تقلید اور اتباع
سوال: کتاب ’’جائزہ‘‘ صفحہ ۵۵ پر ایک سوال کے جواب میں یہ عبارت آپ کی طرف منسوب ہے۔ ’’میرے نزدیک صاحب علم آدمی کے لیے تقلید ناجائز اور گناہ بلکہ اس سے بھی کوئی شدید تر چیز ہے‘‘۔ اب غور کیجیے کہ مثلاً حضرت سید عبدالقادر جیلانی ؒ، حضرت امام غزالی ؒ، حضرت مجدد الف ثانی ؒ، حضرت شاہ ولی اللہ صاحبؒ، اور حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانویؒ صاحب سب مقلدین ہیں تو کیا آپ کی عبارت کے سیاق و سباق سے ایسے لوگ مستثنیٰ ہیں یا نہیں، یا آپ کے نزدیک یہ حضرات صاحب علم نہ تھے؟ امید ہے کہ آپ اپنے منصفانہ انداز میں اپنے قلم سے جواب تحریر فرمائیں گے۔
جواب: آپ کو شاید معلوم نہیں کہ ’’جائزہ‘‘ میری تصنیف نہیں ہے اور نہ میرے مشورے ہی سے لکھی گئی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو فقرہ اس میں نقل کیا گیا ہے وہ میرا ہی ہے۔ لیکن ایک فقرہ میری کسی عبارت سے کسی بحث کے سلسلے میں نقل کردیا گیا ہو، وہ مسئلہ تقلید کے بارے میں میرے مسلک کی پوری ترجمانی کے لیے کافی نہیں ہے۔ آپ جیسے ذی علم بزرگ سے یہ بات پوشیدہ نہ ہونی چاہیے کہ کسی شخص کا مسلک اس طرح کے فقروں سے اخذ کرنا درست نہیں ہے۔ خصوصاً جب کہ وہ شخص اپنے مسلک کو تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں میں دوسرے مقامات پر بیان کرچکا ہو۔ اگر اس طرح سے دوسروں کی عبارتوں میں میرا ایک ایک فقرہ دیکھ کر مجھ سے سوالات کیے جانے لگیں تو میری ساری عمر جواب دہی میں صرف ہوجائے ۔
آپ نے چوں کہ زحمت اٹھا کر مجھ سے سوال فرمایا ہے، اس لیے مختصر جواب حاضر ہے:
میں تقلید اور اتباع میں فرق کرتا ہوں۔ اگرچہ آج کل علما تقلید کو مجرد پیروی کے معنی میں بولنے لگے ہیں مگر قدیم زمانے کے علما تقلید اور اتباع میں فرق کرتے تھے۔ تقلید کے معنی ہیں دلائل سے قطع نظر کرتے ہوئے کسی شخص کے قول و فعل کی پیروی کرنا، اور اتباع سے مراد ہے کسی شخص کے طریقے کو بربنائے دلیل پسند کرکے اس کی پیروی کرنا۔ پہلی چیز عامی کے لیے ہے اور دوسری عالم کے لیے ہے۔ عالم کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ کسی امام کی پیروی کی قسم کھالے اور اگر کسی مسئلے میں اس امام کے مسلک کو اپنے علم کی حد تک کتاب و سنت سے اوفق اور اقرب نہ پائے تب بھی اس کی پیروی کرتا رہے، خود آئمہ مجتہدین نے اس کی بار بار تلقین کی ہے کہ کسی صاحب علم کے لیے ان کے قول کی پیروی کرنا اس وقت تک جائز نہیں ہے جب تک اسے یہ نہ معلوم ہوجائے کہ کتاب و سنت سے اس کے حق میں دلیل کیا ہے البتہ عالم کے لیے یہ بالکل درست ہے کہ اگر وہ کسی امام کے مسلک کو دلائل شرعیہ کی بنا پر درست پاتا ہو تو اس کا اتباع کرے۔
آپ نے جن بزرگوں کا ذکر فرمایا ہے، ان میں سے اکثر کی کتابوں میں، میں نے یہی بات پائی ہے کہ وہ جس امام کی پیروی بھی کرتے ہیں، دلائل شرعیہ کی بنا پر مطمئن ہو کر کیا کرتے ہیں اور اپنے اس اتباع کے حق میں دلائل پیش فرماتے ہیں۔ باقی بزرگ جو کسی خاص مسلک کی پیروی کرتے ہیں، میں ان کے متعلق بھی یہی حسن ظن رکھتا ہوں کہ وہ بھی اسی طرح کا اتباع کرتے ہوں گے۔
(ترجمان القرآن۔ محرم، صفر ۱۳۷۶ھ، اکتوبر ۱۹۵۶ء)
ابن عابدین کے حاشیہ البحرالرائق صفحہ 293 اور رسم المفتی صفحہ 29 پر امام ابو حنیفہؒ کا یہ قول منقول ہے: لا یحل لا حد ان یاخذ بقولنا مالم یعلم من این اخذناہ (کسی کے لیے ہمارے قول کو لینا جائز نہیں ہے جب تک اسے یہ معلوم نہ ہو کہ ہم نے اُسے کہاں سے اخذ کیا ہے۔)