تعدد ازواج پر پابندی
سوال: میں آپ سے ایک مسئلہ دریافت کرنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ اگر اسلامی ریاست میں عورتوں کی تعدد مردوں سے کم ہو تو کیا حکومت اس بنا پر تعدد ازواج پر پابندی عائد کرسکتی ہے؟ اس سوال کی ضرورت میں نے اس لیے محسوس کی ہے کہ میرا اندازہ یہ ہے کہ قرآن مجید نے جہاں تعدد ازواج کی اجازت دی ہے وہاں ہنگامی صورت حال پیش نظر تھی۔ اس زمانے میں سالہا سال کے مسلسل جہاد کے بعد بہت سی عورتیں بیوہ ہوگئی تھیں اور بچے بے آسرا اور یتیم رہ گئے تھے۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے یہ اجازت دی گئی تھی تا کہ بیواؤں اور یتیم بچوں کو سوسائٹی میں جذب کیا جاسکے اور ان کی کفالت کی شائستہ صورت پیدا ہوسکے۔
جواب: آپ کے پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ کسی سوسائٹی میں عورتوں کی تعدد کا مردوں سے اتنا کم ہونا کہ اس سے ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہوجائے، ایک شاذ و نادر واقعہ ہے۔ عموماً تعدد مردوں ہی کی کم ہوتی رہتی ہے۔ عورتوں کی تعدد کم ہونے کے وجوہ وہ نہیں ہیں جو مردوں کی تعدد کم ہونے کے ہیں۔ عورتیں اگر کم ہوں گی تو اس وجہ سے کہ صنف اناث کی پیدائش ہی صنف ذکور سے کم ہو اور ایسا ہونا اول تو شاذو نادر ہے اور اگر ہو بھی تو عورتوں کی اتنی کم پیدائش نہیں ہوتی کہ اس کی وجہ سے ایک معاشرتی مسئلہ پیدا ہو اور اسے حل کرنے کے لیے قوانین کی ضرورت پیش آئے۔ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کی شادی کے رواج سے یہ مسئلہ خود ہی حل ہوجاتا ہے۔
دوسری بات جو آپ نے لکھی ہے، وہ قرآن مجید کے صحیح مطالعہ پر مبنی نہیں ہے۔ اسلام کے کسی دور میں بھی تعدد ازواج ممنوع نہ تھا اور کوئی خاص وقت ایسا نہیں آیا کہ اس ممانعت کو کسی مصلحت کی بنا پر رفع کرکے یہ فعل جائز کیا گیا ہو۔ دراصل تعدد ازواج ہر زمانے میں تمام انبیاء کی شریعتوں میں جائز رہا ہے اور عرب جاہلیت کی سوسائٹی میں بھی یہ جائز اور رائج تھا۔ نبی ﷺ کی بعثت کے بعد صحابہ کرامؓ بھی اور خود نبی ﷺ بھی اس پر عامل تھے۔ قرآن مجید میں کوئی آیت ایسی نہیں، جس سے یہ شبہ کیا جاسکتا ہو کہ اس آیت کے نزول سے پہلے تعدد ازواج ناجائز تھا اور اس آیت نے آکر اسے جائز کیا۔ آپ کے علم میں ایسی کوئی آیت ہو تو اس کا حوالہ دیں۔
سوال نمبر ۲: آپ مجھے معاف فرمائیں اگر میں عرض کروں کہ آپ کے جواب سے تشفی نہیں ہوئی۔ میری گزارش صرف اتنی تھی کہ اگر کسی معاشرے میں عورتوں کی تعدد مردوں سے کم ہوجائے تو کیا اس صورت میں حکومت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ زیادہ شادیوں پر پابندی عائد کرسکے؟ آپ نے فرمایا کہ ایسا شاذو نادر ہی ہوسکتا ہے۔ لیکن میرا سوال بھی اسی شاذ صورت حال سے تعلق رکھتا ہے۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ اس وقت پاکستان میں (مردم شماری کی رو سے) عورتیں مردوں کے مقابلے میں کم ہیں۔ اب کیا حکومت کوئی ایسا قانون بنا سکتی ہے کہ جب تک یہ صورت حال قائم رہے، ایک سے زیادہ شادیوں کی ممانعت ہوجائے؟
