یَقُصُّ، مفعول کی طرف متعدی ہوتا ہے اور قرآن میں یہ ہر جگہ مفعول ہی کے طور پر استعمال ہوا ہے بنا بریں صحیح ترجمہ ہوگا:

’’ہم تمہیں بہترین سرگزشت سناتے ہیں‘‘۔

لسان العرب میں ’’نَحْنُ نُبَیِّنُ لَکَ اَحْسَنَ الْبَیَان‘‘ کا فقرہ بھی اسی ترجمہ کی تائید کرتا ہے۔ اس لیے کہ ’’بیان‘‘ کا لفظ یہاں اسم کے طور پر استعمال ہوا ہے، مصدر کے طور پر استعمال نہیں ہوا‘‘۔

جواب: تفہیم القرآن میں اس آیت کی ترجمانی ان الفاظ میں کی گئی ہے: ہم بہترین پیرائے میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں۔ اگر اس آیت کا لفظی ترجمہ کیا جاتا تو عبارت یہ ہوتی کہ ’’ہم تم سے بیان کرتے ہیں بہترین پیرائے میں بیان کرنا‘‘۔ لیکن یہ اردو زبان کے لیے ایک نامانوس اسلوب ہوتا، اس لیے ہم نے ’’قصہ بیان کرنے‘‘ اور ’’بہترین پیرائے میں بیان کرنے‘‘ کے مفہومات کو اردو زبان کے محاورے کے مطابق ادا کیا ہے۔ اب قبل اس کے کہ اس پر قواعد زبان کے لحاظ سے بحث کی جائے، یہ دیکھنا چاہیے کہ اکابر اہل علم نے اس آیت کا کیا ترجمہ کیا ہے:

شاہ ولی اللہ صاحبؒ : ’’ما قصہ خوانیم بر تو بہترین قصہ خواندن‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ:’’ہم بیان کرتے ہیں اوپر تیرے بہت اچھی طرح بیان کرنا‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’ہم بیان کرتے ہیں تیرے پاس بہترین بیان‘‘۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ: ’’ہم آپ سے ایک بڑا عمدہ قصہ بیان کرتے ہیں‘‘۔

پہلے دونوں بزرگوں نے ٹھیک وہی کام کیا ہے جو آپ کے نزدیک غلط ہے، یعنی انہوں نے القصص کو مصدر کے معنی میں لے کر ’’قصہ خواندن‘‘ اور ’’بیان کرنا‘‘ اس کا ترجمہ کیا ہے۔ البتہ دوسرے بزرگوں نے اسے اسم قرار دے کر اس کا ترجمہ ’’بیان‘‘ اور ’’قصہ‘‘ کیا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ عربی زبان میں دونوں تعبیرات کی گنجائش ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے بارے میں مشکل ہی سے کوئی شخص یہ دعویٰ کرنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ وہ عربی کے معروف قاعدوں سے ناواقف تھے۔

اب قواعد زبان کے لحاظ سے دیکھیے۔ زمخشری کہتے ہیں کہ القصص مصدر بھی ہوسکتا ہے اِقتصاص (قصہ بیان کرنے) کے معنی میں اور فعل بمعنی مفعول بھی ہوسکتا ہے، جیسے الخبر سے مراد وہ بات ہے جس کی خبر دی گئی ہو اور جائز ہے کہ مفعول کو مصدر کے نام سے موسوم کیا جائے جیسے مخلوق کا نام خلق۔ اب اگر القصص کو مصدر کے معنی میں لیا جائے تو آیت کا مطلب یہ ہوگا کہ نحن نقص علیک احسن الاقتصاص (ہم بیان کرتے ہیں تم سے بہترین بیان کرنا) اور اگر القصص سے مقصوص (بیان کی ہوئی چیز)مراد ہو تو اس کے معنی ہوں گے نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ اَحْسَنَ مَا یَقُصُّ مِنَ الْاَحَادِیْثِ (ہم بیان کرتے ہیں تم سے وہ چیز جو بہترین ہے ان باتوں میں سے جو بیان کی جاتی ہیں)۔

یہی بات امام رازی نے بھی کہی ہے اور اس پر یہ اضافہ کیا ہے کہ اگر قصص کو اِقتصاص کے معنی میں مصدر مانا جائے تو لفظ احسن خوبی کے لیے استعمال ہوا ہے وہ حسن بیان کی طرف راجع ہوگی نہ کہ قصے کی طرف، یعنی اس کا مطلب ہوگا بہترین طریقے سے بیان کرنا، نہ کہ بہترین قصہ اور اگر قَصَص کو مَقْصُوص (بیان کردہ بات) کے معنی میں لیا جائے تو یہ خوبی اس قصے کی ہوگی جو بیان کیا گیا ہے۔

علامہ آلوسی نے قصص کو مصدر اور اقتصاص کا ہم معنی قرار دیتے ہوئے ایک نکتے کا اور اضافہ کیا ہے، اور وہ یہ ہے کہ اس جملے میں اَحْسَنَ الْقَصَصِ، نَقُصُّ کا مفعول نہیں ہے، بلکہ اس کا مفعول محذوف ہے، اور وہ ہے اس صورت کا مضمون۔ اسی بنا پر ہم نے اس محذوفِ مقدَّر کو ’’واقعات اور حقائق‘‘ کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔

اعتراض ۲۔ سورۂ مومنون آیت ۶۷

مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ

استکبار کے بعد ’’ب‘‘ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہ لفظ یہاں استہزاء کے مفہوم پر متضمن ہے عربی میں جب ’’صلہ‘‘ لفظ کے ساتھ مناسبت نہ رکھتا ہو تو مناسب لفظ محذوف ہوتا ہے، جیسے ’’فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ‘‘۔ صَبَرَ یَصْبِرُ کے ساتھ ’’ل‘‘ کا صلہ مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے پورا جملہ ہوگا ’’فَاصْبِرْوَ انْتَظِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ‘‘۔ ’’خَلَا‘‘ کے ساتھ ’’اِلیٰ‘‘ مناسبت نہیں رکھتا، اس لیے تقدیر جملہ ہوگی اِذَا خَلَوا وَذَھَبُوْا اِلیٰ شَیٰطِیْنِھِمْ۔ لفظ سٰمِراً تَھْجُرُوْنَ کا مفعول بھی ہوسکتا ہے اور اگر اس کو بِہٖ کی ضمیر مجرور کو حال مانیں جب بھی کوئی قباحت نہیں ہے۔

’’تَھْجُرُنَ، (تم چھوٹے ہو) اپنے معروف معنی میں استعمال ہوا ہے۔

ترجمہ: گھمنڈ کرتے ہوئے گویا کسی افسانہ گو کہ چھوڑ رہے ہو۔

جواب: اس بحث کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ جس سلسلئہ بیان میں یہ فقرہ آیا ہے اسے نگاہ میں رکھا جائے۔ پورا مضمون یہ ہے قَدْ كَانَتْ آيَاتِي تُتْلَى عَلَيْكُمْ فَكُنتُمْ عَلَى أَعْقَابِكُمْ تَنكِصُونَ ( 66 ) مُسْتَكْبِرِينَ بِهِ سَامِرًا تَهْجُرُونَ ( 67 ) (المومنون:آیت ۶۶۔ ۶۷)

تفہیم القرآن میں ان آیتوں کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے:

’’میری آیات سنائی جاتی تھیں تو تم (رسول کی آواز سنتے ہی) الٹے پاؤں بھاگ نکلتے تھے، اپنے گھمنڈ میں اس کو خاطر ہی میں نہ لاتے تھے، اپنی چوپالوں میں اس پر باتیں چھانٹتے اور بکواس کرتے تھے‘‘۔

