رسموں کی شریعت
سوال: چند اشکال درپیش ہیں۔ ان کے متعلق شرعی رہنمائی چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ میرے اطمینان کے لیے حسب ذیل امور پر روشنی ڈالیں گے۔
ا۔ایک مفلس مسلمان اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کرنا چاہتا ہے۔ افلاس کے باوجود دنیا والوں کا ساتھ دینے کا بھی خواہشمند ہے، یعنی شادی ذرا تزک و احتشام سے کرے وقتی سی مسرت حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اس کی رہنمائی کیسے کی جائے؟
ب۔ ایک مقروض مسلمان جو تمام اثاثہ بیچ کر بھی قرض ادا کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا، بیٹے بیٹیوں کی شادی کرنا چاہے تو فریق ثانی کی طرف سے ایسی شرائط سامنے آتی ہیں جو بہرحال صرفِ کثیر چاہتی ہیں تو اس کے لیے کیا راہ عمل ہے۔
ج: عموماً لڑکیوں کی شادی کے معاملے میں اس کا انتظار کیا جاتا ہے کہ دوسری طرف سے نسبت کے پیغام میں پہل ہو،چنانچہ اسی انتظار میں بعض اوقات لڑکیاں جوانی کو طے کرکے بڑھاپے کی سرحد میں جا داخل ہوتی ہیں اور کنواری رہ جاتی ہیں۔ اس معاملے میں اسلام کیا کہتا ہے ؟
د: موجودہ مسلمان شادی بیاہ، پیدائش اور موت کی تقریبات پر چھٹی، چلہ، باجہ ، منگنی، جہیز اور اسی طرح چالیسواں، قل وغیرہ کی جو رسوم انجام دیتے ہیں ان کی حیثیت شریعت میں کیا ہے۔
جواب (1) ایسا شخص جو خود جانتا ہے کہ وہ اتنا خرچ کرنے کے قابل نہیں ہے۔اور محض دنیا کے دکھاوے اور اپنی غلط خواہشات کی تسکین کی خاطراپنی چادر سے زیادہ پاؤں پھیلانا چاہتا ہےوہ تو جان بوجھ کر اپنے آپ کو معصیت کے گڑھے میں پھینک رہا ہے۔اپنی غلط خواہش کی وجہ سےیا تو وہ سودی قرض لے گایا کسی ہمدرد کی جیب پر ڈاکہ ڈالے گا۔اور اگر اسے قرض حسنہ مل گیا، جس کی اُمید نہیں ہے، تو ا سے مار کھائے گا۔ اور اس سلسلے میں خدا جانے کتنے جھوٹ اور کتنی بے ایمانیاں اس سے سرزد ہوگی۔ آخر ایسے شخص کو کیا سمجھایا جاسکتا ہے جو محض اپنے نفس کی غلط خواہش کی خاطر اتنے بڑے بڑے گناہ جانتے بوجھتے اپنے سر لینے پر آمادہ ہے۔
ب: ایسے شخص کو اپنےلڑکے لڑکیوں کی شادیاں ان لوگوں میں کرنی چاہیےجومالی حیثیت سےاسی جیسے ہوں اور جو اس کے لیے تیار ہوں کہ اپنی چادر سے نہ وہ خود زیادہ پاؤں پھیلائیں اور نہ دوسرے کوزیادہ پاؤں پھیلانے مجبور کریں۔اپنے سے بہترمالی حالات رکھنے والوں میں شادی بیاہ کرنے کی کوشش کرنا اپنے آپ کو خوامخواہ مشکلات میں مبتلا کرنا ہے۔
ج:یہ صورت تو کچھ فطری سی ہے، لیکن اس کو حد سے زیادہ بڑھانا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص کی لڑکی جوان اور شادی کے قابل ہو چکی ہو اور اسے کوئی مناسب لڑکا نظر آئے، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ وہ خود اپنی طرف سے پیغام دینے میں ابتداء کرے۔ اس کی مثالیں خود صحابہ کرام میں ملتی ہیں۔ اگر یہ بات حقیقت میں کوئی ذلت کی بات ہوتی تو نبی کریمﷺ اس کو منع فرما دیتے۔
