پردہ کے متعلق چند عملی سوالات
سوال: آپ کی کتاب’’پردہ‘‘ کے مطالعہ کے بعد میں نے اور میری اہلیہ نے چند ہفتوں سے عائلی زندگی کو قوانین الہٰیہ کے مطابق بنانے کی سعی شروع کر رکھی ہے۔ مگر ہمارے اس جدید رویہ کی وجہ سے پورا خاندان بالخصوص ہمارے والدین سخت برہم ہیں اور پردہ کو شرعی حدود و ضوابط کے ساتھ اختیار کرنے پر برافروختہ ہیں۔ خیال ہوتا ہے کہ کہیں ہم ہی بعض مسائل میں غلطی پر نہ ہوں۔ پس تسلی کے لیے حسب ذیل امور کی وضاحت چاہتے ہیں:
۱۔ سورہ احزاب کی یہ آیت کہ ’’عورتوں پر کچھ گناہ نہیں کہ وہ اپنے باپوں کے سامنے پردہ نہ کریں اور نہ اپنے بیٹوں کے سامنے…… الخ۔ اس سے یہ بات صاف ظاہر ہوگئی کہ آیت میں جن اعزہ کا ذکر ہے ان کے سوا عورتوں کا کسی دوسرے کے سامنے کسی بھی شکل اور حالات میں آنا(الابہ اشد مجبوری) صریحاً گناہ ہے۔ اس معاملے میں غیر محرم رشتہ دار اور غیر محرم اجانب بالکل برابر ہیں۔ کیا میرا یہ خیال صحیح ہے؟
۲۔ کیا غیر محرم اعزہ (مثلاً چچا زاد بھائی یا خالو جب خالہ زندہ ہو) کے سامنے ہونا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو کن مواقع کے لیے اور کن طریقوں کے ساتھ جائز ہے؟
۳۔اگر کسی غیر محرم رشتہ دار کے ساتھ ایک ہی مکان میں مجبوراً رہنا ہو یا کوئی غیر محرم عزیز بطور مہمان آرہے تو ایسی حالت میں پردہ کسی طرح کیا جاسکے گا؟ اسی طرح کسی قریبی عزیز کے ہاں جانے پر اگر زنانے سے بلاوا آجائے تو کیا صورت کی جائے؟
۴۔ اگر گھروں میں جوان ملازم کام کاج کے لیے آئیں جائیں تو سن رسیدہ عورتوں کے لیے جو رخصت ہے وہ مجھے معلوم ہے مگر جوان عورتیں کیا صرف یہ کہہ کر ان کے سامنے بے پردہ ہوسکتی ہیں کہ ہماری نیت پاک ہے؟
۵۔ اگر خدا و رسول کے احکام کے تحت پردہ اختیار کرنے میں کسی کی والدہ حائل ہو تو اس کے حکم کو رد کیا جاسکتا ہے یا نہیں، جبکہ آپ کے پاؤں کے نیچے جنت ہے؟
۶۔ کیا عورتوں کو مردوں اور عورتوں کے مشترکہ جلسوں میں نقاب اوڑھ کر تقریر کرنی جائز ہے؟ حدیث کی رو سے تو عورتوں کی آواز کا غیر محرم مردوں تک پہنچنا پسندیدہ نہیں معلوم ہوتا۔
۷۔ کیا ہماری عورتیں لیڈی ڈاکٹر یا نرس یا معلمہ بن سکتی ہیں؟ جیسا کہ ہماری قوم کے بڑے بڑے لیڈروں نے قوم کو اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہماری عورتیں ان سب کاموں میں حصہ لے کر گزشتہ نقصانات اور پسماندگی کی تلافی کریں۔ اسلامی نقطہ نظر سے عورتیں کیا ان مشاغل کو اختیار کر سکتی ہیں اور آیا انہیں پردہ میں رہ کر ہی انجام دیناہوگا یا ضرورتاً پردہ سے باہر بھی آسکتی ہیں؟
۸۔کیا عورتیں چہرہ کھول کر یا نقاب کے ساتھ جہاد میں شرکت کر سکتی ہیں؟