دوسرے اکابر اہل علم کے ترجمے یہ ہیں:

شاہ ولی اللہ صاحبؒ: ’’ہر آئینہ خواندہ می شد آیات مابرشما پس شما بر پا شنہائے خود بازمی گشتید تکبر کناں برآں قرآن، بافسانہ مشغول شدہ ترک می کردید‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’تحقیق تھیں آیتیں میری کہ پڑھی جاتی تھیں اوپر تمہارے، پس تھے تم اوپر اپنی ایڑیوں کے پھر جاتے تکبر کرتے ہوئے ساتھ اس کے، افسانہ گوئی کرتے ہوئے بیہودہ بکتے تھے‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’تم کو سنائی جاتی تھیں میری آیتیں تو تم ایڑیوں پر الٹے بھاگتے تھے۔ اس سے بڑائی کر کر ایک کہانی والے کو چھوڑ کر چلے گئے۔‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ : ’’میری آیتیں تم کو پڑھ پڑھ کر( رسول کی زبانی) سنائی جایا کرتی تھیں تو تم الٹے پاؤں بھاگتے تھے، تکبر کرتے ہوئے، قرآن کا مشغلہ بناتے ہوئے (اس قرآن کی شان میں) بیہودہ بکتے ہوئے‘‘۔

تفہیم القرآن میں مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ کی ضمیر آیات سنانے والے رسول کی طرف پھیری گئی ہے، اور اس کے ساتھ استکبار کرنے (یعنی گھمنڈ کرنے) میں عدم اعتنا کو مُقَدَّر مان کر اس کا مفہوم ’’خاطر میں نہ لانے‘‘ سے ادا کیا گیا ہے۔ سَمر کو عربی محاورے کے مطابق راتوں کی افسانہ گوئی اور گپ بازی کے معنی میں لیا گیا ہے جو ہر قبیلے کی چوپال میں ہوا کرتی تھی۔ اور تَھْجُرُوْنَ کو ہذیان اور بدگوئی کے معنی میں لیا گیا ہے۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور ان کے دونوں صاحبزادوں اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے بِہٖ کی ضمیر قرآن یا اس کے سنانے والے رسول کی طرف پھیر دی ہے۔ آگے کے مضمون میں شاہ ولی اللہ صاحبؒ، شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے سامراً کا مفہوم بافسانہ مشغول شدن، افسانہ گوئی کرنے اور قرآن کا مشغلہ بنانے سے ادا کیا ہے، اور صرف شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے اس کا مطلب یہ لیا ہے کہ کفار قریش رسول اللہﷺ کو سامر (کہانی سنانے والا) قرار دیتے تھے۔ تَھْجُرُوْنَ کو شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے ترک کرتے اور چھوڑدینے کے معنی میں، اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے بیہودہ بکواس کے معنی میں لیا ہے۔ اب دیکھیے کہ اکابر مفسرین ان آیتوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔

ابن جریر کہتے ہیں کہ سَمْر سے مراد رات کے وقت افسانہ گوئی کرنا ہے، اور تَھْجُرُوْنَ کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ وہ لوگ قرآن یا رسول ﷺ سے بے رخی کرنے اور آپ کو چھوڑ دیتے تھے۔ دوسرے یہ کہ وہ ہذیان بکتے تھے۔ اس کے بعد صحابہ و تابعین کے اقوال نقل کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عباسؓ نے تَھْجُرُوْنَ کا مطلب اللہ کے ذکر اور حق کو چھوڑ دینا بیان کیا ہے۔ حضرت سعید بن جبیر کے نزدیک سَامِراً تَھْجُرُوْنَ کی تفسیر ’’راتوں کی افسانہ گوئی اور خلاف حق باتوں میں انہماک‘‘ ہے۔ مجاہد کہتے ہیں کہ تَھْجُرُوْنَ سے مراد قرآن کے بارے میں بد گوئی ہے۔ اور ابن زید کے نزدیک یہ لفظ ہذیان کے معنی میں ہے۔

زمخشری مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ سَامِراً تَھْجُرُوْنَ کی تفسیر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ :

(۱) بِہٖ کی ضمیر کا مرجع اَیَاتِیْ بمعنی کِتَابِیْ بھی ہو سکتا ہے۔اس صورت میں قرآن سے استکبار کرنے کا مطلب یا تو یہ ہوگا کہ وہ تکبّر کرتے ہوئے اس کی تکذیب کرتے ہیں، یا پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن سن کر ان پر غرور اور سرکشی کا دورہ پڑ جاتا ہے اور اس لحاظ سے وہ قرآن کے ساتھ استکبار کے مرتکب ہوتے ہیں۔

(۲) بِہٖ کا تعلق سَامِراً سے بھی ہوسکتا ہے۔ اس صورت میں معنی یہ ہوں گے کہ وہ اپنی راتوں کی مجلسوں میں قرآن کا ذکر کرتے ہوئے اس پر طعن و تشنیع کرتے ہیں۔ کفّار قریش کا معمول یہ تھا کہ وہ راتوں کو بیت اللہ کے ارد گرد مجلسیں جما کر بیٹھ جاتے تھے اور اپنا وقت زیادہ تر قرآن کے خلاف باتیں چھانٹنے اور رسول اللہﷺ پر سبّ و شتم کرنے میں صرف کرتے تھے۔

(۳) بِہٖ کا تعلق تَھْجُرُوْنَ سے بھی ہوسکتا ہے جو اگر ھُجر سے مشتق ہو تو اس کے معنی فحش گوئی کے ہیں، اور ھُجر سے مشتق ہوتو اس کے معنی ہذیان بکنے کے ہیں۔

امام رازی اور بیضاوی کی تفسیر زمخشری اور ابن جریر کی تفسیر سے کچھ مختلف نہیں ہے۔

آلوسی کہتے ہیں کہ مُسْتَکْبِرِیْنَ بِہٖ میں (ب) یا تو تعدیہ کے لیے ہے تا کہ استکبار میں ضمناً تکذیب کا مفہوم شامل ہوجائے، یا سببیت کے لیے ہے، کیونکہ کفار کے اندر استکبار رسول اللہﷺ کی بعثت کے سبب سے ظاہر ہوا تھا۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ ضمیر کا مرجع قرآن ہو جس پر لفظ آیات دلالت کرتا ہے۔ اور یہ بھی جائز ہے کہ اس کا تعلق سامراً سے ہو اور معنی یہ ہوں کہ وہ اپنی راتوں کی گفتگوؤں میں قرآن کے خلاف طعن کرتے تھے۔ آگے چل کر وہ کہتے ہیں کہ تَھْجُرُوْنَ ھَجْر سے مشتق ہے جس کے معنی چھوڑ دینے اور تعلق توڑ دینے کے ہیں اور یہ حال کے طور پر یہاں لایا گیا ہے اس معنی میں کہ وہ حق کو، یا قرآن کویا نبیﷺ کو چھوڑتے ہوئے ایسا کرتے ہیں۔ نیز ھجر کے معنی ہذیان کے بھی ہیں اور اس معنی کے لحاظ سے مطلب یہ ہوگا کہ وہ قرآن یا نبیﷺ کی شان میں ہذیان بکتے ہیں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تَھْجُرُوْنَ ھُجر سے ہو جس کے معنی کلام قبیح کے ہیں۔

اس بحث سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ تفہیم القرآن کی ترجمانی اور دوسرے مترجمین کے ترجموں میں سے کسی پر بھی وہ اعتراض وارد نہیں ہوتا جو معترض نے کیا ہے۔