د۔ یہ سب چیزیں وہ پھندے ہیں جو لوگوں نے اپنے گلے میں خود ڈال لیے ہیں، ان میں پھنس کر ان کی زندگی اب تنگ ہوئی جارہی ہے، لیکن لوگ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے ان کو کسی طرح چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔اس کا علاج یہ نہیں ہے کہ براہ راست ان رسموں کے خلاف کچھ کہا جائے، بلکہ صرف یہ ہے کہ لوگوں کو قرآن اور سنت کی طرف دعوت دی جائے،خدا اور رسول ﷺ کے طریقے پر لوگ آجائیں۔ تو بڑی خرابیاں بھی دور ہوں گی اور یہ چھوٹی چھوٹی خرابی بھی نہ رہیں گی۔
سوال: میں عرصہ سے تجرد کی زندگی گزار رہا ہوں اور اس سبب کی ذمہ داری میرے ’’اجتہاد‘‘ کے سر ہے۔ ہمارے اطراف میں کچھ اس قسم کے اصول و مراسم شائع ہیں جن کے بارے میں اگر فقہی موشگافیوں سے کام لینا شروع کردیا جائے تو ان کو ’’ناجائز‘‘ اور ’’غیر شرعی رسم‘‘ کہنا مشکل ہوگا۔ مثلاً یہ کہ منسوبہ یا منکوحہ کے لیے زیور وپارچہ جات کا مطالبہ، کچھ آپس کے لین دین، ایک دوسرے کے کمیوں اور خدمت گاروں کو بطور عطیہ و انعام کچھ دینا دلانا، برادری اور اہل قرابت کو بلانا اور ان کی ضیافت کرنا وغیرہ۔ یہ بہت سی چیزیں بظاہر اگر علیحدہ علیحدہ کرکے دیکھی جائیں تو ان میں سے غالباً کسی ایک کو بھی ناجائز نہ کہا جاسکے گا۔ لیکن اگر ان مراسم کے اس پہلو پر نظر ڈالی جائے کہ ان کی پابندی اور التزام اس حد تک ہے کہ ان کے بغیر کامیابی ہی نہیں ہوتی اور کوئی کسی درجہ کا آدمی کیوں نہ ہو۔ ان کی پابندی قبول کیے بغیر ازدواجی زندگی کا آغاز کر ہی نہیں سکتا تو بالکل صفائی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ چیزیں اب صرف ’’مباح‘‘ کے درجہ پر باقی نہیں رہی ہیں، بلکہ یہ سب برادری کاایک قانون بن گئی ہیں اور ایسا قانون کہ ان کی خلاف ورزی کرنے والا گویامجرم متصور ہوتا ہے۔ پس جب ہم یہ کہتے ہیں کہ ہر باطل قانون کو توڑ دیا جائے، چاہے وہ کہیں ہو، تو سوال یہ ہے کہ آیا مذکورہ بالا چیزیں اس شکست و ریخت کی مستحق ہیں یا نہیں؟ اگر یہ حملہ کی مستحق ہیں، جیسا کہ میری رائے ہے تو کیا یہ حقیقت آپ سے مخفی ہے کہ ہندوستان کا کوئی گوشہ بھی ایسا نہیں ہے جہاں اس قسم کی ’’شریعت رسوم‘‘ نافذ العمل نہ ہو، خواہ اس کی تفصیل اشکال کچھ ہی ہوں۔ جن تقریبات کو آج کل ’’شرعی تقریبات‘‘کہا جاتا ہے وہ بھی بس صرف اس حد تک ’’شرعی‘‘ ہوتی ہیں کہ ان میں ناچ، باجہ گاجہ اور ایسی ہی دوسری خرافات و مزخرفات نہیں ہوتی، لیکن مذکورہ بالا رسوم کا جہاں تک تعلق ہے وہ ان میں بھی بدرجہ اتم موجود رہتی ہیں اور انہیں ’’اباحت‘‘ کی چادر میں چھپا لیا جاتا ہے۔ پس کیا جماعت اسلامی کا یہ فرض نہیں ہے کہ وہ اپنے اراکین کو ’’غیر شرعی رسوم‘‘ کی وضاحت اس طرح کرکے بتلائے کہ یہ ’’اباحت‘‘ کی قبا چاک ہوجائے اور وہ اپنی تقریبات کو بالکل مسنون طریقہ پر منائیں؟