جواب: ۱۔ آپ نے قرآن مجید کے اصل الفاظ پر غور نہیں کیا۔ وہ آیت جس کا حوالہ آپ دے رہے ہیں، سورہ احزاب میں نہیں ہے بلکہ سورہ نور میں ہے اور اس میں الفاظ یہ ہیں کہ:
’’وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا……،‘‘
یعنی بجز ان لوگوں کے اور کسی کے سامنے زینت کا اظہار نہ کریں۔ دوسرے لفظوں میں بناؤ سنگھار اور آرائش کے ساتھ غیر محرم لوگوں کے سامنے نہ آئیں۔ دوسری طرف گھر سے باہر نکلنے کی صورت میں یہ ہدایت دی گئی ہے کہ:
’’ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِہِنَّ‘‘
یعنی اپنی چادر کو اپنے اوپر گھونگھٹ کے طور پر لٹکا لیا کریں۔ ان دونوں آیتوں پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مردوں کی تین قسمیں ہیں اور ہر قسم کے الگ احکام ہیں۔ ایک وہ محرم رشتہ دار وغیرہ جن کا ذکر سورہ نور والی آیت میں آیا ہے۔دوسرے بالکل اجنبی لوگ جن کا حکم سورہ احزاب والی آیت میں بیان ہوا ہے۔ تیسرے ان دونوں کے درمیان ایسے لوگ جو محرم بھی نہیں ہیں اور اجنبی بھی نہیں۔ پہلی قسم کے مردوں کے سامنے عورت اپنے بناؤ سنگھار کے ساتھ آسکتی ہے۔ دوسری قسم کے مردوں کو چہرہ تک نہیں دکھا سکتی۔ رہے تیسری قسم کے لوگ تو ان سے پردے کی نوعیت مذکورہ بالا دونوں حدوں کے درمیان رہے گی۔ یعنی نہ تو ان سے بالکل اجنبیوں کا سا پردہ ہوگا اور نہ ان کے سامنے زینت کا اظہار ہی کیا جائے گا۔
۲۔ سامنے ہونے کے دو مطلب ہیں۔ ایک مطلب تو یہ ہے کہ اس طرح کی آزادی اور بناؤ سنگھار کے ساتھ سامنے ہونا جیسے باپ بھائی وغیرہ کے سامنے ہوا جاتا ہے، اور بے تکلف بیٹھ کر بات چیت کرنا، ہنسنا بولنا، حتیٰ کہ تنہائی تک میں ساتھ رہنا۔ یہ چیز کسی قسم کے غیر محرم مردوں کے ساتھ بھی جائز نہیں ہے، خواہ وہ اجنبی ہوں یا رشتہ دار۔دوسرا مطلب اس کا یہ ہے کہ عورت اپنی زینت کو چادر وغیرہ سے چھپا کر، نیز سر کو ڈھانک کر صرف چہرہ اور ہاتھ کھولے ہوئے کسی کے سامنے آئے، اور وہ بھی اپنے آپ کو دکھانے کی غرض سے نہیں بلکہ ان ناگزیر ضرورتوں کو پورا کرنے کی غرض سے جو مشترک خاندانی معاشرت میں پیش آتی ہیں۔ مگر آزادی کے ساتھ بیٹھ کر خلاما نہ کرے۔ خلوت میں بھی اس کے ساتھ نہ رہے، اور صرف اس طرح سامنے ہو کہ مثلاً اس کے سامنے سے گزر جائے یا کوئی ضروری بات ہوتو پوچھ لے یا بتا دے، اس حد تک غیر محرم اعزہ کے سامنے ہونے کی شرعاً اجازت ہے یا کم از کم ممانعت نہیں ہے۔بہر حال چچا زاد بھائیوں اور خالہ زاد بھائیوں کے ساتھ جو ہنسی مذاق اور انتہائی بے تکلفی آج کے مسلمانوں کے گھروں میں رائج ہے اور جس طرح مسلمان لڑکیاں اس قم کے عزیزوں کے سامنے بنی ٹھنی رہتی ہیں، شریعت اسلامیہ میں ان بے اعتدالیوں کے لیے کوئی جواز نہیں ہے۔