اعتراض ۳۔ سورۂ آل عمران، آیت ۱۸۲

’’وَاَنَّ اللہَ لَیْسَ بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِیْدِ‘‘۔

اس کا صحیح ترجمہ ہوگا ’’اللہ اپنے بندوں پر ذرا بھی ظلم کرنے والا نہیں ہے‘‘۔ عربی میں مبالغہ پر نفی آئے تو اس سے مقصود ’’مبالغہ فی النّفی‘‘ ہوگا۔

جواب: یہ کوئی قاعدہ کلیہ نہیں ہے کہ جب بھی مبالغہ پر نفی آئے تو وہ مبالغہ فی النّفی کے معنی میں ہوگی۔ ظلّام کے معنی ہیں بہت بڑا ظلم کرنے والا۔ یہ لفظ جب نفی کے ساتھ بولا جائے گا تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوگا کہ فلاں شخص مطلق ظلم کرنے والا نہیں ہے، بلکہ یہ ہوگا کہ وہ بڑا ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ اور سننے والا اس سے یہ نتیجہ نکالے گا کہ وہ کسی نہ کسی حد تک تو ضرور ظلم کر گزرتا ہے۔ اسی لیے تفہیم القرآن میں اس جملے کا ترجمہ یہ کیا گیا ہے کہ ’’اللہ اپنے بندوں کے لیے ظالم نہیں ہے‘‘۔ اور یہی ترجمہ دوسرے مترجمین نے بھی کیا ہے۔ شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے :’’ خدا ستم کنندہ نیست بر بندگان‘‘۔ شاہ رفیع الدین صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے : ’’اللہ نہیں ظلم کرنے والا واسطے بندوں کے‘‘۔ شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ ہے: ’’اللہ ظلم نہیں کرتا بندوں پر ‘‘۔ اور مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ اس کا ترجمہ یہ کرتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ بندوں پر ظلم کرنے والے نہیں‘‘۔ اس طرح ظلم کی نفی سے ظلّام کی نفی آپ سے آپ ہوجاتی ہے اور کسی مبالغہ فی النّفی کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ ظاہر ہے کہ جو ظالم نہیں ہے وہ آخر بہت بڑا ظالم کیسے ہوجائے گا۔

اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت ہی میں نہیں بلکہ دوسری متعدد آیات میں اپنے ظالم ہونے کی نفی کے بجائے ظلّام ہونے کی نفی اس لیے کی ہے کہ خالق اگر اپنے بندوں کو بے قصور عذاب دے تو وہ معمولی ظالم نہیں بلکہ بہت بڑا ظالم ہوگا۔ پس یہ بات ارشاد فرما کر وہ یہ حقیقت اپنے بندوں کے ذہن نشین کرنا چاہتا ہے کہ جو خدا ان کا پیدا کرنے والا اور ان کی پرورش کرنے والا ہے وہ انہیں عذاب اسی صورت میں دیتا ہے جب وہ طغیان و سرکشی میں حد سے گزر جاتے ہیں اور اپنے کرتوتوں سے اپنے آپ کو عذاب کا مستحق بنا لیتے ہیں۔ ورنہ خالق اور رب اپنی مخلوق کے حق میں رحیم ہی ہوسکتا ہے، ظالم ہر گز نہیں ہوسکتا۔

اعتراض ۴۔ سورہ حج، آیت ۱۵

’’ثُمَّ لْیَقْطَعْ‘‘

لِیَقْطَعْ، یہاں عزم و جزم کے ساتھ کسی معاملہ کا فیصلہ کرنے کے مفہوم میں ہے۔
(سورہ نمل : ۳۲) میں ہے قَالَتْ یٰاَ یَھُّاَ قَالَتْ يَا أَيُّهَا المَلَأُ أَفْتُونِي فِي أَمْرِي مَا كُنتُ قَاطِعَةً أَمْرًا حَتَّى تَشْهَدُونِ
یعنی میں کسی معاملہ کا قطعی فیصلہ نہیں کرتی جب تک آپ لوگ موجود ہو کر مشورہ نہ دیں۔ لہٰذا پورا جملہ یہ ہوگا:

’’اسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچے پھر اپنے معاملہ کا فیصلہ کرلے، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر اس کے غم کو دور کرسکتی ہے‘‘۔

جواب: یہ بات قطعاً غلط ہے کہ عربی زبان میں لفظ قطع کے معنی فیصلہ کرنے کے ہیں۔ لغت کی کسی کتاب سے اس کا ثبوت پیش نہیں کیا جاسکتا۔ جس آیت سے استدلال کیا گیا ہے اس میں قَاطِعَۃً اَمْراً کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ قطع کا لفظ امر کے ساتھ تو بے شک عربی محاورے میں کسی معاملے کا فیصلہ کرنے کے معنی دیتا ہے، لیکن محض قطع سے یہ مفہوم ہر گز نہیں نکلتا۔ یہ ایسی ہی تاویل ہے جیسے بعض لوگوں نے دیکھا کہ ضَرْب فِی الْاَرْض کے معنی زمین میں چلنے اور سفر کرنے کے ہیں تو انہوں نے یہ سمجھ لیا کہ محض لفظ ضرب کے معنی بھی یہی ہیں، اور فَقُلْنَا اضْرِبْ بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ کا مطلب یہ لے لیا کہ ہم نے موسیٰ سے کہا اپنا عصا لے کر چٹان پر چڑھ جانا۔

سورۂ حج میں یہ لفظ جس آیت میں وارد ہوا ہے وہ ایک سلسلہ بیان کا حصہ ہے جو رکوع ۲ کے آغاز سے چلا آرہا ہے۔ اس میں فرمایا گیا ہے کہ لوگوں میں سے کوئی تو ایسا ہے جو حق و باطل کی سرحد پر رہ کر اللہ کی عبادت کرتا ہے۔ اگر اسے فائدہ ہوا تو مطمئن ہوجاتا ہے، اور اگر کوئی آفت آگئی تو الٹا پھر جاتا ہے اور ایک ایک آستانے پر ماتھا رگڑنے لگتا ہے جہاں کسی کے پاس بھی نفع یا نقصان پہنچانے کے اختیارات نہیں ہیں۔ اس کے برعکس جو لوگ ایمان لاتے اور نیک عمل کرتے ہیں، اللہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کریگا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ در حقیقت یہ اختیار اللہ ہی کا ہے کہ جو کچھ چاہے کرے۔ اس کے بعد فرمایا گیا:

مَن كَانَ يَظُنُّ أَن لَّن يَنصُرَهُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ فَلْيَمْدُدْ بِسَبَبٍ إِلَى السَّمَاء ثُمَّ لِيَقْطَعْ فَلْيَنظُرْ هَلْ يُذْهِبَنَّ كَيْدُهُ مَا يَغِيظُ

تفہیم القرآن میں اس کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے: ’’جو شخص یہ گمان رکھتا ہو کہ اللہ دنیا اور آخرت میں اس کی کوئی مدد نہ کرے گا اسے چاہیے کہ ایک رسّی کے ذریعے آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے، پھر دیکھ لے کہ آیا اس کی تدبیر کسی ایسی چیز کو رد کرسکتی ہے جو اس کو ناگوار ہے‘‘۔ اس میں گمان کرنے والے شخص سے مراد وہی شخص لیا گیا ہے جو کنارے پر رہ کر خدا کی عبادت کرتا ہے، اور اسی کا یہ گمان قرار دیا گیا ہے کہ اللہ اس کی کوئی مدد نہ کرے گا۔ اس کے بعد آگے کے مضمون کا یہ مطلب خود واضح ہوجاتا ہے کہ آستانوں پر جانا تو درکنار، اگر ہوسکے تو آسمان تک پہنچ کر اس میں شگاف ڈال کے بھی دیکھ لے، کیا خدا کی جو تقدیر اسے ناگوار ہے اسے وہ بدل سکتا ہے؟

