منصب تجدید اور وحی و کشف
سوال: رسالہ ترجمان القرآن بابت ماہ جنوری و فروری ۱۹۵۱ء کے صفحہ ۲۲۶ پر ایک سوال کے جواب کے دوران میں تحریر فرمایا گیا ہے کہ:
’’پچھلے زمانے کے بعض بزرگوں نے بلاشبہ اپنے متعلق کشف و الہام کے طریقہ سے خبر دی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے مجدد ہیں۔ لیکن انہوں نے اس معنی میں کوئی دعویٰ نہیں کیا کہ ان کو مجدد تسلیم کرنا ضروری ہے اور جو ان کو نہ مانے وہ گمراہ ہے‘‘۔
یہ بات درست نہیں معلوم ہوتی، کیوں کہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلویؒ نے ’’تفہیمات الٰہیہ‘‘ میں بڑے زور کے ساتھ یہ دعویٰ فرمایا ہے کہ مجھے اللہ تعالیٰ نے مطلع فرمایا ہے کہ تو اس زمانے کا امام ہے۔ چاہیے کہ لوگ تیری پیروی کو ذریعۂ نجات سمجھیں۔ شاہ صاحب کی کتاب ’’تفہیمات‘‘ کا اصل حوالہ مع ترجمہ درج ذیل ہے:
قد منَّ اللہ سبحانہ علیَّ و علیٰ اھل زمانی بان منحنی طریقا من السلوک ھی اقرب الطرق وھی مرکبۃ من خمس قرباتٍ اعنی الایمان الحقیقیّ و قرب النوافل و قرب الوجوب و قرب الفرائض و قرب الملکوت وجعل ھذہ الطریقۃ غایۃ من ارادھا اتاہ اللہ تعالی۔ فھمنی ربی جل جلالہ انا جعلنٰک امام ھذہ الطریقۃ واوصلنٰک ذروۃ سنامھا وسددنا طرق الوصول الیٰ حقیقۃ القرب کلھا الیوم غیر طریقۃ واحدۃ وھو محبتک والانقیادلک فالسماء لیس علیٰ من عاداک بسماءٍ ولیست الارض علیہ بارضٍ فاھل المغرب واھل المشرق کلھم رعیتک وانت سلطٰنھم علموا اولم یعلموا فان عملوا فَازُوْا وان جَھِلُوا خَابُوْا۔ (عسل مصفیٰ، جلد اوّل، صفحہ ۷۵۔ ۱۷۴)
’’اللہ تعالیٰ نے مجھ پر اور میرے زمانے کے لوگوں پر یہ احسان کیا کہ اس نے مجھے ایک ایسا طریقہ سلوک عطا کیا ہے کہ جو سب طریقوں سے قریب تر ہے اور اس میں پانچ قسم کے قرب کے ذریعے ہیں۔ یعنی ایک تو ایمان حقیقی کا،دوسرا قرب نوافل کا، تیسرا قرب وجوب، چوتھا قرب فرائض اور پانچواں قرب ملکوت۔ اور اسکو ایسا عمدہ غایت بنایا ہے کہ جو کوئی بھی اس کا ارادہ کرے گا، وہ مراد کو پہنچے گا اور میرے رب نے مجھے مطلع فرمایا ہے کہ ہم نے تجھے اس طریقہ کا امام مقرر کیا ہے اور اس کی بلندی پر پہنچایا ہے اور ہم نے آج کے روز سے باقی تمام طریقوں کو حقیقت قرب تک پہنچنے سے مسدود کردیا ہے، بجز اس طریقے کے جو تجھے دیا گیا ہے اور وہ ایک ہی طریقہ ہے جو کھلا رکھا گیا ہے۔ لوگوں کو چاہیے کہ تجھ سے محبت کریں اور تیری فرانبرداری کو ذریعۂ نجات سمجھیں اور اب آسمانی برکات اس شخص پر نہیں ہوں گی جو تیرے ساتھ بغض اور عداوت رکھے گا اور نہ وہ ارضی برکات کا مورد ہوگا اور مغرب اور مشرق کے لوگ تیری رعیت کردیے گئے ہیں اور تو ان کا بادشاہ مقرر کیا گیا ہے، خواہ وہ لوگ تیری حقیقت سے واقف ہوں یا نہ ہوں۔ اگر واقف ہوں گے تو فائز المرام ہوں گے اور اگر بے خبر رہیں گے تو خسارہ اور ٹوٹا پائیں گے‘‘۔