۳۔ایسے حالات میں اگر شریعت کی پابندی کا ارادہ دونوں طرف موجود ہو تو صحیح راہ عمل یہ ہے کہ جب کوئی غیر محرم عزیز گھر میں آئے تو شرعی قاعدہ کے مطابق استیذان (طلب اجازت) کرے۔ پھر جب ایسی آواز آئے تو عورت کو چاہئےکہ کوئی چیز اوڑھ کر اپنی زینت کو چھپالے اور ذرا اپنا رخ بدل لے یا پیٹھ موڑ لے۔ اگر بالکل ناگزیر ہو تو چہرہ اور ہاتھ غیر محرم عزیز کے سامنے ظاہر ہونے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ اسی طرح بضرورت سادگی کے ساتھ بات کر لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔البتہ خلا ملا اور بے تکلفی اور ہنسی مذاق بالکل ناجائزہے۔
۴۔ ملازموں کے معاملے میں میری تحقیق یہ ہے کہ جن ملازموں کے متعلق صاحب خانہ کی رائے یہ ہو کہ وہ ’’غیر اولی الاربتہ‘‘ کی تعریف میں آتے ہیں (یعنی اپنے آقا کے گھر کی عورتوں کے متعلق کوئی برا خیال ان کے دل میں آنے کی توقع نہیں ہے)ان کو گھر میں آنے جانے اور کام کرنے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔لیکن جن ملازموں کے متعلق صاحب خانہ کی یہ رائے نہ ہو، ان کا گھروں میں آنا جانا جائز نہیں ہے۔ بہر حال اس معاملے میں گھر کے قوام کا اجتہاد معتبر ہے، بشرطیکہ وہ شریعت کی پابندی کا ارادہ رکھتا ہو، نہ کہ حدود شریعت کو بے پروائی کے ساتھ ٹالنے والا ہو۔
۵۔ ماں کے پاؤں کے نیچے جنت ہے، لیکن حکم صرف اسی ماں کا مانا جاسکتا ہے جو جنتیوں کے سے کام کرے، یعنی خدا اور رسول کے احکام کے آگے جھکنے والی ہو اور اپنے نفس یا خاندانی رواجوں پر شریعت کو قربان کردینے والی نہ ہو۔ رہی وہ ماں جو اس کے برعکس صفات رکھتی ہو تو اس کی خدمت تو کی جاتی رہے گی، مگر غیر شرعی امور میں اس کی اطاعت نہیں کی جاسکتی۔ شریعت کی پابندی سے آزاد ہو کر اور اپنے نفس یا برادری کی شریعت کو خدا کی شریعت پر ترجیح دے کر تو اس نے اپنا قدم خود جہنم کی طرف ڈال دیا۔ پھر آخر اس کے پاؤں کے نیچے جنت کیسے ہوسکتی ہے۔
۶۔بعض حالات میں یہ چیز جائز ہے کہ عورت پردے کی پوری پابندی کے ساتھ مردوں کو خطاب کرے، لیکن بالعموم یہ جائز نہیں ہے۔ اس امر کا فیصلہ کرنا کہ کن حالات میں یہ چیز جائز ہے اور کن حالات میں جائز نہیں، صرف ایسے شخص یا اشخاص کا کام ہے جو مواقع اور حالات کو شرعی نقطہ نظر سے سمجھنے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں اور شریعت کے منشا کے مطابق زندگی بسر کرنے کی نیت بھی ان میں پائی جاتی ہو۔