اب یہ بھی دیکھ لیجیے کہ اکابر علماء کے ترجموں میں سے کسی میں بھی ثُمَّ لْیَقْطَعْ کا وہ مفہوم نہیں لیا گیا ہے جو آپ لے رہے ہیں۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے: ’’پس باید کہ بیاو یزدر سنے بجانب بالا، بازباید کہ خفہ شودپس درنگرد آیا دورمی کندایں تدابیر او چیزے را کہ بخشم آوردہ‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’پس چاہیے کہ کھینچ لے جاوے ایک رسی طرف آسمان کے، پھر چاہے کہ کاٹ ڈالے، پھر دیکھے کیا لے جائے گا مگر اس کا اس چیز کو کہ غصے میں لاتی ہے اسے‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ: ’’تو تانے ایک رسی آسمان کو، پھر کاٹ ڈالے، اب دیکھے کچھ گیا اس کی تدبیر سے اس کے جی کا غصہ‘‘۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ : ’’تو اس کو چاہیے کہ ایک رسی آسمان تک تان لے، پھر (اس کے ذریعہ سے آسمان پر پہنچ کر اگر ہوسکے) اس وحی کو موقوف کرادے۔ تو پھر اب غور کرنا چاہیے آیا اس کی یہ تدبیر اس کی ناگواری کی چیز کو (یعنی وحی کو) موقوف کرسکتی ہے۔‘‘

مفسرین کے جو اقول امام رازیؒ اور علامہ آلوسیؒ نے نقل کیے ہیں وہ بھی دیکھ لیجیے۔

۱۔ مسلمانوں میں سے ایک گروہ مشرکین کے خلاف اپنی شدت غیظ کی بنا پر اللہ کی طرف سے اپنے رسول اور اپنے دین کی مدد آنے میں دیر لگتی دیکھ کر سخت بے چین ہو رہا تھا۔ اس پر فرمایا گیا کہ جو شخص یہ گمان رکھتا ہے کہ اللہ اپنے رسولﷺ کی مدد نہ کرے گا، وہ بڑی سے بڑی کوشش کرکے دیکھ لے، حتیٰ کہ آسمان تک کسی رسی کے ذریعے سے قطع مسافت کرسکتا ہو تو وہ بھی کر دیکھے، کیا اس کی یہ تدبیر خدا کی طرف سے نصرت آنے میں اس تاخیر کو رفع کرسکتی ہے جس پر غیظ میں مبتلا ہے۔

۲۔ کفار یہ سمجھتے تھے کہ اللہ اپنے رسول کی مدد نہ کرے گا اس لیے ان سے یہ کہا گیا کہ کسی رسی کے ذریعہ سے آسمان تک قطع مسافت کرسکتے ہو تو وہ بھی کرکے دیکھ لو، کیا تم رسول ﷺ کے لیے اللہ کی مدد آنے کو روک سکتے ہو جس پر تم جل بھُن رہے ہو۔

۳۔ یہ مطلب بھی اس آیت کا لیا گیا ہے کہ اگر بن پڑے تو آسمان تک پہنچ کر رسول ﷺ پر وحی آنے کا سلسلہ منقطع کرنے کی کوشش کر دیکھو جس کا آنا تمہیں سخت ناگوار ہے۔

۴۔ بعض مفسرین نے آسمان سے مراد مکان کی چھت لی ہے، اور آیت کا مطلب یہ لیا ہے کہ جو شخص دنیا اور آخرت میں اللہ سے مدد کی امید نہیں رکھتا اسے چاہیے کہ اپنے گھر کی چھت سے رسی لٹکا کر پھانسی لے لے اور دیکھے کہ آیا اس طریقے سے اس کا وہ غیظ دور ہوسکتا ہے جو اللہ سے مدد نہ ملنے پر اسے لاحق ہے۔ اس قول کے قائلین قطع سے مراد سانس کی آمدورفت کے راستے منقطع کردینا لیتے ہیں۔

اس سے معلوم ہوتا ہوا کہ مفسرین میں سے کسی نے بھی قطع سے مراد فیصلہ کرنا نہیں لیا ہے بلکہ سب اسے حقیقی یا مجازی طور پر کاٹنے ہی کے معنی میں لیتے ہیں۔

اعتراض ۵۔ سورۂ انفال، آیت ۶۷ تا ۶۹

’’مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَن يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ تُرِيدُونَ عَرَضَ الدُّنْيَا وَاللّهُ يُرِيدُ الآخِرَةَ وَاللّهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ، لَّوْلاَ كِتَابٌ مِّنَ اللّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ، فَكُلُواْ مِمَّا غَنِمْتُمْ حَلاَلاً طَيِّبًا وَاتَّقُواْ اللّهَ إِنَّ اللّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ‘‘

عام طور پر اس کا ترجمہ کیا جاتا ہے: نبی کے لیے زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک وہ زمین میں اچھی طرح خواریزی نہ کرلے۔

اس مفہوم کو ادا کرنے لیے ’’اثخان فی الارض‘‘ کے الفاظ قطعی طور پر مناسب نہیں ہیں۔ اگر یہی بات کہنا ہوتی تو ’’حَتیّٰ یُثْخِنَہُمْ‘‘ کے الفاظ استعمال کیے جاتے۔

’’لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ‘‘ کے الفاظ بھی قرآن حکیم میں بالعموم کفار کے لیے اِمہال کی سنت الٰہیہ کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور واقعہ یہی ہے کہ بدر میں ’’اِثخان‘‘ کچھ کم نہیں ہوا تھا۔

فِیْمَآ اَخَذْتُمْ اس طرح کے اسلوب میں روش اختیار کرنے، طریقہ اپنانے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔

آیات کا پس منظر یہ ہے کہ بدر کے بعد جب فدیہ پر معاملہ ہوا تو قریش نے پروپیگنڈا کرنا شروع کردیا کہ یہ تو بس دنیا کے طالب ہیں۔ یہ جنگ و جدال حق کی خاطر نہیں۔ مالِ غنیمت سمیٹنے کے لیے برپا کیا گیا ہے۔ قیدیوں کو پکڑا ہے تو اب انہیں بھی فدیہ لے کر چھوڑ رہے ہیں۔ نبوت کا تو بس ادعا ہی ہے، اصل سوال تو روپے کا درپیش ہے جس کے لیے جتھہ بندی کی گئی ہے۔ اس پروپیگنڈا کی تردید میں ارشاد ہوا:

یہ نبی کا مقام نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں یہاں تک کہ وہ اس کے لیے زمین میں خوانریزی کرے۔(اے قریش مکہ) یہ تم ہو جو دنیا کے طالب ہو، اللہ تو بس آخرت کو چاہتا ہے، اور اللہ عزیز و حکیم ہے۔ اگر اللہ کے ہاں پہلے ہی تمہارے لیے (امہال کا) نوشتہ نہ ہوتا تو جو روش تم نے اختیار کی تھی، اس کی پاداش میں تمہیں عذاب عظیم آلیتا‘‘۔