کیا جناب شاہ صاحب کا یہ دعویٰ درست تھا یا نہیں؟ اگر ان کا دعویٰ درست تھا تو پھر ’’ترجمان‘‘ کی مذکورہ بالا عبارت درست نہیں ہے۔
اس عبارت کے بعد ’’ترجمان‘‘ میں لکھا گیا ہے کہ:
’’دعویٰ کرکے اس کے ماننے کی دعوت دینا اور اسے منوانے کی کوشش کرنا سرے سے کسی مجدد کا منصب ہی نہیں‘‘۔
نیز یہ کہ:
’’جو شخص یہ حرکت کرتا ہے وہ خود اپنے اس فعل ہی سے یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ فی الواقع مجدد نہیں‘‘۔
ان ارشادات کی بنیادقرآن کریم ہے یا احادیث نبویہؐ، یا اپنے اجتہاد کی بنا پر یہ فتویٰ دیا گیا ہے۔
رسالہ مذکورہ کے اسی صفحہ پر فقرہ نمبر ۶ کے ماتحت لکھا گیا ہے کہ:
’’کشف و الہام وحی کی طرح کوئی یقینی چیز نہیں۔ اس میں وہ کیفیت نہیں ہوتی کہ صاحب کشف و الہام کو آفتاب روشن کی طرح یہ معلوم ہو کہ یہ کشف و الہام خدا تعالیٰ کی طرف سے ہو رہا ہے۔‘‘
اگر امت محمدیہﷺ کے کاملین کے الہام و کشوف کی یہ حقیقت ہے تو پھر ان کے خیر امت ہونے کی حالت معلوم شد۔ حالاں کہ پہلی امتوں میں عورتیں وحی یقینی سے مشرف ہوتی رہی ہیں اور خدا کے ایسے بندے بھی ہوتے رہے ہیں جن کے کشف و الہام کا یہ عالم تھا کہ ایک اولوالعزم نبی کو بھی سوال کرکے ندامت اٹھانی پڑی۔
مگر سبحان اللہ ! امت محمدیہ کے کاملین کے کشوف و الہام عجیب قسم کے تھے کہ ان کو خود بھی یقین نہ تھا کہ یہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں یا نہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ کو ان کو اس قسم کے الہامات و کشوف دکھانے کی ضرورت کیا پڑ گئی۔ جن سے نہ کوئی دینی فائدہ متصور تھا اور نہ ہی صاحب کشف و الہام کے لیے وہ موجب ازدیا و ایمان بلکہ الٹا کوجب تردد ہونے کے سبب ایک قسم کی مصیبت تھے۔
جواب: آپ کے خط سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے وحی و الہام کے مختلف مفہومات کو گڈمڈ کردیا ہے۔ ایک قسم کی وحی وہ ہے جسے وحی جبلی یا طبیعی کہا جاسکتا ہے، جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ ہر مخلوق کو اس کے کرنے کا کام سکھاتا ہے۔ یہ وحی انسانوں سے بڑھ کر جانوروں پر اور شاید ان سے بھی بڑھ کر نباتات و جمادات پر ہوتی ہے۔ دوسری قسم وہ ہے جسے وحی جزئی کہا جاسکتا ہے۔ جس کے ذریعے کسی خاص موقع پر اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو امور زندگی میں کسی امر کے متعلق کوئی علم یا کوئی ہدایت دیتا ہے یا کوئی تدابیر سمجھا دیتا ہے۔ یہ وحی آئے دن عام انسانوں پر ہوتی رہتی ہے۔ دنیا میں بڑی بڑی ایاجدیں اسی وحی کی بدولت ہوتی ہے۔ بڑے بڑے اہم علمی انکشافات اسی وحی کے ذریعے سے ہوئے ہیں۔ بڑے بڑے اہم تاریخی واقعات میں اسی وحی کی کار فرمائی نظر آتی ہے جب کہ کسی شخص کو کسی اہم موقع پر کوئی تدبیر بلا غور و فکر اچانک سوجھ گئی اور اس نے تاریخ کی رفتار پر ایک فیصلہ کن اثر ڈال دیا۔ ایسی ہی وحی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ پر بھی ہوئی تھی۔ ان دونوں قسموں کی وحیوں سے بالکل مختلف نوعیت کی وحی وہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے کو حقائق غیبیہ پر مطلع فرماتا ہے اور اسے نظام زندگی کے متعلق ہدایت بخشتا ہے تاکہ وہ اس علم اور اس ہدایت کو عام انسانوں تک پہنچائے اور انہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لائے۔ یہ وحی انبیا علیہم السلام کے لیے خاص ہے۔ قرآن مجید سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نوعیت کا علم، خواہ اس کا نام القا رکھئے، الہام رکھئے، کشف رکھئے یا اصطلاحاً اسے وحی سے تعبیر کیجیے، انبیا علیہم السلام و رسل کے علاوہ کسی کو نہیں دیا جاتا۔ اور یہ علم انبیا علیہم السلام ہی کو اس طور پر دیا جاتا ہے کہ انہیں اس کے من جانب اللہ ہونے اور شیطان کی دراندازی سے بالکل محفوظ ہونے اور خود اپنے ذاتی خیالات، تصورات اور خواہشات کی آلائشوں سے بھی پاک ہونے کا پورا یقین ہوتا ہے۔ نیز یہی علم حجت شرعی ہے۔ اس کی پابندی ہر انسان پر فرض ہے اور اس کے دوسرے انسانوں تک پہنچانے اور اس پر ایمان کی دعوت سب بندگان خدا کو دینے پر انبیا علیہم السلام مامور ہوتے ہیں اور پھر یہی وہ وحی ہے کہ جس پر ایمان لانا لازماً نجات اور جس سے رو گردانی قطعی طور پر موجب خسران ہوتا ہے۔
انبیا علیہم السلام کے سوا دوسرے انسانوں کو اگر اس تیسری قسم کے علم کا کوئی جز نصیب ہوتا ہے تو وہ ایسے دھندلے اشارے کی حد تک ہوتا ہے جسے ٹھیک ٹھیک سمجھنے کے لیے وحی نبوت کی روشنی سے مدد لینا (یعنی کتاب و سنت پر پیش کرکے اس کی صحت و عدم کو جانچنا اور بصورت صحت اس کا منشا متعین کرنا) ضروری ہے۔ جو شخص اپنے الہام کو ایک مستقل بالذات ذریعۂ ہدایت سمجھے اور وحی نبوت کی کسوٹی پر اس کو پرکھے بغیر اس پر خود عمل کرے اور دوسروں کو اس کی پیروی کی دعوت دے، اس کے ایسے طرزِعمل کو ازروئے شریعت کوئی سند جواز نہیں دی جاسکتی۔ قرآن مجید میں اس حقیقت کو متعدد مقامات پر صاف صاف بیان کیا گیا ہے، خصوصاً سورہ جن کی آخری آیات میں تو بالکل ہی کھول کر فرمایا گیا ہے کہ:
