کیا حضرت علیؓ مخالفین کے بالمقابل برسرحق تھے؟

سوال: میں ایک مسئلے میں آپ کی رہنمائی کا طالب ہوں۔ وہ یہ ہے کہ آپ نے محرم کے ایام میں اپنی تقریر میں فرمایا ہے کہ حق علیؓ کے ساتھ تھا۔ اس کا مطلب تو یہ نکلا کہ حضرت علیؓ کے مقابلے میں آنے والے لوگ باطل پر تھے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ حضرت علیؓ کی تین گروہوں کے ساتھ خوں ریز لڑائیاں ہوئیں، لیکن انہوں نے حدود اللہ سے تجاوز نہ کیا اور مقابل گروہ کے افراد کو نہ تو کبھی قتل کیا اور نہ ان کے بیوی بچے، لونڈی غلام بنائے۔ آخر حضرت علیؓ نے کون سی لڑائی میں فتح پائی تھی کہ وہ یہ انداز اختیار کرتے؟

حضرت علیؓ کو حضورﷺ کے بعد حکومت کی ہمیشہ خواہش رہی۔ روایات کے مطابق انہوں نے کافی عرصہ تک حضرت صدیقؓ کی بیعت نہیں کی۔ حضرت عمرؓ نے جب چھ آدمیوں پر مشتمل کمیٹی قائم کی تو ان میں حضرت علیؓ بھی تھے۔ باقی اصحاب تو دست بردار ہوگئے۔ لیکن جب حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کا معاملہ آیا تو حضرت عثمانؓ متفقہ طور پر خلیفہ چن لیے گئے جس پر حضرت علیؓ بڑے برہم ہوئے اور مسجد سے باہر نکل گئے اور بعد میں آکر بیعت کی۔ اس کے بعد جب خود حضرت علیؓ کو خلیفہ چنا گیا تو چننے والے مدینے کے چند اصحاب ہی تھے۔ کیا وہاں بڑے بڑے صحابہ کرامؓ موجود تھے؟ کیا حضرت معاویہ کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ ان کی خواہ مخواہ بیعت کرتے۔

اسی طرح جب کہ حضرت حسینؓ کا وقت آیا تو سب صحابہ کرامؓ نے انہیں کوفے جانے سے منع بھی کیا لیکن آپ نے کسی کی بات بھی نہ سنی۔ آپ ہی فرمائیں کہ ایک منظم حکومت کے مقابلہ میں جب کہ سوائے ہلاکت کے کچھ نظر نہ آتا ہو، مقابلے کے لیے نکل کھڑا ہونا کوئی دانشمندانہ اقدام ہے؟ کیا اسلام یہی تعلیم دیتا ہے؟ ایسے موقع پر جب کہ انسان بالکل بے بس ہو کر کسی منظم حکومت کے خلاف اٹھ کھڑا ہو، تو اس کا انجام ایسا ہی ہوگا۔

جواب: آپ کا عنایت نامہ ملا۔ آپ نے جو سوالات چھیڑے ہیں، ان کا مفصل جواب دوں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ایک طویل مضمون لکھوں جس کے لیے میرے پاس وقت نہیں، اور مختصر جواب دوں تو وہ آپ کو مطمئن کرنے میں اس سے زیادہ ناکام ہوگا، جتنی اس تقریر کی رپورٹ ناکام ہوئی ہے جس پر آپ نے یہ سوالات اٹھائے ہیں۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ آپ میرے یہ خیالات معلوم کرنے کے بعد خود اس مسئلے پر مطالعہ کرتے اور اصل حقائق معلوم کرنے کی کوشش کرتے؟

آپ کو شاید معلوم نہیں ہے کہ امام ابو حنیفہؒ جیسے محتاط فقیہ کی رائے بھی یہی تھی کہ حضرت علیؓ کی جتنی لڑائیاں بھی مختلف گروہوں سے ہوئیں، ان میں حق حضرت علیؓ ہی کے ساتھ تھا۔ بلکہ جنگ صفین میں حضرت عمار بن یاسرؓ کی شہادت کے بعد ہی علمائے اہل سنت کا اس بات پر اجماع ہوگیا تھا کہ فریقین مقابل کی حیثیت باغی گروہ کی ہے کیوں کہ حضورﷺ نے پیشن گوئی فرمائی تھی کہ عمار بن یاسر کو ایک فئہ باغیہ قتل کرے گی۔ آپ نے اس بات کو بھی فراموش کردیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک اور پیشن گوئی کی رو سے خلافت کا دور حضورﷺ کے بعد تیس سال تک تھا اور اس کے بعد ملوکیت شروع ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت علیؓ کی خلافت کو خود حضورﷺ کی توثیق حاصل ہے اور امیر معاویہ کی یہ حکومت خلافت کی بجائے بادشاہی قرار پاتی ہے۔ آپ نے یہ بات بھی نظر انداز کردی کہ علمائے اہل سنت بالاتفاق حضرت علیؓ کو چوتھا خلیفہ راشد مانتے ہیں۔ اس کو انہوں نے عقائد اہل سنت کی کتابوں میں ثبت کیا ہے اور صدیوں سے منبروں پر اس کا اعلان ہو رہا ہے، تاکہ شیعہ اور خوارج سے اہل سنت کے مسلک کا امتیاز واضح ہوسکے۔ اس کے برعکس مجھے کسی ایک بھی قابل ذکر عالم کا نام معلوم نہیں ہے جس نے حضرت امیر معاویہ کو خلفائے راشدین میں شمار کیا ہو۔ آپ نے اس بات کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا کہ تمام فقہائے اہل سنت اپنی کتابوں میں خلفائے اربعہ کے فیصلوں کے نظائر سے استدلال کرتے ہیں، مگر بنی امیہ میں سے حضرت عمر بن عبد العزیز کے فیصلوں کے سوا انہوں نے اور کسی کے فیصلوں کا حوالہ فقہی مسائل میں نہیں دیا ہے۔ ان امور کو نگاہ میں رکھ کر آپ صحیح نقطہ نظر سے تاریخ کا مطالعہ کیجیے اور طبقات ابن سعد، طبری، ابن تاثیر اور ابن کثیر وغیرہ مآخذ اصلیہ کو پڑھیے۔ اس کے بعد مجھے امید ہے کہ آپ کو مجھ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔

حضرت حسینؓ کے معاملہ میں جو ذہنی الجھنیں بعض حضرات نے دماغوں میں ڈال دی ہیں، ان سب کو صاف کرنا اس خط میں میرے لیے مشکل ہے۔ کبھی فرصت ہوئی تو ایک مفصل مضمون لکھوں گا۔ سردست صرف اتنا کہنے پر اکتفا کرتا ہوں کہ اگر ایک دفعہ ان حضرات کا نقطہ نظر اختیار کرلیا جائے تو مسلمانوں کی حکومت ایک دفعہ بگڑجانے کے بعد پھر اس کی اصلاح کے لیے کچھ نہیں کیا جاسکتا۔ پھر تو اسے بدلنے کی ہر تدبیر گناہ قرار پائے گی اور بگڑے ہوئے حاکموں کی اطاعت میں سرجھکا دینا صواب بن جائے گا۔ یزید کی خلافت بھی برحق ہو تو آج کے ظالم و جبار لوگ کیا برے ہیں، ان کے خلاف کیوں شور مچائیے۔

(ترجمان القرآن۔ ستمبر ۱۹۶۲ء)