جواب: سب سے پہلے تو وہ پس منظر ہی غلط ہے جسے بنیاد بنا کر ان آیات کا نیا ترجمہ تجویز کیا گیا ہے۔ اس امر کا قطعاً کوئی ثبوت حدیث یا تاریخ کی روایات میں موجود نہیں ہے کہ قیدیوں کا فدیہ لینے پر کفار قریش نے اس طرح کا کوئی پروپیگنڈا کیا تھا جو معترض نے بیان کیا ہے اور اس کے جواب میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ یہ محض ایک خود ساختہ مفروضہ ہے اور آیات قرآنی کی تفسیر ایسے مفروضات کی بنا پر کرنا کسی طرح صحیح نہیں ہے۔ اصل پس منظر یہ ہے کہ سورۂ محمد، آیت ۴ میں جنگی قیدیوں سے فدیہ لینے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی گئی تھی کہ کفار سے جب لڑائی ہو تو پہلے ان کی گردنیں مار مار کر انہیں اچھی طرح کچل دیا جائے۔ پھر قیدی پکڑے جائیں۔ اس کے بعد مسلمانوں کو اختیار دیا گیا تھا کہ خواہ ان کے ساتھ احسان کریں یا فدیہ لے لیں۔ اس آیت کے ابتدائی الفاظ فَاِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا (جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو) اس بات کو خود ظاہر کر رہے ہیں کہ یہ فرمان الٰہی اس وقت نازل ہوا تھا جب کفار سے ابھی لڑائی کی نوبت نہیں آئی تھی۔ اس لیے اس کے حکم کا اطلاق سب سے پہلے جنگ بدر پر ہوا۔ جنگ بدر میں بلا شبہ مجاہدین اسلام نے حمایت حق میں جان لڑا کر کفار قریش کی تین گنا بڑی قوت کو شکست دے دی تھی، لیکن اثخان کی شرط پوری کیے بغیر وہ قیدی پکڑنے میں لگ گئے۔ یہ بات حضرت سعد بن معاذ ؓ نے اسی وقت حضورﷺ سے عرض کردی تھی جب وہ حضورﷺ کے ساتھ ایک بلند جگہ سے معرکے کو دیکھ رہے تھے۔ مجاہدین کو مالِ غنیمت حاصل کرنے اور قیدی پکڑنے میں مشغول دیکھ کر ان کے چہرے پر ناگواری کے اثرات ملاحظہ فرماکر حضورﷺ نے ان سے پوچھا ’’اے سعد، معلوم ہوتا ہے کہ یہ کاروائی تمہیں پسند نہیں آرہی ہے‘‘۔ انہوں نے عرض کیا جی ہاں، یا رسول اللہﷺ، یہ پہلا موقع ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے اہل شرک کو شکست دلوائی ہے۔ اس وقت انہیں قیدی بنانے سے بہتر یہ ہوتا کہ انہیں خوب کچل ڈالا جاتا (یعنی افراتفری میں بھاگتے ہوئے کافروں کو زیادہ سے زیادہ قتل کرکے ان کی طاقت توڑ ڈالی جاتی)۔ اسی بات کی تصدیق اللہ تعالیٰ نے سورۂ انفال کی ان آیتوں میں فرمادی۔

اب دیکھیے کہ تفہیم القرآن میں اس کی ترجمانی کس طرح کی گئی ہے اور دوسرے جلیل القدر مترجمین نے ان کا کیا ترجمہ کیا ہے۔

تفہیم القرآن: ’’کسی نبی کے لیے یہ زیبا نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ زمین میں دشمنوں کو اچھی طرح کچل نہ دے۔ تم لوگ دنیا کے فائدے چاہتے ہو، حالانکہ اللہ کے پیش نظر آخرت ہے، اور اللہ غالب اور حکیم ہے۔ اگر اللہ کا نوشتہ پہلے نہ لکھاجا چکا ہو تا جو کچھ تم نے لیا ہے اس کی پاداش میں تم کو بڑی سزا دی جاتی۔پس جو کچھ تم نے مال حاصل کیا ہے اسے کھاؤ کہ وہ حلال وطیب ہے،اور اللہ سے ڈرتے رہو،یقینااللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ : ’’ سزاوار نبود پیغمبر راکہ بدست دے اسیران باشندتا آنکہ قتل بسیار بوجوہ آورددر زمین۔ می خواہید مالِ دنیا راوخدا می خواہد مصلحت آخرت را، وخدا غالب باحکمت است۔ اگر نبودے حکم خدا پیشے گرفتہ می رسید بشمادر آنچہ گرفتید عذابِ بزرگ۔ پس بخورید آنچہ غنیمت گرفتید حلال و پاکیزہ۔ وبتر سید ازخدا، ہر آئینہ خدا آمر زندہ مہربان است‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ : ’’نہ تھا لائق واسطے نبی کے یہ کہ ہوویں واسطے اس کے بندی دان،یہاں تک کہ خونریزی کرے بیچ زمین کے۔ ارادہ کرتے ہو تم اسباب دنیا کا اور اللہ ارادہ کرتا ہے آخرت کا، اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔ اگر نہ ہوتا لکھا ہوا اللہ کی طرف سے کہ پہلے گرزا، البتہ لگتا تم کو بیچ اس چیز کے کہ لیا تھا تم نے عذاب بڑا۔ پس کھاؤ اس چیز سے کہ غنیمت لیا ہے تم نے حلال پاکیزہ، اور ڈرو اللہ سے، تحقیق اللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

شاہ عبد القادر صاحبؒ : ’’ کیا چاہیے نبی کو یہ کہ اس کے یہاں قیدی آویں جب تک نہ خون کرے ملک میں؟ تم چاہتے ہو جنس دنیا کی اور اللہ چاہتا ہے آخرت، اور اللہ زور آور ہے حکمت والا۔ اگر نہ ہوتی ایک بات کہ لکھ چکا آگے، تو تم کو آپڑتا اس لینے میں بڑا عذاب۔ سو کھاؤ جو غنیمت لاؤ حلال ستھری، اور ڈرتے رہو اللہ سے، اللہ ہے بخشنے والا مہربان‘‘۔

مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ: ’’ نبی کی شان کے لائق نہیں کہ ان کے قیدی باقی رہیں (بلکہ قتل کردیے جائیں) جب تک کہ وہ زمین میں اچھی طرح (کفار کی) خونریزی نہ کرلیں۔ تم تو دنیا کا مال اسباب چاہتے ہو اور اللہ تعالیٰ آخرت (کی مصلحت) کو چاہتے ہیں، اور اللہ تعالیٰ بڑے زبردست بڑی حکمت والے ہیں۔ اگر خدا تعالیٰ کا ایک نوشتہ مقدر نہ ہوچکا ہوتا تو جو امر تو نے اختیار کیا ہے اس کے بارے میں تم پر کوئی بڑی سزا واقع ہوتی۔ سو جو کچھ تم نے لیا ہے اس کو حلال پاک سمجھ کر کھاؤ اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بڑے رحمت والے ہیں‘‘۔

دیکھ لیجیے۔ تفہیم القرآن ہی میں نہیں باقی سب مستند ترجموں میں بھی اس نقطۂ نظر کا شائبہ تک نہیں پایا جاتا جو آپ نے ان آیات کے مفہوم میں اختیار کیا ہے۔ اس کے بعد مفسرین کے اقوال بھی ملاحظہ کرلیجیے۔

ابن جریر: حَتّٰی یُثْخِنَ فَی الْاَرْضِ، یعنی جب تک وہ زمین میں مشرکین کو خوب قتل کرے اور ان کو بزور مغلوب کرلے۔ لَوْ لاَ کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ … یعنی اے اہل بدر، اگر لوح محفوظ میں اللہ کی طرف سے تمہارے لیے فیصلہ پہلے لکھا ہوا نہ ہوتا کہ اللہ تمہارے لیے غنیمت حلال کرنے والا ہے …تو جو غنیمت اور فدیہ تم نے لیا ہے اس پر تمہیں ایک عذابِ عظیم آلیتا۔