عَالِمُ الْغَيْبِ فَلَا يُظْهِرُ عَلَى غَيْبِهِ أَحَدًا o إِلَّا مَنِ ارْتَضَى مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا o لِيَعْلَمَ أَن قَدْ أَبْلَغُوا رِسَالَاتِ رَبِّهِمْ وَأَحَاطَ بِمَا لَدَيْهِمْ وَأَحْصَى كُلَّ شَيْءٍ عَدَدًا oالجن 28:72-26
اگر ہم غور کریں تو یہ بات بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے کہ امت کے صالح و مصلح آدمیوں کو نبی کا سا کشف و الہام نہ دینے اور اس سے کم تر ایک طرح کا تابعانہ کشف و الہام دینے میں کیا مصلحت ہے۔ پہلی چیز عطا نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہی چیز نبی اور امتی کے درمیان بنائے فرق ہے، اسے کیسے دور کیا جاسکتا ہے اور دوسری چیز دینے کی وجہ یہ ہے کہ جو لوگ نبی کے بعد اس کام کو جاری رکھنے کی کوشش کریں، وہ اس بات کے محتاج ہوتے ہیں کہ دین میں ان کو حکیمانہ بصیرت اور اقامت دین کی سعی میں ان کو صحیح رہنمائی اللہ تعالیٰ کی طرف سے حاصل ہو۔ یہ چیز غیر شعوری طور پر تو ہر مخلص اور صحیح الفکر خادم کو بخشی جاتی ہے، لیکن اگر کسی کو شعوری طور پر بھی دے دی جائے تو یہ اللہ کا انعام ہے۔
قرآن پاک کی رو سے یہ حیثیت صرف ایک نبی ہی کو حاصل ہوتی ہے کہ وہ امر تشریعی سے مامور من اللہ ہوتا ہے اور خلق کو یہ دعوت دینے کا مجاز ہوتا ہے کہ وہ اس پر ایمان لائیں اور اس کی اطاعت کریں، حتیٰ کہ جو اس پر ایمان نہ لائے، وہ خدا کو ماننے کے باوجود کافر ہوتا ہے۔ یہ حیثیت نبی کے سوا کسی کو بھی نظام دین میں حاصل نہیں ہے۔ اگر کوئی اس حیثیت کا مدعی ہو تو ثبوت اسے پیش کرنا چاہیے نہ کہ ہم اس دعویٰ کی نفی کا ثبوت پیش کریں۔ وہ بتائے کہ قرآن و حدیث میں کہاں نبی کے سوا کسی کا یہ منصب مقرر کیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کے سامنے اس منصب پر مامور کیے جانے کا دعویٰ کرے اور اپنے اس دعوے کو ماننے کی لوگوں کو دعوت دے اور جو اس کا دعویٰ تسلیم نہ کرے، وہ مجرد اس بنا پر کافر اور جہنمی ہو کہ اس نے مدعی کے اس دعویٰ کو تسلیم نہیں کیا؟
اگر کوئی شخص حدیث ’’مَنْ یُّجَدِدُّلَھَا دِیْنَھَا‘‘ کا حوالہ دے یا ان احادیث کو پیش کرے جو مہدی کی آمد کے متعلق ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان میں کہیں بھی مجدد یا مہدی کے منصب کی وہ حیثیت بیان نہیں کی گئی ہے جس کا یہاں ذکر ہو رہا ہے۔ آخر ان میں کہاں یہ لکھا ہے کہ یہ لوگ اپنے مجدد اور مہدی ہونے کا دعویٰ کریں گے اور جو ان کے دعوے کو مانے گا وہی مسلمان رہے گا، باقی سب کافر ہوجائیں گے۔
