ضبط ولادت
سوال: آج کل ضبط ولادت کو خاندانی منصوبہ بندی کے عنوان جدید کے تحت مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ اس کے حق میں معاشی دلائل کے علاوہ بعض لوگوں کی طرف سے مذہبی دلائل بھی فراہم کیے جارہے ہیں۔ مثلاً یہ کہا جارہا ہے کہ حدیث میں عزل کی اجازت ہے اور برتھ کنٹرول کو اس پر قیاس کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں اب حکومت کی طرف سے مردوں کو بانجھ بنانے کی سہولیتں بھی بہم پہنچائی جارہی ہیں۔ چنانچہ بعض ایسے ٹیکے ایجاد ہو رہے ہیں جن سے مرد کا جوہر حیات اس قابل نہیں رہتا کہ وہ افزائش نسل کا ذریعہ بن سکے لیکن جنسی لذت برقرار رہتی ہے۔ بعض لوگوں کے نزدیک یہ طریقہ بھی شرعاً قابل اعتراض نہیں، اور نہ یہ قتل اولاد یا اسقاط حمل ہی کے ضمن میں آسکتا ہے۔
براہ کرم اس بارے میں بتائیں کہ آپ کے نزدیک اسلام اس طرز عمل کی اجازت دیتا ہے یا نہیں؟
جواب: ضبط ولادت کے موضوع پر اب سے کئی سال پہلے ایک کتاب ’’اسلام اور ضبط ولادت‘‘ لکھ چکاہوں جس میں دینی، معاشی اور معاشرتی نقطہ نظر سے اس مسئلے کے سارے پہلوؤں پر بحث موجود ہے۔ اب اس کا جدید ایڈیشن بھی ضائع ہوچکا ہے۔
آپ کے سوال کا مختصر جواب یہ ہے کہ عزل کے متعلق جو کچھ آنحضورﷺ سے پوچھا گیا اور اس کے جواب میں جو کچھ حضورﷺ نے بیان فرمایا اس کا تعلق صرف انفرادی ضروریات اور استثنائی حالات سے تھا۔ ضبط ولادت کی کوئی عام دعوت ہر گز پیش نظر نہ تھی۔ نہ ایسی کسی تحریک کا مخصوص فلسفہ تھا جو عوام میں پھیلایا جا رہا ہو، نہ ایسی تدابیر وسیع پیمانے پر ہر مرد و عورت کو بتائی جارہی تھیں کہ وہ باہم مباشرت کرنے کے باوجود استقرار حمل کو روک سکیں، اور نہ حمل کو روکنے والی دوائیں اور آلات ہر کس و ناکس کی دسترس تک پہنچائے جارہے تھے۔ عزل کی اجازت میں جو چند روایات مروی ہیں ان کی حقیقت بس یہ ہے کہ کسی اللہ کے بندے نے اپنے ذاتی حالات یا مجبوریاں بیان کیں اور آنحضورﷺ نے انہیں سامنے رکھ کر کوئی مناسب جواب دے دیا۔ اس طرح کے جو جوابات نبیﷺ سے حدیث میں منقول ہیں، ان سے اگر عزل کا جواز نکلتا بھی ہے تو وہ ہر گز ضبط ولادت کی اس عام تحریک کے حق میں استعمال نہیں کیا جاسکتا جس کی پشت پر ایک باقاعدہ خالص مادہ پرستانہ اور اباحیت پسندانہ فلسفہ کار فرما ہے۔ ایسی کوئی تحریک اگر حضورﷺ کے سامنے اٹھتی تو مجھے یقین ہے کہ آپ اس پر لعنت بھیجتے اور اس کے خلاف ویسا ہی جہاد کرتے جیسا شرک و بت پرستی کے خلاف آپؐ نے کیا۔ میں ہر اس شخص کو جو عزل کے متعلق آنحضورﷺ کے ارشادات کا غلط استعمال کرکے انہیں موجودہ تحریک کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کرتا ہے، خدا سے ڈراتا ہوں اور مشورہ دیتا ہوں کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے مقابلے میں اس جسارت سے باز رہے۔ مغرب کی بے خدا تہذیب کی پیروی اگر کسی کو کرنی ہو تو سیدھی طرح اسے دین مغرب سمجھ کر ہی اختیار کرے۔ آخر وہ اسے عین خدا اور رسول کی تعلیم قرار دے کر خدا کا مزید غضب مول لینے کی کوشش کیوں کرتا ہے۔
اسلام جس طرح ضبط ولادت کی عمومی تحریک کو روا نہیں رکھتا، اسی طرح وہ قصداً بانجھ بننے کی اجازت نہیں دیتا۔ یہ کہنا کہ جان بوجھ کر اپنے آپ کو بانجھ کرلینا کوئی ناجائز کام نہیں ہے، اتنی ہی غلط ہے جتنا یہ کہنا کہ آدمی کا خود کشی کرلینا جائز ہے۔ دراصل اس قسم کی باتیں وہ لوگ کرتے ہیں جن کے نزدیک آدمی اپنے جسم اور اس کی قوتوں کا خود مالک ہے اور اپنے جسم اور اس کی قوتوں کے ساتھ جو کچھ بھی کرنا چاہے، کرلینے کا حق رکھتا ہے۔ اسی غلط خیال کی وجہ سے جاپانی خود کشی کو جائز سمجھتے ہیں۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے بعض جوگی اپنے ہاتھ یا پاؤں یا زبان بیکار کرلیتے ہیں۔ لیکن جو شخص اپنے آپ کو خدا کا مملوک سمجھتا ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ یہ جسم اور اس کی قوتیں خدا کا عطیہ اور اس کی امانت ہیں۔ اس کے نزدیک اپنے آپ کو بانجھ کرلینا ویسا ہی گناہ ہے جیسا کسی دوسرے انسان کو زبردستی بانجھ کردینا یا کسی کی بینائی ضائع کردینا گناہ ہے۔
(ترجمان القرآن، اپریل ۱۹۶۰ء)