زمخشری: اِثخان کے معنی ہیں کثرت قتل اور اس میں مبالغہ… مطلب یہ ہے کہ اہل کفر میں خوب قتل جاری کرکے کفر ذلیل و ضعیف اور اسلام کو استیلاء و قہر سے غالب اور طاقت ور کر لیا جائے۔ اس کے بعد قیدی پکڑے جائیں۔

امام رازی: اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ نبی کے لیے یہ زیبا نہیں کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ زمین میں خونریزی نہ کرلے، اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ قیدی بنانا مشروع تو تھا مگر اس شرط کے ساتھ کہ پہلے زمین میں اثخان ہولے اور اثخان سے مراد قتل اور تخویف شدید ہے … اور یہ بات (سورہ محمد میں) اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد سے موکدَّ ہوجاتی ہے کہ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاء (یہاں تک کہ جب تم ان کو خوب کچل لو تو پھر قیدیوں کو باندھنا شروع کردو اور اس کے بعد یا تو احسان کرو یا فدیہ لے لو)۔

بیضاوی: لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ سَبَقَ، یعنی اگر اللہ کی طرف سے لوح محفوظ میں پہلے ہی حکم ثبت نہ ہوچکا ہوتا … لَمَسَّکُمْ، یعنی تم کو آلیتا، فِیْمآ اَخَذْتُمْ ، یعنی اس فدیے کی پاداش میں جو تم نے لیا۔

آلوسی: ثَخانَت کے اصل معنی اجسام میں گاڑھے اور دبیز ہونے کے ہیں۔ پھر استعارے کے طور پر یہ لفظ قتل و جراحت میں مبالغہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے کیونکہ وہ بھی حرکت سے روک دیتا ہے اور مقتول و مجروح کو اس گاڑھی چیز کی طرح کردیتا ہے جو بہتی نہیں ہے … لَمَسَّکُمْ، یعنی تمہیں لگتا یا پہنچتا (عذاب)۔ فِیْمآ اَخَذْتُمْ، یعنی اس چیز کی وجہ سے جو تم نے لی یا جو تم نے فدیہ میں حاصل کی۔

احکام القرآن للجصّاص: مَا کَانَ لِنَبِیٍّ … حَتّٰی یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ … اس کا ظاہر مقتضیٰ یہ ہے کہ غنائم اور قیدی اِثخان کے بعد مباح ہیں … اللہ تعالیٰ نے ایک دوسری آیت (یعنی سورۂ محمد والی آیت) میں فرمایا ہے فَإِذا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّى إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ (جب کفار سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنیں مارو یہاں تک کہ جب تم انہیں خوب کچل لو تو قیدیوں کو باندھ لو)۔ اس وقت پہلا فرض قتل تھا، یہاں تک کہ مشرکین خوب کچل ڈالے جائیں۔ اس کے بعد فدیہ لینا مباح تھا، اور اثخان سے پہلے فدیہ لینا جائز نہ تھا۔ آگے چل کر امام جصّاص صحیح سند کے ساتھ حضرت عمرؓ کا قول نقل کرتے ہیں کہ فِیْمَآ اَخَذْتُمْ سے مراد فدیہ لینا ہے۔

یہ ان لوگوں کی تفسیریں ہیں جو عّربیت کے بھی امام تھے اور آیاتِ قرآنی کے معنی و مفہوم کو سمجھنے میں بھی ممتاز تھے۔ ان سب نے اثخان فی الارض کے وہی معنی بیان کیے ہیں جو آپ کے نزدیک مناسب نہیں ہیں۔ لَوْ لَا کِتٰبٌ مِّنَ اللّٰہِ کو اس اِمہال کے معنی میں نہیں لیا ہے جو آپ کے خیال میں کفار کے لیے سنت الہٰیہ ہے۔ کسی نے بھی قریش کے اس پروپیگنڈے کی طرف اشارہ تک نہیں کیا ہے جس کے متعلق آپ کہتے ہیں کہ یہ آیات اس کے جواب میں نازل ہوئیں تھیں۔ کسی کے نزدیک بھی پہلی آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اثخان فی الارض نبی ﷺ کے شایانِ شان نہ تھا۔ اور کسی نے بھی تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا سے لے کر عَذَابٌ عَظِیْمٌ تک سارے مضمون کا مخاطب کفار قریش کو نہیں قرار دیا۔ پھر آخر آپ کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ عَذَابٌ عَظِیْمٌ کے بعد فوراً ہی فَکُلُوْا مِمَّا غَنِمْتُمْ جو ارشاد ہوا ہے وہ اس معنی کے لحاظ سے جو آپ بیان کر رہے ہیں مضمون سابق کے ساتھ کیا مناسبت رکھتا ہے؟

اعتراض ۶۔ سورۂ زخرف، آیت ۶۱

’’سورۂ الزخرف آیت ۶۱ کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے، اس لیے کہ اتباع کا لفظ انبیاء علیہم السلام کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ آیت کا صحیح ترجمہ ہوگا ’’اے نبی ان سے کہو وہ (حضرت عیسیٰ ؑ) تو قیامت کی نشانی ہے، پس اس میں شک نہ کرو اور میری اتباع کرو، یہ سیدھا راستہ ہے‘‘

جواب: اس آیت کی تفسیر میں مترجمین و مفسرین کے درمیان اختلاف ہے۔ کسی نے پوری آیت کو اللہ تعالیٰ کا قول قرار دیا ہے، اور کسی نے ’’اس میں شک نہ کرو‘‘ تک اللہ تعالیٰ کا قول اور ’’میرا اتباع کرو‘‘ سے آخر تک رسول اللہﷺ کا قول قرار دیا ہے۔ پہلے مختلف تراجم ملاحظہ فرمائے:

تفہیم القرآن: ’’اور وہ دراصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو، یہی سیدھا راستہ ہے‘‘۔ (اسی کی مفصل تشریح تفہیم القرآن، جلد چہارم، صفحات ۵۴۷۔ ۵۴۸ میں کی گئی ہے)۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ: ’’وہر آئینہ عیسیٰ نشانہ است قیامت را، پس شبہ مکنید در قیامت۔ وبگو یا محمد (ﷺ) پیروی من کنید، ایں است راہ راست‘‘۔

شاہ رفیع الدین صاحبؒ: ’’ اور تحقیق وہ البتہ علامت قیامت کی ہے، پس شک مت لاؤ ساتھ اس کے اور پیروی کرو میری، یہ ایک سیدھی راہ ہے‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ: اور وہ نشان ہے اس گھڑی کا، سو اس میں دھوکہ نہ کرو اور میرا کہا مانو، یہ ایک سیدھی راہ ہے‘‘۔

مولانا اشرف علی صاحبؒ:’’اور وہ(یعنی عیسٰیؑ)قیامت کے یقین کا ذریعہ ہیں،تو تم لوگ اس(کی صحت)میں شک مت کرو اور تم لوگ میرا اتباع کرو،یہ سیدھا راستہ ہے۔‘‘

ان میں صرف شاہ ولی اللہ صاحبؒ نے تصریح کی ہے کہ’’پیروی من کنیداین است راہ راست‘‘ رسول اللہﷺ کا قول ہے جو اللہ تعالیٰ کے حکم سے آپؐ نے فرمایا۔ اس کے بعد اب مفسرین کے اقوال ملاحظہ ہوں۔