یہاں یہ بحث چھیڑنا بھی خلط مبحث ہے کہ جو شخص تجدید و احیائے دین اور اقامت دین کا برحق کام کر رہا ہو، اس کا ساتھ نہ دینا یا اس کی مخالفت کرنا کس طرح موجب نجات ہوسکتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ اس طرح کا کام جہاں اور جب بھی ہوتا ہے وہ فارق بین الحق و الباطل بن جاتا ہے اور آدمی کے حق پرست ہونے کی پہچان یہی ہوتی ہے کہ وہ ایسے کام کا ساتھ دے۔ لیکن اس فرق و امتیاز کی بنیاد دراصل یہ ہوتی ہے کہ دین کی تجدید و اقامت میں سعی کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے، نہ یہ کہ کسی مدعی کے دعویٰ کو ماننا ایمان کا تقاضا ہوتا ہے اور مجرد اس بنا پر ایک مسلمان نجات سے محروم ہوجاتا ہے کہ اس نے اس شخص کے دعوائے مجددیت یا مہدویت کو نہیں مانا۔
اب شاہ ولی اللہؒ اور مجدد سر ہندیؒ کے دعوؤں کو لیجیے۔ ان دونوں بزرگوں کے تجدیدی اور اصلاحی کارناموں کے اعتراف کے باوجود ہ یہ کہے بغیر چارہ نہیں ہے کہ ان کا مجدد ہونے کی خود تصریح کرنا اور بار بار کشف و الہام کے حوالہ سے اپنی باتوں کو پیش کرنا ان کے شایان شان نہ تھا۔ ان کے اسی ادعا نے بعد کے بہت سے کم ظرفوں کو طرح طرح کے دعویٰ کرنے اور امت میں نئے نئے فتنے اٹھانے کی جرأت دلائی۔ کوئی شخص اگر تجدید کے لیے کسی قسم کی خدمت انجام دینے کی توفیق پاتا ہو تو اسے چاہیے کہ خدمت انجام دے اور یہ فیصلہ اللہ تعالیٰ پر چھوڑے کہ اس کا کیا مقام اس کے ہاں قرار پاتا ہے۔ آدمی کا اصل مقام وہ ہے جو آخرت میں اس کی نیت و عمل کو دیکھ کراور اپنے فضل سے اس کو قبول کرکے اللہ تعالیٰ اسے دے، نہ کہ وہ جس کا وہ خود دعویٰ کرے یا لوگ اسے دیں۔ اپنے لیے خود القاب و خطابات تجویز کرنا اور دعوؤں کے ساتھ انہیں بیان کرنا اور اپنے مقامات کا ذکر زبان پر لانا کوئی اچھا کام نہیں ہے۔ بعد کے ادوار میں صوفیانہ ذوق نے تو اسے اتنا گوارا کیا کہ خوشگوار بنادیا۔ حتیٰ کہ بڑے بڑے لوگوں کو بھی اس فعل میں قباحت محسوس نہ ہوئی۔ مگر صحابہ کرام اور تابعین و تبع تابعین و آئمہ مجتہدین کے دور میں یہ چیز بالکل ناپید نظر آتی ہے۔
ہم شاہ صاحب اور مجدد صاحب کے کام کی بے حد قدر کرتے ہیں، اور ہمارے دل میں ان کی عزت ان کے کسی معتقد سے کم نہیں ہے مگر ان کے جن کاموں پر ہمیں کبھی شرح صدر حاصل نہیں ہوا، ان میں سے ایک یہ ہے اور حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ان کی کسی بات کو بھی اس بنا پر کبھی نہیں مانا کہ وہ اسے کشف و الہام کی بنا پر فرما رہے ہیں، بلکہ جو بات بھی مانی ہے اس وجہ سے مانی ہے کہ اس کی دلیل مضبوط ہے، یا بات بجائے خود معقول و منقول کے لحاظ سے درست معلوم ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم نے ان کو جو مجدد مانا ہے تو یہ ایک رائے ہے، جو ان کا کام دیکھ کر ہم نے قائم کی ہے۔ نہ کہ ایک عقیدہ ہے جو ان کے دعووں کی بنا پر اختیار کر لیا گیا ہے۔
(ترجمان القرآن ذی الحجہ ۱۳۷۳ھ، ستمبر ۱۹۵۴ء)