اگر ان رسوم کے خلاف میرا احساس صحیح نہ ہو تو پھر کچھ وضاحت سے ’’شریعت رسوم‘‘ کے واجبات کو قابل بغاوت قوانین باطل سے مستثنٰی قرار دینے کی وجوہ تحریر فرمائیں۔اس سے اگر میرا اطمینان ہوگیا تو تجرد کی مصیبت سے نجات حاصل ہو سکے گی اور اگر آپ نے میری رائے کی تصدیق کی تو پھر میرے لیے بظاہر کامیابی کا کہیں موقع نہیں ہے۔ مگر مجھے اس سے بڑی مسرت ہوگی، کیونکہ پھر تکلیف صحیح معنوں میں اللہ کی راہ میں ہوگی۔ولعل اللہ یحدث بعد ذالک امراً۔
جواب: ہم ’’الاقدم فالا قدم‘‘ کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ پہلے دین کی جڑوں کو دلوں میں جمانا ضروری ہے، اس کے بعد تفصیلات کو ایک ترتیب و تدریج کے ساتھ زندگی کے مختلف گوشوں اور کونوں میں درست کرنے کا موقع آئے گا۔ اگر ہم شادی بیاہ، لین دین اور دوسرے معاملات کی تفصیلات و جزئیات بیان کرنے پر اتر آئیں تو ہماری اصولی دعوت کا کام منتشر ہوجائے گا۔ اس لیے جہاں تک دین کے بنیادی امور کا تعلق ہے ہم ان کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں، اور جہاں تک جزئیات کا تعلق ہے ان کے متعلق ہم سردست اجمال سے کام لے رہے ہیں۔
شادی بیاہ وغیرہ تقریبات کی رسوم کی پوری پوری اصلاح اس وقت تک ہو ہی نہیں سکتی جب تک کہ دینی زندگی اپنی صحیح بنیادوں پر تعمیر ہوتی ہوئی اس مرحلہ پر نہ پہنچ جائے، جہاں ان چیزوں کی اصلاح ممکن ہو۔ اس وقت تک ہمارے ارکان کو زیادہ تر صرف ان چیزوں سے اجتناب پر اصرار کرنا چاہئے جن کو صریحاً خلاف شریعت کہا جا سکتا ہو۔ رہیں وہ چیزیں جو معاشرت اسلامی کی روح کے تو خلاف ہیں مگر مسلمانوں کی موجودہ معاشرت میں قانون و شریعت بنی ہوئی ہیں تو وہ ہمارے ذوق اسلامی پر خواہ کتنی ہی گراں ہوں، لیکن سردست ہمیں ان کو اس امید پر گوارا کرلینا چاہیے کہ بتدریج ان کی اصلاح ہوسکے گی مگر یہ گوارا کرنا رضامندی کے ساتھ نہ ہو، بلکہ احتجاج اور فہمائش کے ساتھ ہو۔یعنی ہر ایسے موقع پر واضح کردیا جائے کہ شریعت تو اس طرح کے نکاح چاہتی ہے جیسے ازواج مطہرات اور دوسرے صحابہ کرام کے ہوئے تھے، لیکن اگر تم لوگ یہ تکلفات کیے بغیر نہیں مانتے تو مجبوراً ہم اس کو گوارا کرتے ہیں اور خدا سے دعا کرتے ہیں کو وہ وقت آئے کہ جب تم نبیﷺ اور اصحاب نبیﷺ کی طرح کے سادہ نکاح کرنے کو اپنی شان سے فروتر نہ سمجھو!