ابن جریر کہتے ہیں <>وَاتَّبِعُوْنِ اللہ تعالیٰ کا قول ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ میری اطاعت کرو، جس بات کا میں حکم دوں اس پر عمل کرو اور جس چیز سے میں روک دوں اس سے رک جاؤ۔ یہی بات زمخشری نے کہی ہے کہ وَاتَّبِعُوْنِ کا مطلب ہے میری پیروی کرو، یعنی میری ہدایت اور میری شرع اور میرے رسول کی پیروی کرو۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو یہ بات کہنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہی تفسیر امام رازی، قاضی بیضاوی اور علامہ آلوسی نے کی ہے۔ ان سب نے وَاتَّبِعُوْنِ کے پہلے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ میری ہدایت اور میری شرع اور میرے رسول کی پیروی کرو۔ اور دوسرے معنی ان الفاظ کے ساتھ بیان کیے ہیں: ’’اور کہا گیا ہے‘‘ کہ یہ بات کہنے کا رسول اللہﷺ کو حکم دیا گیا تھا۔ لہٰذا یہ دعویٰ کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ اتباع کا لفظ انبیاء علیہم السلام کی پیروی ہی کے لیے استعمال ہوتا ہے، اور یہ کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کا قول نہیں ہے۔

۷۔ الزُّخْرُفْ، آیات ۸۵ تا ۸۹

اعتراض سورۃ الزخروف ہی میں ’’وَقِیْلِہٖ‘‘ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے۔ آیات کا مفہوم:

’’اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، الاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ ان سے پوچھ دیکھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا تو یہ خود کہیں گے اللہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں؟ ہاں، جو شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے رب، یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام سے تمہیں، عنقریب یہ جان لیں گے‘‘۔

جواب: یہ ایک پیچیدہ بحث ہے جس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ پورا سلسلئہ کلام نگاہ میں رہے۔ آیت 85 تا 89 تک کی عبارت یہ ہے:

وَتَبَارَكَ الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا وَعِندَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ o وَلَا يَمْلِكُ الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِهِ الشَّفَاعَةَ إِلَّا مَن شَهِدَ بِالْحَقِّ وَهُمْ يَعْلَمُونَ o وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَهُمْ لَيَقُولُنَّ اللَّهُ فَأَنَّى يُؤْفَكُونَ o وَقِيلِهِ يَارَبِّ إِنَّ هَؤُلَاء قَوْمٌ لَّا يُؤْمِنُونَ o فَاصْفَحْ عَنْهُمْ وَقُلْ سَلَامٌ فَسَوْفَ يَعْلَمُونَ

تفہیم القرآن میں ان آیات کی ترجمانی اس طرح کی گئی ہے: ’’ بہت بالا و برتر ہے وہ جس کے قبضے میں زمین اور آسمانوں اور ہر اس چیز کی بادشاہی ہے جو زمین و آسماں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اور وہی قیامت کی گھڑی کا علم رکھتا ہے، اور اسی کی طرف تم سب پلٹائے جانے والے ہو۔ اس کو چھوڑ کر یہ لوگ جنہیں پکارتے ہیں وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھتے، اِلاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ اور اگر تم ان سے پوچھو کہ انہیں کس نے پیدا کیا ہے تو یہ خود کہیں گے کہ اللہ نے۔ پھر کہاں سے یہ دھوکہ کھا رہے ہیں، قسم ہے رسول ؐکے اس قول کی کہ اے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے۔ اچھا، اے نبیؐ، ان سے درگزر کرو اور کہہ دو کہ سلام ہے تمہیں، عنقریب انہیں معلوم ہوجائے گا‘‘۔

شاہ ولی اللہ صاحبؒ کا ترجمہ یہ ہے: ’’وبسیار بابرکت است آنکہ اولا بادشاہی آسما نہا وزمین و آنچہ درمیان ہر دواست۔ ونزدیک اوست علم قیامت وبسوئے وے رجوع کردہ شوید۔ ونمی توا نند آنا نکہ کفار پرستش می کنند بجز خدا شفاعت کردن، لیکن کسے کہ گواہی راست دادہ باشد وایشاں می دانند۔ واگر سوال کنی ازایشاں کہ کدام کس بیا فرید ایشاں را البتہ گویند خدا آفریدہ است۔ پس از کجا بر گردانیدہ می شوند۔ وبسا دعائے پیغمبر کہ اے پروردگار من ہر آئینہ ایشاں گروہے ہستند کہ ایمان نمی آورند۔ فرمودیم اعراض کن ازایشاں وبگو سلام وداع، پس خواہند دانست۔‘‘

شاہ رفیع الدین صاحبؒ ان آیات کا ترجمہ یہ کرتے ہیں: ’’ اور بہت برکت والا ہے وہ جو واسطے اس کے ہے بادشاہی آسمانوں کی اور زمین کی اور جو کچھ درمیان ان کے ہے اور نزدیک اس کے ہے علم قیامت کا اور طرف اس کے پھیرے جاؤ گے اور نہیں اختیار رکھتے وہ لوگ کہ پکارتے ہیں سوائے اس کے شفاعت کرنا، مگر جو شخص گواہی دے ساتھ حق کے اور وہ جانتے ہیں اور اگر پوچھے تو ان سے کس نے پیدا کیا ان کو، البتہ کہیں گے اللہ نے۔ پس کہاں سے پھیرے جاتے ہیں اور بہت کہا کرتا ہے پیغمبر: اے رب میرے! تحقیق یہ قوم ہیں کہ نہیں ایمان لاتے۔ پس منہ پھیر لے ان سے اور کہہ سلامتی مانگتے ہیں شر تمہارے سے۔ پس البتہ جان لیویں گے‘‘۔

شاہ عبدالقادر صاحبؒ کا ترجمہ: اور بڑی برکت ہے اس کی جس کا راج ہے آسمانوں میں اور زمین میں اور جو ان کے بیچ ہے اور اسی کے پاس ہے خبر قیامت کی اور اسی تک پھیرے جاؤ گے اور اختیار نہیں رکھتے جن کو یہ پکارتے ہیں سفارش کا، مگر جس نے گواہی دی سچی اور ان کو خبر تھی۔ اور اگر تو ان سے پوچھے کہ ان کو کس نے بنایا تو کہیں گے اللہ نے، پھر کہاں سے الٹ جاتے ہیں، قسم ہے رسول کے اس کہنے کی کہ اے رب یہ لوگ ہیں کہ یقین نہیں لاتے۔ سو تو مڑ ان کی طرف سے اور کہہ سلام ہے۔ اب آخر کو معلوم کرلیں گے۔‘‘

مولانا اشرف علی تھانوی صاحب ؒکا ترجمہ: ’’اور وہ ذات بڑی عالی شان ہے جس کے لیے آسمانوں و زمین کی اور جو مخلوق ان کے درمیان میں ہے، اس کی سلطنت ثابت ہے اور اس کو قیامت کی (بھی) خبر ہے، اور تم سب اسی کے پاس لوٹ کر جاؤ گے اور خدا کے سوا جن معبودوں کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ سفارش (تک) کا اختیار نہیں رکھیں گے، ہاں جن لوگوں نے حق بات (یعنی کلمہ ایمان) کا اقرار کیا اور وہ تصدیق بھی کیا کرتے تھے اور اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا تو یہی کہیں گے کہ اللہ نے۔ سو یہ لوگ کدھر الٹے چلے جاتے ہیں اور اس کو رسول کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب یہ ایسے لوگ ہیں کہ ایمان نہیں لاتے۔ تو آپ ان سے بے رخ رہیے اور یوں کہہ دیجئے کہ تم کو سلام کرتا ہوں۔ سو ان کو ابھی معلوم ہوجائے گا۔