میں نے عرض یہ کیا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت کا مطلب غالباً یہ ہے کہ اس زمانے میں جب آنحضرت ﷺ دعوت حق میں مصروف تھے تو سالہا سال کے جہاد کی وجہ سے بیوہ عورتوں اور یتیم بچوں کا مسئلے حل کرنا پڑا، اور اس کی صورت یہ تجویز کی گئی کہ ایک سے زیادہ شادیوں کی اجازت دے دی۔ جس مقام پر یہ اجازت دی گئی ہے، اس سے قبل جہاد و قتال کا ہی ذکر آیا ہے۔ اس طرح میں نے (غلط یا صحیح) یہ استنباط کیا ہے کہ یہ اجازت مخصوص حالات کے لیے ہوسکتی ہے۔ اگر یہ استنباط غلط بھی ہے اور جیسا کہ آپ نے فرمایا ہے کہ یہ قرآن مجید کے صحیح مطالعہ پر مبنی نہیں تو اس سے ہٹ کر بھی یہی کچھ سوچا جاسکتا ہے کہ دو دو، تین تین، اور چار چار نکاح اسی صورت میں کیے جاسکتے ہیں جب کہ معاشرے میں عورتوں کی تعدد مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ اگر ان کی تعاد مقابلتاً زیادہ نہ ہو یا مردوں کے مساوی ہو تو اس جواز سے فائدہ اٹھانے کی کیا ضرورت ہے؟
جواب: پاکستان کی مردم شماری میں عورتوں کی تعدد کا مردوں سے کم پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ فی الواقع ہمارے ہاں عورتوں کی تعدد مردوں سے کم ہے۔ بلکہ اس میں ہمارے ہاں کے رسم رواج کا بڑا دخل ہے جس کی بنا پر لوگ اپنے گھر کی عورتوں کا اندراج کرانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ تاہم اگر کروڑوں کی آبادی میں چند لاکھ کا فرق ہو بھی تو اس سے کوئی ایسا معاشرتی مسئلہ پیدا نہیں ہوتا جس کے لیے تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت پیش آئے۔ یہ مسئلہ بیوہ اور مطلقہ عورتوں کے نکاح ثانی سے حل ہوجاتا ہے اور بالفرض اگر کوئی بہت ہی غیر معمولی کمی واقع ہوجائے تو عارضی طور پر کچھ مدت کے لیے پابندی عائد کرنا بھی جائز ہوسکتا ہے بشرطیکہ اس پابندی کا اصل محرک یہی مسئلہ ہو۔ لیکن اس بات کو چھپانے کی آخر کیا ضرورت ہے کہ ہمارے ہاں تعدد ازواج پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت دراصل اس بنا پر محسوس نہیں کی گئی ہے بلکہ اس کا اصل محرک یہ مغربی تخیل ہے کہ تعدد ازواج بجائے خود ایک برائی ہے اور ازروئے قانون یک زوجی ہی کو رواج دینا مطلوب ہے۔ یہ محرک ہمارے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے اور اس کی جڑ کاٹنا ہم ضروری سمجھتے ہیں۔
میں نے پہلے بھی لکھا تھا اور اب پھر اس کا اعادہ کرتا ہوں کہ قرآن مجید میں کوئی آیت تعدد ازواج کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی ہے۔ تعدد ازواج پہلے سے جائز چلا آرہا تھا اور سورۃ النساء کی آیت نمبر ۳ کے نزول سے پہلے خود نبی ﷺ کے گھر میں تین ازواج مطہرات موجود تھیں۔ نیز صحابہ کرامؓ میں بھی بہت سے اصحاب تھے جن کے ہاں ایک سے زیادہ بیویاں تھیں۔ سورۃ النساء کی مذکورہ آیت اس جائز فعل کی اجازت دینے کے لیے نہیں آئی تھی بلکہ اس غرض سے آئی تھی کہ جنگ احد میں بہت سے صحابہ کرام ؓ کے شہید ہوجانے اور بہت سے بچوں کے یتیم ہوجانے سے فوری طور پر جو معاشرتی مسئلہ پیدا ہوا تھا، اسے حل کرنے کی صورت مسلمانوں کو یہ بتائی گئی کہ اگر تم یتیموں کے ساتھ ویسے انصاف نہیں کرسکتے تو دو دو، تین تین، چار چار عورتوں سے نکاح کرکے ان یتیموں کو اپنی سرپرستی میں لے لو۔ اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ تعدد ازواج صرف ایسے ہی مسائل پیش آنے کی صورت میں جائز ہے۔ آخر تیرہ چودہ سو برس سے ہمارے معاشرے میں یہ طریقہ رائج ہے۔ اس سے پہلے کب یہ سوال پیدا ہوا تھا کہ تعدد ازواج کی اجازت مخصوص حالات کے ساتھ مشروط ہے؟ یہ طرز فکر ہمارے مغرب کے غلبہ سے پیدا ہوا ہے۔
(ترجمان القرآن۔ مئی ۱۹۶۳ء)