۷۔ لیڈر صاحبان کا حوالہ دے کر آپ نے جو سوال کیا ہے اس کا مختصر جواب تو یہ ہے کہ اگر اسلامی تہذیب اسی چیز کا نام ہے جس کی پیروی یہ حضرات خود اور ان کے اتباع میں مسلمان آج کل کر رہے ہیں تو پھر اسلامی تہذیب اور یورپین تہذیب میں کوئی فرق نہیں ہے۔ پھر تو مسلمانوں کو وہ سب کچھ کرنا چاہئے جو آج کل یورپ میں ہو رہا ہے۔لیکن اگر اسلامی تہذیب اس تہذیب کا نام ہے جومحمدﷺ نے سکھائی تھی تو آج کل کے میڈیکل کالجوں اور نرسنگ کی تربیت گاہوں اور ہسپتالوں میں مسلمان لڑکیوں کو بھیجنے سے لاکھ درجہ بہتر یہ ہے کہ ان کو قبروں میں دفن کردیا جائے۔ رائج الوقت گرلزکالجوں میں جاکر تعلیم حاصل کرنے اور معلمات بننے کا معاملہ بھی اس سے کچھ بہت مختلف نہیں ہے۔ البتہ اگر نظام تعلیم و تربیت ہمارے ہاتھوں میں ہو اور ہم اپنے طریقہ پر لڑکیوں کو تیار کرکے ان سے تمدن کے ضروری کاموں کی خدمت لینے پر قادر ہوں تو یقیناً ہم اس کا انتظام کریں گے کہ اسلامی حدود کی پابندی کرتے ہوئے لڑکیوں کو فن طب، سرجری، قابلہ گری، نرسنگ اور تربیت اطفال کی تعلیم دیں اور ان کو دوسرے علوم و فنون کی اعلیٰ تعلیم و تربیت دے کر معلمات بھی بنائیں اور ان سے تمدن کی دوسری مختلف ضروری خدمات بھی ایسے طریقوں پر لیں جو اسلامی تہذیب کے مطابق ہوں۔ اس سلسلےمیں یہ بات بھی ضمناً لائق تصریح ہے کہ ہم مسلمان اس مغربی نظریہ کے قائل نہیں ہیں کہ تیمارداری(نرسنگ) کا پیشہ عورت کے لیے مخصوص ہے اور یہ کہ زنانہ و مردانہ سب قسم کے ہسپتالوں میں نرس عورت ہی ہونی چاہئے۔ ہمارے نزدیک اس خیال کے لیے کوئی عملی اور عقلی بنیاد نہیں ہے، اور اخلاقی حیثیت سے یہ نہایت شرمناک ہے کہ نرس خواتین سے مردبیماروں کی تیمارداری کے وہ کام لیے جائیں جنہیں مرد تیماردار بھی انجام دیتے ہوئے حجاب محسوس کریں۔اس بنا پر ہم مسلمان لوگ اگر عورتوں کو طبی خدمات کے لیے تیار کریں گے تو عورتوں کے علاج اور تیمارداری کے لیے کریں گے نہ کہ عام طبی خدمات کے لیے۔ہمارے نزدیک مردانہ ہسپتالوں کے لیے مرد ہی نرس ہونے چاہیں۔
۸۔جنگ کے موقع پر تیمارداری، مرہم پٹی، مجاہدوں کھانا پکانا، اسلحہ اور رسد رسانی، پیغام رسانی وغیرہ کی خدمات انجام دینا عورتوں کے لیے جائز ہے، پردے کے احکام سے قبل بھی یہ خدمات عورتیں انجام دیتی تھیں اور ان احکام کے آنے کے بعد بھی دیتی رہیں اور آج بھی دے سکتی ہیں۔ لیکن یہ جواز اس شرط کے ساتھ ہے کہ فوج اسلامی ہو، حدود اللہ کی پابند ہو اور ان بدمعاشیوں سے پاک ہو جن میں آج کل کی فوجوں نے ناموری حاصل کررکھی ہے(W.A.CSI) جیسے معصوم ناموں سے عورتوں کو بھرتی کرنا اور پھر بدمعاش سپاہیوں اور افسروں کے لیے ان سے قحبہ گری کی خدمت لینا وہ شیطانی کام ہے جس کے لیے کوئی گنجائش برائے نام بھی اسلامی تہذیب میں نہیں نکل سکتی۔
(ترجمان القرآن۔ رمضان۶۵ھ ۔ اگست۴۶ء)