ان تراجم میں شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ نے وَقِیْلِہٖ کا عطف قریب کے فقرے سے مانا ہے۔ اس طرح شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے ترجمے کا سلسلئہ عبارت یوں بنتا ہے: ’’واگر سوال کنی ازایشاں … پس از کجا برگردانیدہ می شوند؟ وبسا دعائے پیغمبر …‘‘ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کے ترجمے کا سلسلئہ عبارت یوں بنتا ہے: ’’اگر پوچھے تو ان سے … پس کہاں سے پھیرے جاتے ہیں؟ اور بہت کہا کرتا ہے پیغمبر…‘‘۔ مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ نے وَقِیْلِہٖ کو وَعِنْدَہ عِلْمُ السَّاعَۃِ پر معطوف قرار دیا ہے اور ان کے ترجمے کا سلسلئہ عبارت یہ بنتا ہے: ’’اور اس کو قیامت کی (بھی) خبر ہے او ر اس کو رسول کے اس کہنے کی بھی خبر ہے کہ اے میرے رب …‘‘۔ معترض صاحب کہتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ کا عطف شَھِدَ بِالْحَقِّ پر ہے، اور قِیْلِہٖ کی ضمیر رسول کے بجائے اس شخص کی طرف پھیرتی ہے جو علم کی بنا پر حق کی شہادت دے۔ اس تجویز کے مطابق سلسلئہ عبارت یہ قرار پاتا ہے ’’وہ کسی شفاعت کا اختیار نہیں رکھے اِلاّ یہ کہ کوئی علم کی بنا پر حق کی شہادت دے اپنے اس قول سے کہ اے میرے رب… ‘‘۔ شاہ عبدالقادر صاحبؒ نے شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور شاہ رفیع الدین صاحبؒ کی طرح رسولﷺ کو قِیْلِہٖ کی ضمیر کا مرجع ٹھہرا یا ہے، مگر انہوں نے سیاقِ عبارت کو مسلسل مانتے ہوئے وَقِیْلِہٖ کو قسم قرار دیا ہے اور یہی طریقہ تفہیم القرآن کی ترجمانی میں بھی اختیار کیا گیا ہے۔ اس سے آیت ۸۸ کا مطلب آیات ۸۶، ۸۷ کے ساتھ مل کر یہ نکلتا ہے کہ ’’ قسم ہے رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے، کیسی عجیب ہے ان لوگوں کی فریب خوردگی کہ خود تسلیم کرتے ہیں کہ ان کا اور ان کے معبودوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہی ہے اور پھر بھی خالق کو چھوڑ کر مخلوق کی عبادت پر اصرار کیے جاتے ہیں‘‘۔

مفسرین نے بھی ان اختلافات کا اسی طرح ذکر کیا ہے:

ابن جریر وَقِیْلِہٖ کا عطف وَعِنْدَہٗ عِلْمُ السَّاعَۃِ پر قرار دیتے ہیں اور معنی یہ کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا علم بھی جو اپنے رب سے اپنی قوم کی تکذیب اور عدم ایمان کی شکایت کرتے ہوئے وہ فرماتے ہیں۔ پھر ابن جریر قتادہ کی یہ رائے بیان کرتے ہیں کہ قِیْلِہٖ سے مراد تمہارے نبی کا قول ہے جو وہ اپنے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں۔

زمخشری مختلف اقوال نقل کرنے کے بعد زیادہ قوی اور موقع و محل کے لحاظ سے زیادہ مناسب یہ سمجھتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ حرفِ قسم کے مضمر اور اس کے حذف پر مبنی ہو، اور یہ قول جوابِ قَسم کے طور پر ہو کہ اِنَّ ھٰٓؤُلآءِ قَوْمٌ لَّا یُؤْمِنُوْنَ۔ گویا بات یوں ہوئی کہ ’’ میں قسم کھاتا ہوں رسول کے اس قول کی کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان نہیں لاتے‘‘۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ وَقِیْلِہٖ کی ضمیر رسول اللہﷺ کی طرف راجع ہوتی ہے، اور آپ کے قول کی قسم کھانا اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کے مرتبے کی بلندی اور آپ کی دعاء و التجاء کی اہمیت ظاہر کرنے کے لیے ہے۔

امام رازی، اخفش اور فراء اور زجاج کا قول نقل کرتے ہوئے کہ وَقِیْلِہٖ معطوف ہے، السَّاعَۃِ پر۔ یعنی اللہ کے پاس قیامت کا علم ہے اور رسول کے اس قول کا بھی کہ یٰرَبِّ…

علاّمہ آلوسی وَقِیْلِہٖ کا عطف السَّاعَۃِ پر قرار دے کر وہی بات کہتے ہیں جو امام رازی نے نقل کی ہے، پھر کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ میرے پاس رسولؐ کے اس قول کا بھی علم ہے، کفار کے لیے دھمکی ہے (یعنی مردا یہ ہے کہ باشادہِ کائنات اپنے سرکش بندوں سے کہہ رہا ہے کہ میں تمہارے کرتوتوں سے خوب واقف ہوں جس کی بنا پر میرے رسولؐ نے تمہاری شکایت مجھ سے کی ہے)۔ دوسرا قول انہوں نے وہی بیان کیا ہے جو اوپر زمخشری سے نقل کیا گیا ہے۔ اور تیسرا قول انہوں نے یہ بیان کیا ہے کہ وَقِیْلِہٖ میں واؤ قسم کا واؤ ہے، اور جواب قسم مخذوف ہے، یعنی یہ بات اس میں مقدّر ہے کہ ہم اپنے رسول کی مدد کریں گے یا کفّار کے ساتھ جو معاملہ چاہیں گے کریں گے۔

بہرحال یہ بات ہماری نظر سے کسی تفسیر میں نہیں گزری کہ وَقِیْلِہٖ کا عطف اِلَّا مَنْ شَھِدَ بِالْحَقِّ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (الا یہ کہ کوئی شخص علم کی بنا پر شہادت دے) پر ہے۔ کوئی مفسّر جو قرآن کا فہم رکھتا ہو یہ بات کہہ بھی نہیں سکتا تھا، کیونکہ اس فقرے پر معطوف قرار دے کر یہ کہنا بالکل بے معنی ہے کہ ’’ہاں جو شہادت دے کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے‘‘۔ اس لیے کہ آیت ۸۶ میں معبودان باطل کے لیے شفاعت کے اختیار کی نفی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد کہ ’’الا یہ کہ کوئی شخص علم کی بنا پر حق کی شہادت دے‘‘ روزِ محشر سے تعلق رکھتاہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے لوگ اس روز شفاعت کے مجاز ہوسکیں گے۔ اس کے برعکس آیت ۸۸ میں یہ بات کہ ’’اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دینے‘‘ اسی دنیا سے تعلق رکھتی ہے۔ ان دونوں فقروں میں آخر کیا مناسبت ہے؟ کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ شفاعت کا مجاز وہ شخص ہوسکتا ہے جو آخرت میں علم کی بنا پر حق کی شہادت دے اور دنیا میں اپنے اس قول سے شہادت دے کہ اے میرے رب یہ وہ لوگ ہیں جو مان کر نہیں دیتے؟

(ترجمان القرآن، دسمبر ۱۹۷۶ء)