ہمارا یہ رویہ تو عام لوگوں کے لیے ہے جن سے ہم مختلف قسم کے روابط پیدا کرنے اور جن کے ساتھ کئی طرح کے دنیوی امور میں معاملہ کرنے پر مجبور ہیں۔ لیکن خود ارکان جماعت کے درمیان ایسے جتنے روابط اور معاملات بھی ہوں، انہیں رسوم کی آلودگیوں سے پاک کرکے سادگی کی اس سطح پر لے آنا چاہئے جس تک نبیﷺ اور آپ کے صحابہؓ نے انہیں پہنچا یا تھا۔ ہمارے معاملات میں مباحات کو مباحات ہی کی حد تک رہنا چاہئے اور ان میں سے کسی چیز کو قانون اور شریعت کے درجہ تک نہیں پہنچنا چاہئے۔ رواج کی رو میں بہنے والے بہت سے ایسے ہوتے ہیں جو بغاوت کرنا بھی چاہتے ہیں مگر پہل کی جسارت نہیں کرسکتے۔ رسموں کی بیڑیوں سے نجات حاصل تو کرنا چاہتے ہیں مگر دوسروں سے پہلے انہیں کاٹنے کی جرات نہیں رکھتے۔ اپنی پیٹھوں پر لدے ہوئے رواجوں کے بوجھوں سے ان کی کمریں ٹوٹ رہی ہوتی ہیں مگر ان کو پٹخ دینے میں پیش قدمی نھیں کرسکتے ۔یہ پہل اور پیش قدمی اب ہم لوگوں کو کرنی ہے۔ہمارے ہر ساتھی کا یہ فرض ہے کہ زندگی کے روزمرہ کے معا ملات اور تقریبات کو گوناگوں پابندیوں سے آزاد کرنے میں پوری بے باکی سے پہل کرے اور لوگوں کی ’’ناک‘‘ بچانے کے لیے خود نکو بن کر معاشرتی زندگی میں انقلاب برپا کرے۔خالص اسلامی انداز تقریبات اور معاملات کو سر انجام دینے کی مثا لیں اگر جگہ جگہ ایک دفعہ قائم کردی جائیں گی تو سوسائٹی کا کچھ نہ کچھ عنصران کی پیروی کرنے کے لیے آمادہ ہو جائے گا اور اس طرح رفتہ رفتہ احوال بدل سکیں گے۔
سوال: ہمارے علاقے میں عام طور پر نکاح کا مہر نو صد روپیہ معین ہوتا ہے۔ اس سے تین سو روپیہ کی ادائیگی ہوجاتی ہے اور چھ سو روپیہ کی رقم وصول طلب رہتی ہے۔ لیکن بالعموم مرد کی طرف سے اس چھ سو کی ادائیگی کی نوبت کبھی نہیں آتی۔
ہمارے ایک رشتہ دار کی لڑکی کا نکاح آج سے تقریباً ۵ سال قبل ہوا تھا اور اس کا مہر دس ہزار روپیہ قرار پایا تھا۔ لڑکے کی طرف سے اول اول اتنے بڑے مہر کو تسلیم کرنے میں پس و پیش ہوتا رہا مگر آخر کار محض اس وجہ سے یہ ہٹ چھوڑدی گئی کہ یہ سب کچھ ایک نمائشی رسم کے سوا کچھ نہیں۔
اب اسی رشتہ دار کی دوسری لڑکی کی نسبت میرے چھوٹے بھائی کے ساتھ طے پائی ہے اور اب جلد ہی اس کا نکاح ہونے والا ہے۔ لڑکی کے اولیا کی طرف سے قبل از وقت یہ اطلاع پہنچا دی گئی ہے کہ مہر وہی نو دس ہزار روپیہ مقرر ہوگا۔اگر اس رقم میں اب کوئی کمی کی جائے تو ان کا پہلا داماد بگڑ جائے گا کہ جب اس کے لیے دس ہزار روپیہ رکھا گیا تھا تو اب دوسرے داماد سے کوئی امتیازی رویہ کیوں اختیار کیا جائے؟
اس الجھن کو طرفین نے حل کرنے کی صورت یہ سوچی ہے کہ مجلس نکاح میں جب کہ ہمارے عزیز کا پہلا داماد موجود ہوگا، مہر وہی نو دس ہزار روپیہ تحریر کیا جائے گا، مگر بعد میں خفیہ طور پر اس تحریر کو بدل کر نو ہزار سے نو سو کردیا جائے گا۔ اس طرح نہ پہلا داماد ناراض ہوگا نہ ہمارے چھوٹے بھائی پر بار رہے گا۔
مجھے اس مجوزہ صورت معاملہ میں کھٹک ہورہی ہے اور میں نے اس کا اظہار اپنے والد محترم کے سامنے بھی کردیا ہے اور ان سے درخواست کی ہے کہ وہ علمائے شریعت سے استصواب کرلیں۔ اس پر انہوں نے فرمایا کہ ایک مقامی مفتی صاحب سے استفادہ کیا جا چکا ہے اور ان کی رائے میں ایک معاملہ میں طرفین جب راضی ہیں تو شریعت معترض نہیں ہوسکتی۔ اس پر میں نے والد صاحب پر اپنا عدم اطمینان ظاہر کیا ہے۔
یہی معاملہ جماعت اسلامی کے ایک رکن کے سامنے رکھا تو انہوں نے فرمایا کہ مجوزہ صورت میں ایک تو پہلے داماد کو فریب دیا جائے گا اور دوسرے دس ہزار مہر کی بہرحال ایک اور مثال عوام کے سامنے قائم کی جائے گی اور رسم و رواج کی بیڑیوں میں گویا ایک اور کڑی کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس وجہ سے میں اسے صحیح نہیں سمجھتا۔
اب مشکل یہ ہے کہ نکاح کی مجلس میں لڑکے کا بھائی ہونے کی وجہ سے مجھے شریک بھی ہونا ہے اور شاید وکیل یا گواہ بھی بننا پڑے، اور صورت ایسی ہے کہ میرا ضمیر اس کے جائز ہونے کی شہادت نہیں دیتا۔ اگر میں بہ حیثیت وکیل یا شاہد مجلس میں شریک ہوتا ہوں تو از خود اس غلطی میں حصہ دار ہوں جس کو سوچ سمجھ کر میرے اعزہ کرنے لگے ہیں۔ اگر شرکت سے باز رہوں تو یہ سمجھا جائے گا کہ میں بھائی کی شادی پر خوش نہیں ہوں۔ نیز اگر عدم شرکت کی وجہ مجھ سے پوچھی جائے تو میں خاموش رہنے پر مجبور ہوں، کیونکہ اگر حقیقت بیان کردوں تو سارا معاملہ درہم برہم ہوکے رہے گا۔
اب براہ کرم آپ میرے لیے صحیح اسلامی رویہ تجویز فرمادیں انشاء اللہ میں دنیوی تعلقات اور مفاد کو تعمیل میں حائل نہ ہونے دوں گا۔ میں صرف شریعت کا حکم معلوم کرنا چاہتا ہوں اور اس کے اتباع پر تیار ہوں، فرار کے لیے کوئی تاویل مجھے مطلوب نہیں ہے۔
جواب: جو معاملہ آپ نے لکھا ہے وہ ایک نمونہ ہے ان غلط کاریوں کا جن میں مسلمان شریعت و اخلاق سے دور ہوکر مبتلا ہوگئے ہیں۔ شریعت نے مہر کو عورت کا ایک حق مقرر کیا تھا اور اس کے لیے یہ طریقہ طے کیا تھا کہ عورت اور مرد کے درمیان جتنی رقم طے ہو اس کا ادا کرنا مرد پر واجب ہے۔ لیکن مسلمانوں نے شریعت کے اس طریقہ کو بدل کر مہر کو ایک رسمی اور دکھاوے کی چیز بنا لیا، اور بڑے بڑے مہر دکھاوے کے لیے باندھنے شروع کیے، جن کے ادا کرنے کی ابتداء ہی سے نیت نہیں ہوتی اور جو خاندانی نزاع کی صورت میں عورت اور مرد دونوں کے لیے بلائے جان بن جاتے ہیں اب ان غلطیوں سے بچنے کی سیدھی اور صاف صورت یہ ہے کہ مہر اتنے ہی باندھے جائیں جن کے ادا کرنے کی نیت ہو، جن کے ادا کرنے پر شوہر قادر ہو۔ پورا مہر بروقت ادا کردیا جائے تو بہتر ہے، ورنہ اس کے لیے ایک مدت کی قرار داد ہونی چاہئے اور آسان قسطوں میں اس کو ادا کردینا چاہئے۔ اس راستی کے طریقہ کو چھوڑ کر اگر کسی قسم کے حیلے نکالے جائیں گے تو نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ ہوگا کہ ایک غلطی سے بچنے کے لیے دس قسم کی اور غلطیاں کی جائیں گی جو شرع کی نگاہ میں بہت بری اور اخلاق کے اعتبار سے نہایت بدنما ہیں۔آپ ایسے نکاح میں وکیل یا گواہ کی حیثیت قبول نہ کریں، بلکہ فریقین کو سمجھانے کی کوشش کریں اور اگر نہ مانیں تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیں۔ نکاح میں شریک ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن جھوٹ اور فریب کا گواہ بننا مسلمانوں کے لیے جائز نہیں۔
(ترجمان القرآن۔ ذی القعدہ 65ھ ۔ اکتوبر46ء)